Awara Lamhey By Shan ul Haqii

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
آوارہ لمحے ........... شان الحق حقی
awara.jpg

(آوارہ لمحوں میں… ایک اُڑان ہے… شاعری کے آسمان سے شاعری کے پاتال تک، تفریح میں تعلیم دی گئی ہے!) یہ کیا لیے بیٹھے ہو؟ مجموعۂ کلام ہے۔ کیا کِسی شاعر کا ہے؟ اور کِس کا ہوتا ہے؟ تم اس زمانے میں کلام کے معنی صرف شاعری کے لیتے ہو ورنہ کسی زمانے میں علم کلام بھی کوئی چیز تھا۔ پڑھے لکھے آدمی ہو مگر ہائے تعلیم! تو نے کچھ نہ سکھایا۔ رہنے دو، اب میں ایسا بھی ٹھوٹھ نہیں کہ علم کلام کا نام نہ جانوں، اور تم نے بھی صرف شبلی کی الکلام۔ ہی اُوپر اُوپر سے دیکھی ہو گی۔ جی نہیں میں نے امام غزالی کی احیاء العلوم بھی پڑھی ہے اور دراصل اُس کے بعد نئے سرے سے مسلمان ہوا ہوں۔ یہ ضرور پچھلے دو تین سال کے اندر اندر کا واقعہ ہو گا۔ مبارک ہو! اب تم ایک دفعہ اپنا سر اور منڈوا لو۔ عقیقہ بھی نئے سرے ہو جائے۔ یہ اپنا ناقوس بحیروی بھی دراصل مسلمان ہی تھا… تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ لفظ بُحَیر ہے ب پر پیش اور ح ی زبر ہے۔… مسلمان تھا سے کیا مطلب ہے؟ کیا انتقال ہو گیا؟ نہیں تو جوان ہے۔ یہی کوئی 40، 45 کا ہو گا۔ اس نے اب اپنے نام کے ساتھ بُحَیروی بڑھا لیا ہے تاکہ نسبت عرب سے نہیں تو بحیرۂ عرب ہی سے ہو جائے، برہمن اور بت خانے کے ناقوس کی طرف خیال نہ جائے۔ یُوں کہو کہ بحیرۂ عرب کے صدفات و مُحاورات کی طرف جائے۔ اتنی عربی مت چھانٹا کرو۔ یہ لکھتا کیا ہے، کوئی شعر سناؤ۔ یعنی؟ کیا مطلب؟ یہ نثری نظم کا مجموعہ ہے۔ بالکل جدید طرز کی شاعری۔ تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ گویا کہ لغو ہے، مہمل ہے؟ یہ میں مذمت کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں۔ سچی شاعری کی تعریف ہی یہ ہے۔ وہ شاعری ہی نہیں جس میں تھوڑا بہت مہملیت کا عنصر نہ پایا جائے۔ کوری نثر بن جائے گی۔ وہ بھی کاروباری۔ بس اتنا ہے کہ ہر دور کی مہملیت اور معیارِلغویت میں فرق ہے۔ غالب کا اہمال اور طرح کا تھا۔ اِس دور کا اُس سے مختلف ہونا چاہیے۔ میں نہیں مانتا کہ غالب مہمل گو تھا۔ بعض شعر گنجلک ضرور ہیں۔ ان میں ڈھونڈے سے کچھ معنی مل ہی جاتے ہیں۔ کسی کو کوئی، کسی کو کوئی۔ یہ تم غالب کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو۔ وہ اصلی شاعر تھا۔ اُس کا کون سا شعر ہے جو شعریت سے خالی یا لغویت سے عاری ہو۔ زیادتی تم کر رہے ہو۔ غالب کے ہاں بالکل صاف اشعار اور سہل ممتنع کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اب اس میں کیا اشکال ہے کہ ؎ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے بات یہ ہے کہ تمہاری آنکھوں پر رنگین عینک چڑھی ہے۔ مہملیت تمہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ورنہ یہ لغویت نہیں تو کیا ہے کہ گویا دل کے سر پہ ہاتھ پھیر پھیر کے بات کر رہے ہیں۔ بالفرض دل کا علیٰحدہ تشخص مان بھی لیا جائے تو مریض سے دوا پوچھنا کون سی معقول بات ہے؟ یہ تو بس… ایک پیرایۂ اظہار ہے۔ وہ تو میں نے مان لیا۔ مگر اس پیرائے میں جب تک لغویت شامل نہ ہو گی شعر شعر نہیں بن سکتا۔ سخن شناس نہ ای دلبرا خطا اینجا است۔ آپ بڑے سخن فہم ہیں کہ غالب کو مہمل بتا رہے ہیں۔ اس میں مذمت کا کوئی پہلو نہیں۔ اب کوئی یا تو کوری منطق بگھار ے یا شعر کہہ دے۔ ان دونوں کا میل نہیں۔ مگر ہر دور کی مہملیت کا معیار الگ ہے۔ اِس دور کی مہملیت غالب سے دو قدم آگے ہے۔ بعضوں میں سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ ان کے منہ کو غالب لگا ہوا ہے۔ صبر کرو۔ تھوڑے دن میں یہ بھی اتنی ہی سمجھ میں آنے لگے گی۔ مسلّم ہو جائے گی۔ ہو نہیں جائے گی۔ ناقوسؔ کی شاعری اب بھی مسلّم ہے۔ وہ کوئی ایسا ویسا شاعر نہیں۔ اِس مجموعے کے دو چھاپے نکل چکے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ پرستار بہت ہیں خریدار کم۔ فانوس مہرانی جو اُس کا دوست ہے کہتا تھا کہ پبلشر نے پہلے ایڈیشن کی 500 کاپیوں میں سے 250 روک رکھی تھیں جو اب دوسرے ایڈیشن کے طور پر نکالی ہیں۔ آخر عزت جو بچانی ہوئی۔ دوسروں کے دبا دب کئی کئی ایڈیشن آ رہے ہیں۔ کل کی لڑکیوں کے بھی۔ میں نے ناقوسؔ کا نام کبھی نہیں سنا تھا۔ سنتے کہاں سے۔ ٹی وی پر آتا تو سنتے۔ ریڈیو پہ گاتا تو سنتے۔ یہ کیسٹ نکلواتا۔ ایل پی آر بھرواتا۔ اس کے بغیر بھی درجۂ استناد میں کمی رہ جاتی ہے۔ اس کی اِتنی رسائی کہاں۔ وہ بڑا خوددار آدمی ہے، اور کہتا کیا خوب ہے، اب دیکھو نا۔ تو نے جس ادھ کلی کو اپنی حنائی انگلیوں کی پوروں میں مچھر کی طرح مسل دیا وہ تو ایک نئی بہار کی نقیب تھی تیرے ہی لیے بہار کا سندیسہ لے کر آئی تھی… خوب خوب۔ بڑی نادر تشبیہہ ہے۔ ادھ کھلے پھول کی تشبیہہ مچھر کے ساتھ۔ سچ مچ اُس کے نرم و نازک پروں پر پھول کی پنکھڑیوں ہی کا گمان ہوتا ہے جیسے جُوہی کی پتیاں۔ اور تصویر کیا کھینچ کے رکھ دی ہے۔ حنائی پوروں میں پھول پستا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ پھول یا مچھر؟ وہ ایک ہی بات ہوئی۔ آگے سنو۔ مگر یاد رکھ کہ اب اس کی معصوم خوشبو تیرے ہاتھوں سے کبھی نہ جائے گی یہ حشر کے دن تیری سفاکی کو نشر کرے گی اور جو چپ بھی رہی زبانِ کلی تو بو پکارے گی انگلیوں کی اور اس کے ساتھ بادِسحر کا وہ جھونکا بھی فریادی ہو گا جس نے اُسی دن اُس کلی کو بڑے چاؤ سے کھلایا تھا مگر اُس کا ارمان پوری طرح نکلنے نہ پایا تھا اور وہ آج بھی اپنی محرومی کو آغوش میں لیے فضائے بسیط میں بھٹک رہا ہے۔ سنا تم نے۔ مگر تم تو کہہ دو گے کہ لغو ہے۔ تم میری بات سمجھا کرو۔ جو کلام لغو نہ ہو گا وہ سپاٹ ہو گا۔ بے نمک اور بے مزا۔ دفتری نوٹ تک میں جب تک تھوڑی بہت نامعقولیت داخل نہ کی جائے بات نہیں بنتی۔ زور نہیں آتا۔ شاعری تو پھر شاعری ہے۔ یہ جتنی لغویت میں رچی ہو گی اتنی ہی مزیدار ہو گی۔ کون شاعر ہے جو یاوہ گوئی کا آسرا نہیں لیتا۔ اب اپنے ضمیرؔ جعفری ہی کو دیکھ لو… وہ بھی کوئی شاعر ہے۔ وہ تو مسخرا پن کرتا ہے۔ میری بات مانو۔ شاعر سب مسخرا پن ہی کرتے ہیں۔ وہ کم از کم ہنسا تو دیتا ہے۔
 

@intelligent086
ماشاءاللہ
اہم اور مفید معلومات
شیئر کرنے کا شکریہ
@Angelaa
 
Back
Top