Aurat March , Mera Jism Meri Marzi By Mufti Abdul Majeed Nadeem Article

عورت مارچ … میرا جسم میری مرضی ۔۔۔ مفتی عبدالمجید ندیم

گزشتہ چند دنوں سے پاکستان میں ہونے والا’’ عورت مارچ‘‘ بحث و تمحیص کا موضوع بنا ہوا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے بھی اس کی مشروط اجازت دے دی ہے۔ منتظمین سے کہا گیاہے کہ وہ متنازعہ سلوگن استعمال نہ کریں اور انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مظاہرین کو سیکورٹی مہیا کریں۔ ٹی وی کے ٹاک شوز پر گرما گرم بحث جاری ہے جس میں مارچ کے حق میں اور اس کے خلاف دھواں دار دلائل دیے جارہے ہیں۔اس بات میں کو ئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں عورت کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ وہ ہر جگہ ظلم کا شکار ہے۔ اسلام نے ماں، بیٹی، بہن اور بیوی ہونے کے ناتے اس کے جو حقوق مقرر کئے تھے انہیں دیدہ دلیری سے پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔ وہی ماں جس کے قدموں میں جنت رکھی گئی ہے اولڈ ہومز میں گل سڑ رہی ہے، وہی بہن اور بیٹی جس کی پرورش جنت کے حصول کا ذریعہ ہے زندگی کے حق سے محروم ہو رہی ہے، وہی بیوی جو گھر کی ملکہ کا درجہ رکھتی تھی مرد کی ہولناکیوں کا شکار ہو کر سسک سسک کر زندگی کی بازی ہار رہی ہے ۔ بے دین افراد تو درکنار دین دار ہونے کے دعویدار بھی دھڑلے سے اپنی خواتین کو ان کے حقِ وراثت سے محروم رکھے ہو ئے ہیں ۔ کہیں ان کی قرآن سے شادی کر دی جاتی ہے اور کہیں وہ جہیز نہ ہو نے کی وجہ سے شادی کی عمر سے گزر جاتی ہیں۔ اگر وہ کسی مجبوری کی وجہ سے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو اوباش مردوں کی جنسی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں ۔آج بھی پاکستان کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں پر بڑے فخر کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے کہ ’’عورت تو پاؤں کی جوتی ہے‘‘۔جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے بھی اس حوالے سے کوئی مؤثر کام نہیں کیا ہے۔ کتنی مذہبی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے جبری شادیوں، جہیز کی لعنت، جنسی ہراسگی اور عورتوں پر تیزابی حملے، ناجائز قتل کے خلاف کوئی ایکشن پلان دیا ہو۔ کتنے علماء، شیوخ اور پیرانِ طریقت ایسے ہیں جنہوں نے جمعہ کے خطبات، مذہبی کانفرنسوں اور جلسوں میں ان موضوعات پر اسلام کا نکتہ نظر پیش کیا ہوـ؟۔ جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے وہ اس مسئلے پر کوئی جامع حل پیش کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ہر حکومت یہ کہتی ہے کہ عورت کے حقوق کی پامالی برداشت نہیں کی جا ئے گی۔ قانون سازی ہو گی اورقانون حرکت میں آئے گا لیکن آج تک کسی عدالت نے عورت پر ظلم کرنے والوں کو ان کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دونوں اطراف سے بحث، الزامات اور تہمات کی بارش ہوتی ہے لیکن کسی واضح حل کا دور دور تک نام و نشاں نہیں ملتا۔یہ ہیں وہ حالات جن کا فائدہ اٹھا کر ’’عورت مارچ‘‘ کی منتظمین میدانِ عمل میں آتی ہیں۔کاش وہ اس معاملے کو سیریس لیتیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرتیں جس کا انہیں دعویٰ ہے لیکن انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے عزائم میں شاید یہ بات داخل ہی نہیں ہے کہ وہ عورت کو اس کا حق دلانا چا ہتی ہیں۔ سب سے پہلے ان سلوگنوں کی طرف آتے ہیں جن کا چرچا چہار سو برپا ہے ۔’’ میرا جسم میری مرضی‘‘۔’’شادی کے علاوہ اور بہت کام ہیں‘‘۔’’عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے‘‘۔’’اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پہ باندھ لو‘‘۔’’تمہارے باپ کی سڑک نہیں ہے‘‘۔’’مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے؟‘‘۔’’اپنا ٹائم آگیا ہے‘‘۔’’آؤکھانا ساتھ بنائیں‘‘۔’’خود کھانا گرم کر لو‘‘۔’’میری شرٹ نہیں تمہاری سوچ چھوٹی ہے‘‘۔’’جہیز کی مانگ بے غیرتی کاکام‘‘۔’’میرے کپڑے میری مرضی‘‘۔’’ماہواری ہے تو تم ہو، ماہواری سے شرم کیسی؟‘‘پھر دیکھئے انگریزی کے سلوگن: My body is not your battlegroundاورWomen are not your punching bagsان تمام نعروں کو دیکھ کر ان کے پیچھے کارفرما ایجنڈہ ہماری سمجھ میں آجاتا ہے۔ کاش اس طرح کی مہم چلانے والے مرد وخواتین، عورت کے تحفظ کے لئے یکسو ہوتے لیکن ان کے نعرے، انداز اور ایکشن پلان ان کی نیتوں کا فتور بتا رہے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرے میں بہت سی خرابیاں ہیں لیکن اس کی مشرقی روایات، دینی اقدار اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ہی کوئی مہم چلائی جا سکتی ہے۔ جب آپ اس طرح کے متنازعہ نعرے اور سلوگن دیں گے تو معاشرے کا کو ئی بھی شریف مرد و زن اسے قبول نہیں کرے گا ۔اب سب سے پہلے سلوگن ہی کو لے لیجیے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘۔ اس سے آخر مراد ہی کیا ہے؟ کیا آزادی نسواں کی چمپئن یہ کہنا چاہتی ہیں کہ میراجسم میری ملکیت ہے۔ میں جو چاہوں کروں، مذہب کی کوئی پابندی ، تہذیب کی کوئی قدر، بزرگوں کا کوئی حکم مجھے پابند نہیں بنا سکتا۔ جسم میرا ہے لہٰذا مرضی بھی میری ہی چلے گی، تو کون ذی عقل اس کی حمایت کرے گا ؟ پھر ان سلوگنوں میں تہذیب، عزت اور شرافت کا جنازہ بھی نکالا گیا ہے ۔’’ماہواری ہے تو تم ہو، ماہواری سے شرم کیسی؟‘‘ کتنا شرمناک اور اندوہناک ہے؟ معصوم بچوں کو یہی سکھانا چاہتے ہیں؟ ۔’’تمہارے باپ کی سڑک نہیں ہے‘‘ بے ادبی، بے شرمی اور ڈھٹائی کا شاخسانہ۔۔۔ لہٰذا ہم دست بدست عرض کریں گے کہ عورتوں کے تحفظ کے لئے ضرور مہم چلائی جائے لیکن اس میں دینی حمیت اور اپنی روایات پر کوئی سودا بازی نہ کی جائے۔۔۔۔​
 
۔ سب سے پہلے ان سلوگنوں کی طرف آتے ہیں جن کا چرچا چہار سو برپا ہے ۔’’ میرا جسم میری مرضی‘‘۔’’شادی کے علاوہ اور بہت کام ہیں‘‘۔’’عورت بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں ہے‘‘۔’’اگر دوپٹہ اتنا پسند ہے تو اپنی آنکھوں پہ باندھ لو‘‘۔’’تمہارے باپ کی سڑک نہیں ہے‘‘۔’’مجھے کیا معلوم تمہارا موزہ کہاں ہے؟‘‘۔’’اپنا ٹائم آگیا ہے‘‘۔’’آؤکھانا ساتھ بنائیں‘‘۔’’خود کھانا گرم کر لو‘‘۔’’میری شرٹ نہیں تمہاری سوچ چھوٹی ہے‘‘۔’’جہیز کی مانگ بے غیرتی کاکام‘‘۔’’میرے کپڑے میری مرضی‘‘۔’’ماہواری ہے تو تم ہو، ماہواری سے شرم کیسی؟‘‘پھر دیکھئے انگریزی کے سلوگن: My body is not your battlegroundاورWomen are not your punching bagsان تمام نعروں کو دیکھ کر ان کے پیچھے کارفرما ایجنڈہ ہماری سمجھ میں آجاتا ہے۔ کاش اس طرح کی مہم
متنازعہ سلوگن
 

@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
 
Back
Top