عورت مارچ- امجد اسلام امجد

گزشتہ کئی دنوں سے کچھ احباب( جن میں مرد و زن دونوں شامل ہیں) اور میڈیا کے دوستوں نے 8مارچ کو ہونے والے ’’عورت مارچ ‘‘ کو خوامخواہ ایک مسئلہ بنا یا ہے اور اس کی آڑ میں ایک ایسی بحث کا آغاز کر دیا جسے اصولاً ہونا ہی نہیں چاہیے ،جہاں تک مسئلہ عورتوں کے حقوق کا ہے ، ہمارا دین اور ملکی آئین دونوں اس کی تعظیم اور حد بندی میں واضح ہیں۔

اصل گڑ بڑ اس وقت ہوئی جب خواتین کی کچھ نمایندہ تنظیموں نے ان حقوق کی وضاحت اور یاد دہانی کے لیے نہ صرف ایک باقاعدہ مارچ کا اعلان کیا جب کہ اس کے ساتھ کچھ ایسے نعرے بھی جوڑ دیے جن میں سے چند ایک ضرورت سے زیادہ بلند آہنگ تھے اور ایک دو کے الفاظ کا چناؤ بھی کچھ بہت زیادہ محتاط نہیں تھا لیکن غور سے دیکھا جائے تو انتہا پسندی کا یہ مظاہرہ خواتین کی ایک محدود اقلیت کی طرف سے کیا گیا ہے اور جن پر ان کے مخالف انتہا پسندوںنے غیر ملکی فنڈ سے چلنے والی این جی اوز کی ایجنٹی اورخواتین کے حقوق کی آڑ میں بے حیائی کے فروغ کا الزام لگایا ہے۔ یہ اس مسئلے کا اصلی چہرہ نہیں ہے کہ دریا کا پتہ اس کے کناروں سے نہیں بلکہ درمیان سے چلتا ہے، یہ دونوں طرف سے لفظوں کی گولہ باری کرنے والے لوگ تعداد میں کم مگرشور اور شر انگیزی میں زیادہ ہیں اور بظاہر یوں لگتا ہے کہ ان کے بیانات ان کے پورے طبقے کے نمایندہ ہیں جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور نہ ہی اس معاملے کو ان کی آنکھ سے دیکھنا اور دکھانا چاہیے۔

عورتوں کا اپنے جائز اور بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی کے لیے آواز ا ٹھانا یا اس کے لیے کوئی مارچ وغیرہ کرنا کوئی غلط یا ناجائز کام نہیں ہے۔ دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ اس اعلان اور احتجاج کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں رہے جو ایک خاص حد سے زیادہ جذباتی یا ذاتی تشہیر کے مرض میں مبتلا نہ ہوں اور دوسری طرف سے بھی ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے جو معاملے سے زیادہ معاملے کے حل میں دلچسپی رکھتے ہوں لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ ہم میڈیا پر دونوں طرف سے ایسے لوگوں کو آمنے سامنے بٹھا دیتے ہیں جو یا تو نمایندگی کے معیار پر ہی پورے نہیں اترتے یا پھر ان کے اپنے ذاتی مسائل انھیں اس طرح سے گھیرے رکھتے ہیں کہ بات سلجھنے کے بجائے الجھتی چلی جاتی ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض اوقات کوئی بات غصے یا زبان کے غیر محتاط استعمال کے باعث اس طرح سے کی جاتی ہے کہ دوسری طرف سے اس کا رد عمل بھی مکالمے کے بجائے مناظرے کے انداز میں سامنے آتا ہے اور یوں ایک غلطی کا دوسری غلطی سے جواب دینے کے باعث معاملہ خراب ہوجاتا ہے، جب 98 فیصد مرد اور تقریباً اتنے ہی فیصد عورتیں مذہب کا خوف اور کلچر کے حوالے سے ایک دوسرے کے بنیادی حقوق کو مانتے ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ ہم دو فیصد انتہا پسند لوگوں کے پیچھے لگ کر ایک ایسے راستے پر نکل جائیں جو شک ‘ گمان یا ایک دوسرے کی نفی اور استحصال کی طرف کھلتا ہے ۔

کیونکہ ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے الفاظ کے بجائے اس نعرے کے اس پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کی جائے جس کی بنیاد پر یہ لگا یا اسے لگایا گیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ ایک دو فیصد خواتین واقعی ایسی آزادی کے حق میں ہوں۔ جو ہمارے دین اور کلچر سے براہ راست متصادم ہوں لیکن اگر ان کی بات کو دھیان اور تحمل سے سنا جائے تو مجھے یقین ہے کہ ان میں سے بیشتر کے اظہار کی تندی اور لہجے کی تلخی میں ایسی کمی پیدا ہو جائے گی کہ وہ ان نعروں کی زبان میں بھی ترمیم اور تصحیح پر آمادہ ہو جائیں گی جن کی وجہ سے یہ خوامخواہ کا طوفان کھڑا کیا گیا ہے اور یوں یہ عورت مارچ ایک ایسا اظہار ذات بن جائے گا جو نہ صرف نئے زمانے کے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والی خواتین کے ان مسائل کا آئینہ دار ہو گا جو حقیقی ہیں اور جن کا ادراک اور حل ہم سب کی ذمے داری ہے بلکہ ان کے وہ رشتے بھی جو باپ بھائی شوہر اور بیٹے کی شکل میں ازل سے چلے آ رہے ہیں، ہر ہر قدم پر ان کے ساتھ اور شریک ہوں گے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا پر اس مارچ اور اس کے اصل محرکات پر ان کے انتہا پسندانہ سوچ کے حامل افراد کے بجائے ایسے لوگوں کو سامنے لایا جائے جو لفظوں کے انتخاب میں محتاط اور ذمے دار ہوں اور اس نیت سے مکالمے میں شامل ہوں کہ انھیں ایک دوسرے کو صرف اپنی اپنی بات سنانا ہی نہیں بلکہ دوسرے کی بات کو سننا اور سمجھنا بھی ہے اور یوں مل کر نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق معاشرے میں ایک دوسرے کے حقوق کے یقین کے ساتھ ساتھ ان کی تعظیم اور پابندی کا ماحول بھی پیدا کرنا ہے اسے روشن خیالی یا عرف عام والی مولویانہ فکر کے درمیان وجہ نزاع کے بجائے ایک ایسے امر واقعہ کی طرف دیکھنا چاہیے جس میں ساری کوشش ایک ایسی انصاف کی فضا کے قیام کے لیے ہونی چاہیے جو پورے معاشرے کو اپنی ماضی کی تمام تر خوب صورتیوں کے ساتھ آگے کی طرف لے کر جائے کہ جب تک اس گاڑی کے دونوں پہیے ایک دوسرے کے ساتھ مطابق‘ متوازن اور ہم قدم نہیں ہوں گے، یہ گاڑی نہ تو اپنی رفتار درست اور تیز کر پائے گی اورنہ ہی اس کا رخ اس منزل کی طرف ہو گا جو ہم سب کی سانجھی ہے۔ خواتین کے عالمی دین کی رعایت سے ایک گیت نما نظم اسی خوبصورت ہم سفر ی کی نذر

زندگی کا سفر‘ روشنی کا سفر

جو بھی ہوں مشکلیں‘ جو بھی ہو رہگزر

علم رہبر مرا‘ حوصلے ہیں جواں

اپنی تہذیب کے حسن کی ترجماں

آنے والے زمانے کی عورت ہوں میں

باحیا اور نڈر

زندگی کا سفر‘ روشنی کا سفر

ان شب و روز میں تازگی ہم سے ہے

راستہ راستہ‘ روشنی ہم سے ہے

حوصلہ ہم سے ہے‘ دلکشی ہم سے ہے

اپنے ہونے سے ہے‘ ہر خوشی معتبر

جو بھی ہوں مشکلیں‘ جو بھی ہو رہگزر

جنتوں کی فضا ماں کے قدموں تلے

بہنیں اور بیٹیاں امن کے سلسلے

میں چلوں تو میرے ساتھ دنیا چلے

میری تعظیم کر ‘ مجھ کو تسلیم کر

جو بھی ہوں مشکلیں جو بھی ہو رہگزر

بے بسی کا سفر اب نہ دہرائیں گے

ظلم کی راہ میں دیوار بن جائیں گے

اپنا ہر حق زمانے سے منوائیں گے

زندگی کی مسافت کے ہر موڑ پر

جو بھی ہوں مشکلیں جو بھی ہو رہ گزر​
 
Columnist
Amjad Islam Amjad
@intelligent086
خوبصورت نظم کے ساتھ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 

@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top