intelligent086
Star Pakistani
20
- Messages
- 17,578
- Reaction score
- 26,649
- Points
- 2,231
باب مدینتہ العلم والحکمتہ ...... تحریر : آغا سید حامد علی شاہ موسوی
صفحۂ ارضی پر اللہ کا پہلاگھر جسے پوری انسانیت کا مسجود ٹھہرایا گیا وہ برکت والا اور دنیا بھر کیلئے رہنما ہے اس میں بہت سی نشانیاں ہیںجو اس میں چلا جاتا ہے وہ امن پاجاتا ہے
اس مقدس ترین مقام پر 13رجب المرجب 30عام الفیل کوایک ایسی ہستی کی ولادت ہوئی جس نے کائنات کی افضل ترین ہستی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانوں پر سوار ہو کر انسانیت کے مرکزخانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنا تھا۔اللہ کی توحید اور خاتم المرسلینؐ کی نبوت کی روشنی کو اپنی ولایت کے ذریعے دنیا بھر میں عام کرنا تھا۔
کتب تاریخ گواہ ہیں کہ نجیب الطرفین ہاشمی مولود حرم حضرت علیؓ ابن ابی طالب ؓ نے ولادت کے بعد3 دن تک اس وقت تک آنکھ نہ کھولی جب تک آنحضورﷺنے اپنی آغوش میں نہ لے لیا۔ حضرت علیؓ کی پہلی خوراک نبی کریم ؐکا لعاب دہن بنااور نبی کریمؐ کے لعاب کی تاثیر یہ تھی کہ حضرت علی ؓمنبر کے اوپر بلند آواز سے کہتے تھے ''سلونی سلونی قبل اس سے کہ میں دنیا سے چلاجاؤں ، مجھ سے سوال کرو کیونکہ میرے بعد مجھ جیسا کوئی نہیں ملے گا جس سے تم سوال کرسکو گے ۔ قرآن کریم کی جس آیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جس سنت کے بارے میں بھی مجھ سے سوال کروگے میں ہر ایک کا تم کو جواب دوںگا۔خدا کی قسم ! آئندہ سے لے کر قیامت تک جس چیز کے بارے میں بھی سوال کرو گے میں اس کا جواب دوںگا خد ا کی قسم ، قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کہ وہ رات کو نازل ہوئی ہے یادن میں ، دشت میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر۔‘‘(ابن کثیر، مستدرک حاکم ، محب طبری)
آپؓ کا سلونی فرمانا آپؓ ہی کے شایان تھا کیونکہ آپ ؓعلمِ مصطفی ؐکا دروازہ ہیں۔ عالم اہلسنت علامہ ابن صباغ مالکیؒ تحریر کرتے ہیں کہ ''حضرت علی ؓ سے پہلے خانہ کعبہ میں کسی کی بھی ولادت نہیں ہوئی یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے ان کیلئے مخصوص فرمائی تاکہ لوگوں پر آپ ؓکی جلالت ، عظمت اور مرتبت کو ظاہر کرے ۔‘‘
آپ ؓکا نام حضرت ابو طالب ؓنے اسد رکھا والدہ حضرت فاطمہ بنت اسدؓنے حیدر اور سرور کائناتؐ نے نام علی ؓ رکھا۔ایک دن آپؓ کی والدہ کہیں کام سے گئی ہوئی تھیں کہ جھولے پر ایک سانپ جا چڑھا۔ حضرت علیؓ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ کو پکڑ لیا اور کلہ کو چیر پھینکا ۔ماں نے واپس آکر دیکھاتو بیساختہ کہہ اٹھیں کہ میرا فرزند حیدر ہے ۔حضرت علیؓ پیدا تو حضرت ابو طالب ؓ کے گھر میں ہوئے لیکن تربیت نبی کریم ؐ نے فرمائی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں ۔''رسول خداؐ مجھے سینے سے چپٹائے رکھتے ،اپنے پہلو میں سلاتے مجھے اپنی خو شبو سنگھاتے ،پہلے خود کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے ۔میں نبی کریم ؐ کے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ‘‘ (نہج البلاغہ) نزولِ وحی کے بعدحضرت علیؓ ابن ابی طالب ؓ نے نبی کریم ؐ کی تصدیق کی اور ہر میدان ہر آن نبی اکرم ﷺ کا ساتھ دیا۔جب نبی کریم ؐ کو سورہ شعراء کے تحت اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آنحضور ؐ نے40 افراد کو حضرت ابو طالبؓ کے گھر بلوایا جب دستر خوان پر کھانا لایا گیا جو لوگوں کے حساب سے بہت ہی مختصر سا تھا مگر رسول کریم ؐ کے ہاتھوں کی برکت سے کھانا تمام لوگوں کے کھانے کے باوجود بھی بچا رہا ۔جب سب کھانے سے فارغ ہوئے تب رسول خداؐنے اپنی رسالت کا اعلان کیا اور کہا کہ جو کوئی رسالت کے کاموں میں میری مدد و نصرت کرے گا وہ میرا ناصر و مددگار ہوگا ،یہ سن کر کسی نے جواب نہ دیا تو کم سن حضرت علیؓ کھڑے ہوگئے اور فرمایا، یارسول ؐاللہ! مجھے آپؐ کی دعوت قبول ہے اور میں آپؐ کی تائیدو نصرت کیلئے تیار ہوں ۔ آنحضور ؐ نے فرمایا ''علی تم بیٹھ جاؤ ۔‘‘حضورﷺنے اپنی دعوت 3 مرتبہ دہرائی ہر دفعہ حضر ت علی کرم اللہ وجہہ کے سوا کوئی کھڑا نہ ہوا۔اس پر فخرِ موجودات نبی کریم ؐ نے فرمایا''اے علی تم میرے بھائی اور وارث ہو۔‘‘نبی کریمؐ نے متعدد مرتبہ فرمایا'' علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں۔‘‘(ابن ماجہ ، سیوطی ، ابن کثیر)۔ احمد بن حنبل ؒاپنی کتاب مسند میں نقل کرتے ہیںکہ پیغمبر اکرم ؐنے حضرت علی ؓکو سورہ توبہ کی آیات دے کر مکہ بھیجا اور فرمایا''اس سورہ کو وہی شخص پہنچائے گا جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں‘‘اور حضرت علیؓ نے حج کے موقع پر کفر کی رسوم و رواج رد کرنے والی آیات پہنچانے کا شرف حاصل کیا۔ غزوہ احد میں حیدر کرارؓکی شجاعت دیکھ کر نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا '' بے شک علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور جبرئیل نے کہا میں آپ دونوں کا تیسرا ہوں۔‘‘ اور جب ذوالفقار ‘ حضرت علی ؓکے واسطے آسمان سے نازل ہوئی اسکی مدح میں صحابہ کبارؓ نے حضرت جبرئیلؑ کی یہ صدا سنی ''لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار‘‘(جواں مرد صرف علی ؓہے اور تلوار صرف ذوالفقار ہے )۔ (طبری)
حضرت جابر ابن سمرہ ؓسے روایت ہے کہ رسولِ خداؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا:یا رسولؐ اللہ! قیامت کے روز آپؐ کا عَلَم کون اٹھائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا'' جو دنیا میں میرا علمبردار ہے یعنی علی۔‘‘(ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ )۔اپنے آخری حج سے واپسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کونبی کریم ﷺنے غدیر خم کے میدان میں تمام حاجیوں کو جمع کرکے یہ اعلان فرمایا''من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ‘‘ترجمہ :''جس جس کا میں ؐ مولا ہوں اس کا علی مولاہے۔‘‘ (المستدرک ،ترمذی الجامع الصحیح، فضائل الصحابہ احمدبن حنبل ،طبرانی ،ابن عساکر)یہ اعلان سن کر حضرت عمر خطابؓ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے کہا''علی ؓآپؓ ہمیشہ کیلئے مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے ۔(فتح القدیر)
والی یزداں علی است ،آیت ایمان علی است
نکتہ رحمان علی است ،گوش کن و دم مزن
(مولاناروم )
اللہ کے ولی حضرت علیؓ سرچشمہ ولایت ہیں جس سے سیراب ہونے والے اولیائے کرامؒ نے دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ کی وحدانیت اور نبی کریمﷺ کی رسالت کے پیغام کو عام کیا ۔
صفحۂ ارضی پر اللہ کا پہلاگھر جسے پوری انسانیت کا مسجود ٹھہرایا گیا وہ برکت والا اور دنیا بھر کیلئے رہنما ہے اس میں بہت سی نشانیاں ہیںجو اس میں چلا جاتا ہے وہ امن پاجاتا ہے
اس مقدس ترین مقام پر 13رجب المرجب 30عام الفیل کوایک ایسی ہستی کی ولادت ہوئی جس نے کائنات کی افضل ترین ہستی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانوں پر سوار ہو کر انسانیت کے مرکزخانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنا تھا۔اللہ کی توحید اور خاتم المرسلینؐ کی نبوت کی روشنی کو اپنی ولایت کے ذریعے دنیا بھر میں عام کرنا تھا۔
کتب تاریخ گواہ ہیں کہ نجیب الطرفین ہاشمی مولود حرم حضرت علیؓ ابن ابی طالب ؓ نے ولادت کے بعد3 دن تک اس وقت تک آنکھ نہ کھولی جب تک آنحضورﷺنے اپنی آغوش میں نہ لے لیا۔ حضرت علیؓ کی پہلی خوراک نبی کریم ؐکا لعاب دہن بنااور نبی کریمؐ کے لعاب کی تاثیر یہ تھی کہ حضرت علی ؓمنبر کے اوپر بلند آواز سے کہتے تھے ''سلونی سلونی قبل اس سے کہ میں دنیا سے چلاجاؤں ، مجھ سے سوال کرو کیونکہ میرے بعد مجھ جیسا کوئی نہیں ملے گا جس سے تم سوال کرسکو گے ۔ قرآن کریم کی جس آیت اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جس سنت کے بارے میں بھی مجھ سے سوال کروگے میں ہر ایک کا تم کو جواب دوںگا۔خدا کی قسم ! آئندہ سے لے کر قیامت تک جس چیز کے بارے میں بھی سوال کرو گے میں اس کا جواب دوںگا خد ا کی قسم ، قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کہ وہ رات کو نازل ہوئی ہے یادن میں ، دشت میں نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر۔‘‘(ابن کثیر، مستدرک حاکم ، محب طبری)
آپؓ کا سلونی فرمانا آپؓ ہی کے شایان تھا کیونکہ آپ ؓعلمِ مصطفی ؐکا دروازہ ہیں۔ عالم اہلسنت علامہ ابن صباغ مالکیؒ تحریر کرتے ہیں کہ ''حضرت علی ؓ سے پہلے خانہ کعبہ میں کسی کی بھی ولادت نہیں ہوئی یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے ان کیلئے مخصوص فرمائی تاکہ لوگوں پر آپ ؓکی جلالت ، عظمت اور مرتبت کو ظاہر کرے ۔‘‘
آپ ؓکا نام حضرت ابو طالب ؓنے اسد رکھا والدہ حضرت فاطمہ بنت اسدؓنے حیدر اور سرور کائناتؐ نے نام علی ؓ رکھا۔ایک دن آپؓ کی والدہ کہیں کام سے گئی ہوئی تھیں کہ جھولے پر ایک سانپ جا چڑھا۔ حضرت علیؓ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ کو پکڑ لیا اور کلہ کو چیر پھینکا ۔ماں نے واپس آکر دیکھاتو بیساختہ کہہ اٹھیں کہ میرا فرزند حیدر ہے ۔حضرت علیؓ پیدا تو حضرت ابو طالب ؓ کے گھر میں ہوئے لیکن تربیت نبی کریم ؐ نے فرمائی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں ۔''رسول خداؐ مجھے سینے سے چپٹائے رکھتے ،اپنے پہلو میں سلاتے مجھے اپنی خو شبو سنگھاتے ،پہلے خود کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے ۔میں نبی کریم ؐ کے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ‘‘ (نہج البلاغہ) نزولِ وحی کے بعدحضرت علیؓ ابن ابی طالب ؓ نے نبی کریم ؐ کی تصدیق کی اور ہر میدان ہر آن نبی اکرم ﷺ کا ساتھ دیا۔جب نبی کریم ؐ کو سورہ شعراء کے تحت اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آنحضور ؐ نے40 افراد کو حضرت ابو طالبؓ کے گھر بلوایا جب دستر خوان پر کھانا لایا گیا جو لوگوں کے حساب سے بہت ہی مختصر سا تھا مگر رسول کریم ؐ کے ہاتھوں کی برکت سے کھانا تمام لوگوں کے کھانے کے باوجود بھی بچا رہا ۔جب سب کھانے سے فارغ ہوئے تب رسول خداؐنے اپنی رسالت کا اعلان کیا اور کہا کہ جو کوئی رسالت کے کاموں میں میری مدد و نصرت کرے گا وہ میرا ناصر و مددگار ہوگا ،یہ سن کر کسی نے جواب نہ دیا تو کم سن حضرت علیؓ کھڑے ہوگئے اور فرمایا، یارسول ؐاللہ! مجھے آپؐ کی دعوت قبول ہے اور میں آپؐ کی تائیدو نصرت کیلئے تیار ہوں ۔ آنحضور ؐ نے فرمایا ''علی تم بیٹھ جاؤ ۔‘‘حضورﷺنے اپنی دعوت 3 مرتبہ دہرائی ہر دفعہ حضر ت علی کرم اللہ وجہہ کے سوا کوئی کھڑا نہ ہوا۔اس پر فخرِ موجودات نبی کریم ؐ نے فرمایا''اے علی تم میرے بھائی اور وارث ہو۔‘‘نبی کریمؐ نے متعدد مرتبہ فرمایا'' علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں۔‘‘(ابن ماجہ ، سیوطی ، ابن کثیر)۔ احمد بن حنبل ؒاپنی کتاب مسند میں نقل کرتے ہیںکہ پیغمبر اکرم ؐنے حضرت علی ؓکو سورہ توبہ کی آیات دے کر مکہ بھیجا اور فرمایا''اس سورہ کو وہی شخص پہنچائے گا جو مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں‘‘اور حضرت علیؓ نے حج کے موقع پر کفر کی رسوم و رواج رد کرنے والی آیات پہنچانے کا شرف حاصل کیا۔ غزوہ احد میں حیدر کرارؓکی شجاعت دیکھ کر نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا '' بے شک علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور جبرئیل نے کہا میں آپ دونوں کا تیسرا ہوں۔‘‘ اور جب ذوالفقار ‘ حضرت علی ؓکے واسطے آسمان سے نازل ہوئی اسکی مدح میں صحابہ کبارؓ نے حضرت جبرئیلؑ کی یہ صدا سنی ''لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار‘‘(جواں مرد صرف علی ؓہے اور تلوار صرف ذوالفقار ہے )۔ (طبری)
حضرت جابر ابن سمرہ ؓسے روایت ہے کہ رسولِ خداؐ کی خدمت میں عرض کیا گیا:یا رسولؐ اللہ! قیامت کے روز آپؐ کا عَلَم کون اٹھائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا'' جو دنیا میں میرا علمبردار ہے یعنی علی۔‘‘(ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ )۔اپنے آخری حج سے واپسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کونبی کریم ﷺنے غدیر خم کے میدان میں تمام حاجیوں کو جمع کرکے یہ اعلان فرمایا''من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ‘‘ترجمہ :''جس جس کا میں ؐ مولا ہوں اس کا علی مولاہے۔‘‘ (المستدرک ،ترمذی الجامع الصحیح، فضائل الصحابہ احمدبن حنبل ،طبرانی ،ابن عساکر)یہ اعلان سن کر حضرت عمر خطابؓ نے حضرت علیؓ کو مخاطب کرکے کہا''علی ؓآپؓ ہمیشہ کیلئے مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے ۔(فتح القدیر)
والی یزداں علی است ،آیت ایمان علی است
نکتہ رحمان علی است ،گوش کن و دم مزن
(مولاناروم )
اللہ کے ولی حضرت علیؓ سرچشمہ ولایت ہیں جس سے سیراب ہونے والے اولیائے کرامؒ نے دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ کی وحدانیت اور نبی کریمﷺ کی رسالت کے پیغام کو عام کیا ۔