Bangal ki Angdaii - Munir Ahmad Baloch Column

بنگال کی انگڑائی
منیر احمد بلوچ

بھارت کی شدید مخالفت اور دھمکیوں کے با وجود بنگلہ دیش کا اپنی کر کٹ ٹیم کو پاکستان آنے کی اجا زت دینا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس کیلئے بنگلہ دیشی عوام اور حکومت کو اپنی خود مختاری کے اظہار پر مبارکباد دی جانی چاہیے اور ہم پاکستانی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے ان بھائیوں کیلئے اپنی خاص رحمتیں نازل کرتے ہوئے انہیں اپنی آزادی اور خود مختاری کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ بنگلہ دیشی بھائیوں نے راشٹریہ سیوک سنگھ کے نافذ کئے گئےسی اے اے کے خلاف بھی یک زبان ہو کر آواز اٹھائی ہے‘ ان کا یہ عمل بھی قابل ِستائش ہے‘ بلکہ سرحد پار اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے محبت اور اخوت کا پیغام بھی ہے۔ بھارت کے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ایک سازش کے تحت مسلط راشٹریہ سیوک سنگھ کے نام سے نازی ٹولے کے سی اے اے ۔ این آر سی جیسے غیر انسانی قوانین کو دنیا بھر میں تعصب کی سب سے بڑی قسم قرار قرار دیا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر باشعور انسان‘ جس کا اقوام عالم کے کسی بھی طبقے یا حصے سے تعلق ہے‘ اس کے خلاف بھر پور آواز اٹھائی ہے۔

ادھر ہندوتوا کی آگ سے اپنا دامن خود ہی جلانے والے الزامات لگا نا شروع ہو گئے ہیں کہ بھارت میں شہریت ایکٹ کے خلاف ہونیوالے مظاہروں میں پاکستان ملوث ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن اسمبلی سدھانشو تیواڑی نے میرٹھ کے ایک مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس میںالزام لگایا کہ بھارت میں بے چینی اور کاروبار ِحیات میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے پاکستان اور اسے کے ادارے سر گرم عمل ہیں‘ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جامعہ ملیہ میں جہاں چار ہزار طالب علم پڑھتے ہوں ‘وہاں تیس ہزار طلبا و طالبات کا مجمع اکھٹا ہو جائے‘ جبکہ مسلم کمیونٹی کا ایک بھی قابل ذکر عالم اور مذہبی شخصیت اس قانون کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہی اور نہ ہی کسی مظاہرے یا دھرنے کی قیا دت کر رہی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ مہذب دنیا میں بھارت کے نافذ کئے گئے مذکورہ بالا قوانین کو کہیں بھی اچھی نظر وںسے نہیں دیکھا جا رہا اور اس ایکٹ کے نفاذ نے بھارت کی سرحدوں سے منسلک دوسری ریا ستوں میں بے چینی پیدا کر رکھی ہے اور بنگلہ دیش جیسا ملک ‘جسے بھارت اپنی ایک طفیلی ریا ست سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں‘ وہ بھی مطالبہ کر رہا ہے کہ بھارت اس بات کی تحریری ضمانت دے کہ اس ایکٹ کی زد میں آنے والوں کو بنگلہ دیش نہیں بھجوایا جائے گا۔ بنگلہ دیش نے اپنی ان سرحدوں پر نفری کی تعداد ہزاروں تک بڑھا کر فورسز کو سختی سے ہدایات جاری کر رکھی ہیں کہ کسی ایک بھی شخص یا کنبے کو خشکی اور دریائی رستے سے غیر قانونی طریقے سے بھارت کے کسی بھی حصے میں کسی صورت بھی داخل نہ ہونے دیا جائے۔

بنگلہ دیش نے بھارت سے کہا ہے کہ اسے اس بات کا قوی خدشہ ہے کہ سی اے اے کی زد میں آنے والوں کا تعلق ایسی بھارتی ریاستوں سے ہے ‘جن کی سرحدیں بنگلہ دیش سے منسلک ہیں اور کسی بھی وقت بھارت ان کو بنگلہ دیش کی جانب دھکیل سکتا ہے ۔بنگلہ دیشی سرکار کے لکھے گئے خط میں روہنگیا مسلمانوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ میانمار سے زبردستی نکالے گئے ہزاروں افراد کے کیمپ اس کی معیشت کیلئے پہلے ہی دردسر بن چکے ہیں اور اگر اس پر مزید کئی لاکھ کا بوجھ پڑ گیا تو اس کیلئے سخت پریشانی کھڑی ہو جائے گی۔بنگلہ دیش نے بھارتی سرکار کو یاد دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پہلے جب بھارت سرکار نے آسام میںNRC کا سلسلہ شروع کیا تھا ‘تو اس وقت بھی حسینہ واجد نے نئی دہلی کے ہنگامی پرائیویٹ دورے کے دوران نریندر مودی سے اسی قسم کی درخواست کی تھی‘ لیکن مودی سرکار نے سنی ان سنی کرتے ہوئے مہاجرین کا سیلاب بنگلہ دیش بھیج دیا تھا‘ جس سے اس وقت سرحدوں پر آئے روز نا خوشگوار واقعات رونما ہو نے لگے ہیں؛ حالانکہ مودی سرکار نے بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد کو زبانی طور پر یقین دہانی کروا ئی تھی کہ ایسا بالکل نہیں ہو گا ‘لیکن اس زبانی یقین دہانی اور وعدے پر ذرا سا بھی عمل نہیں ہوا‘ اس لئے ہماری درخواست ہے کہ بھارت سرکار تحریری طور پر ضمانت دے کہ اس ایکٹ کے متاثرین کو اب کی بار بنگلہ دیش کی جانب نہیں دھکیلا جائے گا۔
بھارت کے طول و عرض میں اس غیر فطری قانون کے نفاذ سے پیدا ہونے والی صورت ِحال کے پیش نظر بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن اور وزیر داخلہ اسد الزماں خان کواپنا دورہ بھارت منسوخ کر نا پڑا‘لیکن بنگلہ دیش کو بھارت سے شاید کسی قسم کی اچھائی کی توقع نہیں رہی‘ اس لئے بنگلہ دیش نے اپنی سرحدوں سے منسلک ان متاثرہ حصوں سے ملنے والی ریاستوں میں موبائل فون سروس پر31 دسمبر2019ء سے پا بندی عائد کر رکھی ہے۔اس سلسلے میں بنگلہ دیشی ٹیلی کمیونی کیشن ریگولیٹری کمیشن کو حکم جاری کر دیا گیا ہے کہ گراموفون‘ ٹیلی ٹاک‘ روبی اور بنگلہ لنک کے سرحدوں سے منسلک حصوں میں ملک کی سکیورٹی صوت ِحال کے پیش نظر موبائل فون سروس اگلے احکامات تک معطل کر دی جائے۔ بنگلہ دیش کی سیا سی قیادت سی اے اے کے نفاذ کے بعد کی صورت ِحال کو انتہائی باریک بینی سے مانیٹرکر رہی ہے ‘لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ نئی دہلی سرکار کسی صورت بھی ڈھاکہ سے آنے والے خط کی عبارت کا ا حترام نہیں کرے گی۔

جس طرح بھارتی فوج کے سربراہ اپنی عددی برتری کے نشے میں اپنے سے کمزور اور چھوٹے ممالک کو آئے دن دھمکیاں دینے کی لت کا شکار ہوجاتے ہیں ‘اسی طرح نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی پارلیمنٹ میں اپنی عددی برتری کے نشے میں اس قدر دھت ہو چکی ہے کہ مہذب دنیا کی کسی اپیل پر توجہ دینے کی بجائے اس نے بھارت کو صرف انتہا پسند ہندوتوا دیش بنانے کی ٹھان رکھی ہے اور اس کا شکار صرف بھارت کے مسلمان ہی نہیں‘ بلکہ ان کا ہندو دھرم اختیار نہ کرنے والے دلیت‘ تامل‘ گورکھے‘ بنواسی اوراڈواسی قبائل بھی نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ راشتریہ سیوک سنگھ کے پرچارک‘ جس قسم کی نفرت اور انتہا پسندی کا زہر ہندوؤں کی نئی نسل کے ذہنوں میں بھر رہے ہیں‘ یہ نازی ازم کی نشاۃ ثانیہ ہے۔اس وقت بھارت کی پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں میں چن چن کر راشٹریہ ‘ وشوا ہندو پریشد جیسی دہشت گردی متعصب ہندو نظریات سے بھری ہوئی تنظیموں کے لوگوں کو بھرتی کیا جا رہا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق‘ جیسے ہی سی اے اے کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو ان پر کنٹرول کرنے کیلئے اتر پردیش میں پانچ ہزار کے قریب آر ایس ایس کے لوگوں کو ایک ہی دن میں کنٹریکٹ پر بھرتی کر لیا گیا‘ جنہوں نے مسلمانوں کے گھروں کو لوٹنے کے بعد نذر آتش کر دیا۔ ان کی سفاکی اس حد تک چلی گئی کہ دوسری تیسری منزل پر واقع فلیٹس سے بھاری سامان اتارنے میں ناکامی پر ان کے ریفریجریٹر‘ز واشنگ مشینیں اور الیکٹرک سامان اور برتنوں کو لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا گیا‘ ان کے سلے ان سلے لباس آگ میں جھونک دیئے گئے ‘ وغیرہم۔

راشٹریہ سیوک سنگھ کے جبر اور ظلم کے خلاف امریکہ‘ برطانیہ ‘ یورپی یونین‘ او آئی سی اور جمہوریہ روس نے بھارت سے یہ قانون منسوخ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے تمام اقلیتوں سے بہتر سلوک کرنے کی اپیل کی ہے‘ لیکن مودی سرکار کسی بات پر کان دھرنا اپنی توہین سمجھتے ہوئے اپنی اذیت پسند خصلت کے ساتھ پہلے سے بھی زیا دہ سختی پر زور دینے لگا ہے‘ اسی باعث کہا جا رہا ہے کہ سی اے اے ۔ این آر اے جیسے قوانین اور غیر ہندو قوموں سے مودی ٹولے کی نفرت کے بیج سے ایک کونپل اپنے لئے آزاد فضا اور آزاد ملک کی امید لئے ابھر رہی ہے ‘جو کسی بھی وقت درخت کی شکل میں سر اٹھا سکتی ہے​
 

Back
Top