Aurat March Kis Liye ? By Muhammad Zia Ul Haq Naqashbandi Column

عورت مارچ کس لیے؟۔۔۔۔۔ محمد ضیاء الحق نقشبندی

ہر سال 8مارچ کو دنیا بھر کی خواتین کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد خواتین کو معاشرے میں ایک باوقار مقام اور وہ حقوق دلانا ہیں جن سے اُنہیں محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ دن جس معاشرے کی اختراع ہے وہاں واقعی خواتین کو وہ حقوق حاصل نہ تھے جس کیلئے اُنہیں باقاعدہ جدوجہد کرنا پڑی لیکن دین اسلام، جس کے ہم پیروکار ہیں، اُس نے عورت کو ہر رنگ میں عزت و تکریم بخشی ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی، عورت کے ہر رشتے کے حقوق کے حوالے سے اسلام کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت رکھی گئی ہے، بیٹی اور بہن کی اچھی پرورش، اچھی تعلیم و تربیت اور اُنکی اچھی جگہ شادی کے بدلے جنت کی ضمانت دی گئی ہے اور بیوی کیساتھ حسن سلوک کرنے والے کیلئے بھی آخرت میں بھلائی کی بشارت ہے حتیٰ کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہ معاشرہ بھی عورت کو ایک باعزت اور باوقار مقام دیتا ہے۔ اِس معاشرے کے مرد ہمیشہ عورت کو وہ مقام و مرتبہ دیتا ہے جو اُس کا حق ہے، عورت کے حقوق اور اُس کی عزت ہر مرد کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں آج تک ایسا مرد نہیں دیکھا جس نے شادی بیاہ یا کوئی فنکشن تو دور کی بات عام روٹین میں بھی اپنے گھر کی عورت (ماں، بہن، بیٹی بالخصوص بیوی) سے مہنگا لباس پہنا ہو! حالانکہ کماتا وہی مرد ہے۔ یہاں کوئی عورت بس میں سوار ہو تو اُس کی تکریم میں سیٹ چھوڑ دی جاتی ہے۔ بینک، ڈاکخانے یا کسی بھی دفتر میں خواتین کے لیے نہ صرف مردوں کے برابر الگ قطار بنائی جاتی ہے بلکہ اُنہوں مردوں پر ترجیح دیتے ہوئے اُن کا کام پہلے کیا جاتا ہے۔ اسی معاشرے میں اگر کسی عوامی مقام پر یا کسی دفتر میں جب عورت سے کوئی ایک مرد بدتمیزی کی کوشش کرتا ہے تو اُس کے مقابلے میں دس مرد اُس عورت کی عزت بچانے کیلئے مرد کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اچھی تعلیم تربیت، اچھی پرورش، شادی، حق مہر اور طلاق سے لے کر وراثت تک، یہاں عورت کو ہر حق حاصل ہے، پھر ایسا کون سا حق ہے جس کی خاطر ہماری عورتوں کو مارچ کرنے کی ضرورت پڑ گئی ہے؟
حالیہ دنوں میں نے سوشل میڈیا پر 1930کی دہائی کی ایک تصویر دیکھی، جس میں ایک گورا افسر ایک بنگالی عورت کے کندھوں پر بیٹھا سواری کر رہا ہے، وہ زمانہ جاہلیت نہیں بلکہ یورپ کے عروج کا دور تھا۔ یہی گورے آج ہمیں عورتوں کے حقوق کا درس دیتے ہیں۔ یہ تصویر مغربی اقدار کا بھیانک چہرہ ہے جو ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ اِس لئے ہماری خواتین اُس معاشرے کی اقدار کو نمونہ بناکر خداوند تعالیٰ، اپنے دین، اپنے نبیﷺ کی تعلیمات اور اپنی معاشرتی اقدار کا مذاق نہیں اُڑا سکتیں۔

میں قطعی طور پر خواتین کے عالمی دن منانے کی مخالفت نہیں کر رہا، گزشتہ چند برسوں سے یہ دن پورے شد و مد کیساتھ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منایا جاتا ہے اور جہاں کسی عورت کی حق تلفی ہوتی ہے ہمارا دین، ہمارا آئین، ہمارا معاشرہ وہاں اُس کیساتھ کھڑا ہوتا ہے لیکن خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ میں کچھ ایسے نعرے لگائے جاتے ہیں، کچھ ایسے پوسٹر بنائے جاتے ہیں جو ہماری دینی اور معاشرتی تعلیمات کے منافی ہیں۔ کچھ ایسے نامکمل اور مبہم نعرے بنائے جاتے ہیں جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں ایسے ہی ایک نعرے کی وجہ سے ہمارے قومی ٹیلی وژن پر وہ سب کچھ ہوا جو کسی بھی مہذب معاشرے کی پہچان نہیں ہوتا اور اُس پر مستزاد یہ کہ اُس غلطی کی اصلاح کرنے کے بجائے ہر ٹی وی چینل نے ریٹنگ کے چکر میں اخلاقیات سکھانے کی کوشش میں بداخلاقی کی تمام حدیں پار کر دیں۔ ہمارے دین نے عورت کو وہ بلند مقام دیا ہے جو کسی بھی دوسرے مذہب نے نہیں دیا۔ دنیا کے مختلف مذاہب اور قوانین کی تعلیمات کا مقابلہ اگر اسلام کے اس نئے منفرد و ممتاز کردار سے کیا جائے، جو اسلام نے عورت کے وقار و اعتبار کی بحالی، انسانی سماج میں اسے مناسب مقام دلانے، ظالم قوانین، غیر منصفانہ رسم و رواج اور مردوں کی خود پرستی، خود غرضی اور تکبر سے اسے نجات دلانے کے سلسلہ میں انجام دیا ہے، تو معترضین کی آنکھیں کھل جائیں گی اور ایک پڑھے لکھے اور حقیقت پسند انسان کو اعتراف و احترام میں سر جھکانا پڑے گا۔ اسلام میں مسلمان عورت کا مقام بلند اور موثر کردار ہے اور اسے ہر اُس حق سے نوازا گیا ہے جس کا وہ تصور کر سکتی ہے۔ اسلام نے عورت کو ذلت کے بجائے عزت و رفعت سے سرفراز کیا اور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہمکنار کیا چنانچہ قرآن کا ’’حقِ وراثت و حقوق نسواں‘‘ یورپ کے ’’قانونِ وراثت‘‘ اور ’’حقوقِ نسواں‘‘ کے مقابلہ میں بہت زیادہ مفید اور فطرتِ نسواں کے زیادہ قریب ہے۔ عورت کے بارے میں اسلام کے احکام نہایت واضح ہیں، اس نے عورت کو ہر اس چیز سے بچانے کی کوشش کی ہے جو اُسے کو تکلیف پہنچائے اور اس پر دھبہ لگائے۔ اسلام میں پردہ کا دائرہ اتنا تنگ نہیں ہے جتنا بعض لوگ سمجھتے ہیں، بلکہ وہ عین حیا اور غیرت و وقار کا تقاضا ہے۔

مرد اور عورت نہ صرف ایک گھرانے بلکہ پورے معاشرے اور قوم کی کیلئے ایک گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں جنہیں حقیقتاً برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے ہماری خواتین اسلامی دائرہ کار سے باہر نکلنے کے بجائے اسلامی تعلیمات کی پیروی کرتے ہوئے ماں اور بہن کے روپ میں مردوں کا ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں کسی مرد میں کسی عورت کے استحصال کی جرات نہ ہو اور مرد بھی کشادہ دلی سے عورتوں کی بات سنیں، اُنہیں وہ حقوق فراہم کریں جس کی وہ حقدار ہیں۔ ہمارا دن اِس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی بھی معاملہ میں دین کے دائرہ کار سے باہر نکلا جائے۔​
 
کن دین اسلام، جس کے ہم پیروکار ہیں، اُس نے عورت کو ہر رنگ میں عزت و تکریم بخشی ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی، عورت کے ہر رشتے کے حقوق کے حوالے سے اسلام کی واضح تعلیمات موجود ہیں۔ ماں کے قدموں میں جنت رکھی گئی ہے، بیٹی اور بہن کی اچھی پرورش، اچھی تعلیم و تربیت اور اُنکی اچھی جگہ شادی کے بدلے جنت کی ضمانت دی گئی ہے اور بیوی کیساتھ حسن سلوک کرنے والے کیلئے بھی آخرت میں بھلائی کی بشارت ہے حتیٰ کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، وہ معاشرہ بھی عورت کو ایک باعزت اور باوقار مقام دیتا ہے۔ اِس معاشرے کے مرد ہمیشہ عورت کو وہ مقام و مرتبہ دیتا ہے جو اُس کا حق ہے، عورت کے
بےشک
شیئر کرنے کا شکریہ
 

@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top