Badhti Aabadi Badhte Maseil By Abdul Basit Khan

بڑھتی آبادی اور بڑھتے مسائل ۔۔۔۔ عبدالباسط خان

aabadi.jpg

آبادی کا عالمی دن ہر سال 11 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ 11 جولائی 1987ء کو جب دنیا کی آبادی 5 ارب تک جا پہنچی تو ورلڈ بینک میں کام کرنے والے سینئر ڈیموگرافر ڈاکٹر کے سی زکریا نے تجویز پیش کی کہ آبادی کا عالمی دن منایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر سال دنیا میں کروڑوں انسانوں کا اضافہ ہو جاتا ہے مثلاً فروری 2016ء میں آبادی 7 ارب 40 کروڑ تک پہنچ گئی اور اپریل 2017ء میں بڑھ کر 7 ارب 50 کروڑ ہو گئی۔ نومبر 2019ء میں یہ 7 ارب 70 کروڑ تک پہنچ گئی۔
دنیا میں آبادی بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ 1800ء تک انسانی آبادی کو ایک ارب ہونے میں ہزاروں برس لگے۔ 1920 کی دہائی میں آبادی 2 ارب تک پہنچ گئی، یعنی دگنا ہونے میں اسے محض 120 برس لگے۔ اس کے صرف 50 برس بعد 1970ء کی دہا ئی میں آبادی دگنا یعنی 4 ارب ہو گئی۔ دنیا کی آبادی جلد 8 ارب ہونے والی ہے۔
دنیا کے بہت سے مسائل آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافے سے جڑے ہوئے ہیں۔ آبادی میں تیز رفتار اضافے سے خوراک، علاج، رہائش، صحت اور تعلیم کا حصول مشکل تر ہو جاتا ہے۔ آبادی کا عالمی دن منانے کا مقصد آبادی کے بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل اور حل کو اجاگر کرنا ہے۔ اس میں خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت بتانا، خواتین اور مردوں میں برابری کے اصول کو فروغ دینا، غریب کے مسئلے پر تیزی سے بڑھتی آبادی کے تناظر میں غوروفکر کرنا اور زچہ بچہ کی صحت کا خیال رکھنا اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل ہیں۔
جنوبی ایشیا میں جہاں دنیا کی تقریباً 25 فیصد آبادی بستی ہے، وہاں غربت، ماحولیاتی آلودگی، ناخواندگی، تعلیم اور صحت جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کو تیز تر کرنا وقت اہم کی ضرورت ہے۔ آبادی کا بڑھنا یا جوان آبادی میں اضافہ کسی بھی ملک کے لیے اچھا شگون ہے بشرطیکہ وہاں ایسے وسائل ہوں جو اس آبادی کو مالی اور سماجی طور پر آگے لے جائیں وگرنہ ایسی بڑھتی آبادی اس ملک کی معاشرتی، معاشی اور ثقافتی خوبیوں کا ستیاناس کر دیتی ہے۔
کورونا وائرس سے دنیا کی بہت بڑی آبادی متاثر ہو چکی ہے اور آنے والے وقت کا اندازہ بھی ہے کہ ہم کن کن مسائل کا سامنا کرنے جا رہے ہیں لہٰذا اس معاملے کو ہر ملک کو اپنی تاریخ کے آئینے میں دیکھنا ہے۔
پاکستان کو اکیسویں صدی میں داخل ہوئے 2 دہائیاں گزرنے والی ہیں اور آزادی کو 73 سال ہو چکے ہیں، مگر تیزی سے بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس اور مؤثر حکمت عملی سامنے نہیں آسکی۔ آبادی کے بعض ایکسپرٹ اور ڈیموگرافر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان آبادی کنٹرول کرنے والے ممالک میں بہت آگے تھا اور ایوب خان کے دور میں اس پر خاطر خواہ کام بھی ہوا مگر بعض دوسرے لوگ یہ بھی کہتے ہیں ان کے زوال کے اسباب میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انہوں نے آبادی کنٹرول کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی بنائی اور عملاً کوشش کی کہ کسی طرح سے آبادی کو کنٹرول کیا جائے مگر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ بعدازاں اس معاملے کو حکومت اور سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے میں آبادی کے کنٹرول کے لیے کوئی پروگرام نظر نہیں آتا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر اتنا حوصلہ اور ہمت نہیں کہ وہ اس مسئلے پر عوام سے براہ راست بات کر سکیں۔ سیاسی جماعتوں نے بالواسطہ بھی اس مسئلے کے حل کے لیے اپنے کارکنوں کو متحرک نہیں کیا اور نہ اپنی حلیف جماعتوں، جن میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف) شامل ہیں، کو سنجیدہ طریقے سے اعتماد میں لیا۔
محدود ملکی وسائل، غذائی قلت، پانی کی کمی، بیڈ گورننس، صحت و تعلیم اور ماحولیاتی آلودگی کے خطرات کو پیش کرکے انہیں اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں،تب بھی اس مسئلے کی نشاندہی نہ تو قومی اسمبلی میں کرتی ہیں اور نہ ہی صوبائی اسمبلی میں۔
پاکستان میں آبادی کے گھمبیر مسئلے کو، یا اس سے منسلک پانی کی قلت کو اگر عوامی سطح پر کسی نے اجاگر کیا یا اس پر نوٹس لیا تو وہ ہماری عدلیہ ہے۔ پاکستان میں آبادی پر جو سروے کروایاگیا وہ سپریم کورٹ کی وجہ سے ممکن ہوا۔
سوال یہ ہے کہ آخر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے، اگر حکومت وقت یا بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعتیں اور ان کے انتہائی مقبول رہنما اس مسئلے پر لب کشائی سے گریزاں ہیں تو کیا این جی اوز، جو بیرون ممالک کی امداد کی مرہون منت اور جو بیوروکریٹس کی محتاج رہتی ہیں، وہ ان مسائل کو حل کریں گی؟
دوسری طرف کیا اپوزیشن اور حکومت وقت نے آل پارٹیز کانفرنس میں آبادی، پانی کے مسائل، انرجی کے مسائل، اقوام متحدہ کے متعین کردہ اہداف کو کبھی ایجنڈے کا حصہ بنایا؟
پاکستان کی تقریباً 60 فیصد آبادی جوانوں پر مشتمل ہے یعنی ان کی عمر 15 سے 30 برس ہے لیکن جب اس ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہو گی، بجٹ خسارہ اربوں میں ہو گا، ایکسپورٹ نہیں بڑھے گی، ٹیکس دینے سے گریز کیا جائے گا تو یہ آبادی بوجھ بن جائے گی۔
میں یہ بات جس طرف لے جانا چاہتا ہوں وہ ہے کہ آبادی کے تیزی سے بڑھتے اثرات ہمارے محدود وسائل، غذائی قلت کے خطرات، پانی کی کمی، نوجوانوں کی بے روزگاری، خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، بچوں کو نوعمری میں تعلیم دینے کی بجائے اینٹوں کے بھٹوں، قالینوں کے کارخانوں اور سائیکل کی دکانوں پر لگا دینا اگر ایک حقیقت ہیں تو پھر معاشرتی، معاشی اور سماجی بہتری کے اثرات ہماری زندگیوں میں دیکھنا شاید ناممکن ہے۔ اس صورت حال میں ہم کس طرح ایک روشن خیال اور کامیاب ملک بن سکتے ہیں؟ یہ بات تو قابل فہم ہے اور عام آدمی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ جب آبادی بڑھتی جائے گی تو حصول رہائش کے لیے عوامی مانگ میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جنگلی حیات ہمارے ملک سے ناپید ہوتی جا رہی ہے، کسان اور غریب لوگ اپنی زمینیں بیچ رہے ہیں اور نئی نئی ہاؤسنگ سکیمیں بن رہی ہیں، سرسبز شاداب کھیت اور ہریالی جو ماحولیاتی آلودگی کے خلاف مؤثر ہتھیار ہیں وہ اجڑ رہے ہیں تو اس سے نہ صرف غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی اور زمینی درجہ حرارت میں اضافہ خارج از امکان نہیں۔
ملک کے ایک اہم ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سٹڈیز کے کام پر حکومتوں نے مناسب توجہ نہیں دی۔ یہاں پر پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے متعدد مرتبہ کیے گئے، بڑی بڑی کتابیں شائع کی گئیں، سیمینارز میں صوبائی حکومتوں کو آگاہ کیا گیا کہ یہ وہ ایریاز ہیں جہاں پالیسی میکرز، پالیسی ڈرائیوز یا حکومتوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر 5 سال بعد یہ سروے کیا جاتا ہے لیکن اس کی تجاویز پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں زچگی کے دوران ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کے مرنے کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اس کے اسباب میں صحت کی سہولیات کا فقدان، زچگی کے ماہر ڈاکٹرز اور مڈوائفس کی کمی شامل ہیں نیز خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں آگہی کی کمی اور اس پر عمل درآمد نہ کرنا بھی شامل ہیں۔
بڑھتی آبادی کی اہم وجوہات میں خاندانی منصوبہ بندی نہ کرنا، منصوبہ بندی کی سہولیات کا فقدان، کم عمری میں شادیاں، غربت، ناخواندگی، خواتین کا بااختیار نہ ہونا شامل ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح میں کمی کے لیے تعلیم، آگہی اور سہولیات کو عام کرنا اور مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اشتراک عمل بہت اہم ہیں۔ ہر صوبے میں بیوروکریٹ کی بجائے ڈاکٹرز، ڈیموگرافرز کو فیملی پلاننگ منسٹری میں بااختیار بنایا جائے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بڑھتی ہوئی آبادی کے مضمرات سے آگاہ کیا جائے۔ دو بچوں والی فیملی کو بجلی اور گیس کے بلوں اور فیسوں میں خصوصی رعایت دی جائے نیز صرف اچھے منصوبے نہ بنائے جائیں بلکہ ان پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے۔
دنیا میں بہت سے ممالک میں آبادی کو احسن انداز میں کنٹرول کیا گیا ہے۔ ان کامیاب مثالوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آبادی میں تیز رفتار اضافہ عالمی کے ساتھ ساتھ قومی مسئلہ ہے لہٰذا اس پر سنجیدگی کا مظاہرہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔



 
Column date
Jul 12, 2020
Back
Top