Aurat March Aur Taqseem hota muashra'a

عورت مارچ اور تقسیم ہوتا معاشرہ۔۔​

تنویر احمد خان​

march-4.jpg?resize=410%2C273&ssl=1?ver=1.jpg

پاکستان میں سوائے چند مولوی ٹائپ اور تنگ نظر لوگوں کے عورتوں کے مساوی انسانی حقوق کی جدوجہد پر بیشتر موڈریٹ لوگوں کو اعتراض نہیں تھا۔۔۔عورت کے استحصال کے خلاف آواز بلند کرتے اور ملک میں رائج سوشل ویلیوز سے مطابقت رکھتے عورت مارچ کے خلاف بھی کوئی خاص آواز نہیں اٹھ رہی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے چند گلوبل معاشرتی قیود کے مخالف نعروں اور پوسٹرز کے فیمینازی بیانیے پر اعتراض اٹھا، اعتراض کو دور کر کے آگے بڑھا جا سکتا تھا،
لیکن چند فیمینازی خواتین کی ضد اور بےجاء کی تاویلوں سے معاملہ معاشرے کو تقسیم کر کے بڑھتے بڑھتے ایک صنفی و معاشرتی جنگ بن گیا ہے۔۔
مثبت سول ڈسکورس سے معاشرے کے مورل فائبر کی پراگریس کا موقع بگڑ کر شدید ہوتی تقسیم کے باعث ناصرف رک گیا ہے بلکہ ریگریشن میں تبدیل ہو گیا ہے۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں عورت کا نفسیاتی اور جنسی وجسمانی استحصال کرنے والے مردوں کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے لیکن اسکے لیے معاشرے کے ہر مرد کو جنسی درندہ قرار دینا یا وحشی و سفاک کہہ کر سب کو جرنالائزیشن کی ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا کون سا مثبت عمل ہے۔۔
اگر خلیل ارحمٰن قمر جیسے بیمار ذہن، سائیکوپیتھ کو ہر طلاق لینے والی یا خودمختار عورت جنسی بے راہ روی پر مائل نظر آتی ہے تو فیمینازی خواتین کو بھی تو ہر مرد بدکردار، ناانصافی برتنے والا عیاش، سفاک اور جنسی بھوک میں مبتلا حیوان ہی دکھتا ہے۔
آپ زہریلے ریلیشن شپ کے نقصانات، فائنینشل انڈیپینڈنس کے فوائد، کنسنٹ کی اہمیت، ری پروڈکٹیو ہیلتھ، سیکشوول ہراسمنٹ، فی میل سبجیکشن اور ان سب سے جڑے عورت کے مسائل ‘میرا جسم میری مرضی’ کی جگہ ‘مجھے میرا حق دو’ کا نعرہ لگا کر بھی تو اجاگر کر سکتی تھیں۔
مغرب میں کچھ عورتیں میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا کر مردوں کی طرح پبلک میں قمیض اتارنے کی آزادی کا حق مانگ رہی ہیں۔ بعض خواتین کچھ ایسا ہی نعرہ لگا کر جسم فروشی کا حق بھی مانگ رہی ہیں،
اب آپ ہی بتائیں کہ اس سب بیانیے کی پاکستان میں عورتوں کے مسائل کے حوالے سے کیا ریلیونس ہے۔؟
نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا پاکستان میں میری چھاتیاں میری مرضی یا جب چاہے ابارشن کراِؤں اور جس کے ساتھ مرضی سیکس کروں کی تحریک بھی شروع کر دی جائے، کیونکہ ترقی یافتہ مغربی ممالک میں تو یہ تحاریک بہرحال کسی نہ کسی سطح پر چل رہی ہیں۔
اگر دقیانوس سوچ رکھنے والے لوگ عورت مارچ کو جنسی بے راہ روی اور جسم کی نمائش کی آزادی سے تعبیر کر رہے ہیں تو آزاد خیال طبقہ بھی تو کسی کی کوِئی بات سننے کو تیار نہیں ہے، اپنے ہر ایک نقل شدہ بیانیے اور طرزِ عمل کے لیے ان کنڈیشنل حمایت مانگ رہا ہے۔
آپ فئیر نوشنز آف جسٹس اینڈ ایکویٹی کو ہر قسم کے معاشرتی نارمز کو توڑتے ہپی ازم سے کیسے ملا سکتی ہیں۔ یہ ملاوٹ شدید ردِ عمل کا باعث ہے۔ لیکن مانے کون۔
آج اس جنگ کی کمان اب ایک طرف تو مذہب، سماج، خانگی نظام اور ہر معاشرتی قائدے قانون سے مُبرا شخصی آزادی کی قائل کچھ عورتوں کے ہاتھ میں ہے تو دوسری طرف سے جواب میں مردانہ حاکمیت، احساسِ برتری، نفرت، تکبر اور ہر قسم کی مغلغات و خرافات سے بھرے خلیل الرحمٰن قمر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ عورتوں کے جینوین مسائل پیچھے رہ گئے ہیں۔
عورت مارچ اگر خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے خلاف تھا، ان کے مساوی حقوق کی جدوجہد کے لیے تھا، تو اب اسے کنٹروورشل برینڈنگ اور خواتین کے استحصال کو کیش کرتی مرد بیزار عورتوں کی اونرشپ کے بعد پاکستان میں حمایت تو کم ملے گی لیکن اس کی مخالفت بہت زیادہ بڑھ جائے گی۔
یہ مارچ تنازع کی شکل اختیار کر جانے کے بعد پاکستان کی عورت کے مساوی حقوق کے لیے کاؤنٹر پروڈکٹیو ثابت ہو گا اور معاشرے کو صنفی اور فکری لڑائی کی بنیاد پر تقسیم کر کے نقصان پہنچائے گا ہاں لیکن چند مخصوص لوگوں کی تشہیر، ریلیونس، کمائی اور انا کی تسکین کے لیے یہ سب کچھ کافی نفع بخش بھی ثابت ہوگا۔​
 

Back
Top