Bartanvi Hukmarano Ki Laraiyan By Dr Irfan Habib

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
برطانوی حکمرانوں کی لڑائیاں ..... تحریر : ڈاکٹر عرفان حبیب

bart.jpg

برطانیہ کے قدیم ترین باشندے غیرمتمدن تھے۔ تقریباً 2300 قبل مسیح میں ایک اور نسل کے لوگ آئبیریا (سپین) سے برطانیہ آئے اور ان کے بعد کلٹ آئے، جو اسی نسل سے تھے جس سے اہل ویلز ہیں۔ کلٹ جو جنوبی برطانیہ میں آباد ہو گئے، وہ برطانوی کہلاتے تھے۔ اہل برطانیہ نے رومہ کے خلاف جنگ میں گال فرانس کے باشندوں کی مدد کی تھی، اس لیے ان کو سزا دینے کے لیے جولیس قیصر نے 55 قبل مسیح کے لگ بھگ اور اس کے بعد برطانیہ پر حملہ کیا اور اپنا مقصد پورا کر کے واپس چلا گیا۔ 43ء میں شہنشاہ کلاڈیس نے برطانیہ کو فتح کرنے کی غرض سے ایک فوج بھیجی جس کے فتح یاب ہونے کے بعد برطانیہ رومہ کا ایک صوبہ بنا دیا گیا۔ رومیوں نے 35 سال تک برطانیہ پر حکومت کی۔ پانچویں صدی عیسوی میں جب جرمن قبائل رومی سلطنت پر حملہ آور ہوئے تو رومیوں نے اپنی افواج کو برطانیہ سے واپس بلا لیا۔ 449ء میں جرمن نسل کے تین قبائل اینگلز، سیکسن اور جوٹ جنوبی برطانیہ پر حملہ آور ہوئے اور وہاں مستقل طور پر آباد ہونے لگے۔ انہوں نے سلطنتیں قائم کیں۔ یہ برتری کے لیے آپس میں جنگ کرتی رہتی تھیں۔ بالآخر ویسکس مملکت قائم ہوئی۔ 597ء کو پوپ گیریگوری نے سینٹ آگسٹین کو عیسائیت کی تبلیغ کے لیے انگلستان بھیجا۔ 664ء تک یہ مذہب سارے ملک میں پھیل گیا تھا۔ آٹھویں صدی کے آخر میں انگلستان پر ڈینلاکہلانے والوں کی غارت گرانہ یورشوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ویسکس کے بادشاہ الفریڈ نے ان کو شکست دی۔ اس نے اپنے عہد حکومت میں بہت سی اصلاحات کیں جن کے باعث اسے الفریڈ اعظم کہا جاتا ہے۔
الفریڈ کے مرنے کے چند سال بعد ایتھلرڈ کے دور میں ڈینلا والوں کے نئے حملے شروع ہوئے۔ اس نے انگلستان میں رہنے والے ڈینلا کے قتل عام کا حکم دیا۔ شاہ ڈنمارک انتقام لینے کے لیے انگلستان پر حملہ آور ہوا۔ ایتھلرڈ فرار ہو گیا۔ شاہ ایک ہی سال میں مر گیا۔ اس کا بیٹا کینوٹ ایک قابل اور عادل بادشاہ تھا۔ اس نے انگلستان کو چار بڑے صوبوں میں تقسیم کر کے ہر ایک کا انتظام ایک والی کے سپرد کیا۔ 1035ء میں کینوٹ کے انتقال کے بعد اس کے دو بیٹوں ہیرالڈ اور بارڈی کینوٹ نے یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ آخرالذکر اس کے مرنے پر انگریزوں نے ایتھلرڈ کے بیٹے ایڈورڈ نائب کو اپنا بادشاہ منتخب کیا۔ 1066ء میں ایڈورڈ کے لاولد مرنے پر ہیرالڈ والیٔ ایسکس کو بادشاہ منتخب کیا گیا لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ولیم، ڈیوک آف نارمنڈی نے تخت کا اس بنا پر دعویٰ کر کے کہ ایڈورڈ نے اسے اپنا جانشین بنانے کا وعدہ کیا تھا، انگلستان پر حملہ کیا۔ ہیسٹگز کی لڑائی میں ہیرالڈ مارا گیا اور ولیم کو بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔
انگلستان کے نارمن بادشاہ
ولیم فاتح کے تخت نشین ہوتے ہی دو بغاوتیں برپا ہوئیں۔ یہ آسانی سے فرو کردی گئیں کیونکہ انگریزوں میں اتحاد نہیں تھا۔ ولیم نے ایک مخصوص جاگیری طریقے کو رواج دیا جس کی رو سے بادشاہ کے ساتھ وفاداری بڑے جاگیرداروں اور مزارعین سب کا فرض قرار پائی۔
ولیم نے کلیسا کو بھی اپنے تابع رکھا۔ تاہم مذہبی مقدمات کے تصفیے کے لیے کلیسا کی الگ عدالتیں قائم کی گئیں۔ ولیم فاتح کا جانشین اس کا بیٹا ولیم روفس (وفات 1100ء) ہوا جو بداطوار اور حریص تھا لیکن اس کا چھوٹا بھائی ہنری اول انگلستان کے ممتاز بادشاہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے ایک منشور کے ذریعے کلیسا اور جاگیرداروں کو اطمینان دلایا کہ ان سے صرف واجب رقومات ہی وصول کی جائیں گی۔
ہنری اول کے جانشین اس کے بھانجے سٹیفن کے عہد میں خانہ جنگی ہوتی رہ۔ سٹیفن ایک کمزور حکمران تھا اور اس کی کمزوری سے جاگیرداروں کو سرکشی کا موقع مل گیا۔ 1137/38ء میں تاج پر اپنا حق جتاتے ہوئے ہنری اول کی بیٹی میٹلڈا انگلستان میں وارد ہوئی۔ اس کے بعد خانہ جنگی نے غارت گری اور خونریزی کا طوفان برپا کر دیا۔ 1154ء میں یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب میٹلڈاکا بیٹا ہنری دوم انگلستان آیا اور فریقین میں یہ مصالحت ہو گئی کہ سٹیفن اپنی بقیہ زندگی تک بادشاہ رہے گا اور ہنری کو اپنا ولی عہد بنائے گا۔
پلانٹا جینیٹ بادشاہ
پلانٹا جینیٹ برطانیہ میں ایک شاہی سلسلہ تھا جو 1154 ء سے 1485ء تک حکمران رہا۔ سٹیفن کا جانشین ہنری دوم ایک وسیع مملکت کا فرمانروا تھا جس میں فرانس کا بہت سا حصہ شامل تھا۔ ہنری دوم ایک طاقتور بادشاہ تھا۔ اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں ملک میں امن قائم کیا اور جاگیرداروں کی طاقت کو کمزور کرنے کے لیے قوانین نافذ کیے۔ ان اصلاحات کو روبہ عمل لانے میں ہنری کو اپنے وزیر تھامس بیکٹ سے بڑی مدد ملی لیکن کچھ عرصہ بعد جب بادشاہ نے بیکٹ کو اسقف اعظم کینٹر بری مقرر کیا تو آخر الذکر کلیسا کے مفاد کو مقدم سمجھنے لگا اور دونوں میں نزاع شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں بیکٹ کو قتل کر دیا گیا۔
ہنری دوم کا جانشین شیر دل رچرڈ اول اپنے باپ کی وفات سے دو سال قبل صلیبی جنگ میں شریک ہونے کے لیے چلا گیا تھا، اس نے صرف سات مہینے انگلستان میں گزارے۔
رچرڈ لاولد تھا، اس لیے اس کی جگہ امرا (بیرنوں) نے اس کے بھائی جان کو بادشاہ منتخب کیا۔ وہ ایک خود غرض اور ظالم شخص تھا۔ جاگیرداروں نے فلپ شاہ فرانس سے جب اس کے ظالمانہ رویے کی شکایت کی تو فلپ نے جان کو جوابدہی کے لیے طلب کیا۔ جان کے انکار پر فلپ نے نارمنڈی پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔ اس کے بعد فرانس انگریزوں کے ہاتھوں میں، سوائے ایک علاقے کے، باقی سارا چلا گیا۔
۔1205ء میں جان نے پوپ کے مقررکردہ اسقف اعظم کینٹر بری کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ پوپ نے جان کو کلیسا سے خارج کر دیا۔ اس پر جان نے پوپ کی اطاعت قبول کر لی اور اسقف اعظم کو تسلیم کر لیا۔
جان نارمنڈی کو واپس لینا چاہتا تھا۔ اس نے اخراجات جنگ کے لیے جاگیرداروں سے بھاری رقومات کا مطالبہ کیا جس پر جاگیردار اس کے خلاف جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ عوام بھی جان کے مخالف ہو گئے تھے۔ مجبور ہر کر جان کو بیرنوں کی پیش کردہ دستاویز ''منشوراعظم‘‘ (میگنا کارٹا) پر دستخط کرنا پڑے لیکن تھوڑے ہی عرصہ کے بعد جان اپنے وعدے سے پھر گیا اور لڑائی چھیڑ دی۔ جنگ جاری ہی تھی کہ 1216ء میں اس کا انتقال ہو گیا۔
تخت نشینی کے وقت جان کے بیٹے ہنری سوم کی عمر صرف نو سال تھی۔ 1227ء میں ہنری سن بلوغ کو پہنچا۔ اس نے فرانس کی ایک امیرزادی سے شادی کرنے کے بعد اس کے عزیزوں اور دوسرے پردیسیوں کو اعلیٰ عہدوں سے سرفراز کیا۔ ملک میں بدنظمی پھیل گئی۔ بادشاہ کا بہنوئی سائمن ڈی مونٹ فورٹ ناراض جاگیرداروں کا قائد بن گیا۔ 1264ء میں انہوں نے سائمن کی سرکردگی میں شاہی افواج کو شکست دی اور بادشاہ اور اس کے بیٹے ایڈورڈ کو قید کر لیا۔ حکومت میں عوام کو شریک کرنے کی غرض سے اس نے ایک پارلیمنٹ قائم کی۔ سائمن کی سخت گیری کی وجہ سے اکثر بیرن اس کے مخالف ہو گئے تھے۔ ایڈورڈ قید سے رہائی حاصل کر کے ان بیرنوں کے ساتھ مل گیا۔ اس کی سرکردگی میں شاہی فوج نے ایک لڑائی میں سائمن کو شکست دی اور وہ مارا گیا۔ اس کے بعد ہنری سوم دوبارہ تخت نشین ہوا۔
ایڈورڈ اول فن سپہ گری میں ماہر ہونے کے علاوہ اعلیٰ انتظامی قابلیت بھی رکھتا تھا، اس نے ویلز کی خود مختار کو روکا اور اسے شاہی عمل داری میں شامل کر لیا۔ ایڈورڈ نے سکاٹ لینڈ کو بھی فتح کیا لیکن اس کے مرنے سے دوسال پہلے بغاوت کے نتیجے میں رابرٹ بروس تخت پر بٹھا دیا گیا۔
۔1295ء میں ایڈورڈ نے ایک پارلیمنٹ منعقد کی جو مثالی پارلیمنٹ کہلائی کیونکہ اس میں ملک کے تینوں طبقوں یعنی امرا، اہل کلیسا اور عوام کے نمائندے شریک تھے۔
ایڈورڈ اول کا جانشین اس کا بیٹا ایڈورڈ دوم ایک نااہل بادشاہ تھا، اس نے جن وزیروں کو انتخاب کیا، ان سے امرا ناراض تھے۔ اس میں اور بیرنوں میں کشمکش جاری رہا۔ سکاٹ لینڈ میں رابرٹ بروس نے اس کو 1314ء میں شکست فاش دی۔ اس کی غیرمقبولیت بڑھتی گئی۔ 1327ء میں ملکہ ازابل شہزادہ ایڈورڈسوم کے ہمراہ فرانس سے انگلستان پہنچی۔ امرا اور لندن کے شہریوں نے ان کا پُرجوش خیرمقدم کیا اور 1327ء میں ایڈورڈ سوم کو بادشاہ بنا دیا گیا۔
۔1337ء میں جنگ صدسالہ کا آغاز ہوا۔ اس کی ایک وجہ سکاٹ لینڈ میں فلپ شاہ فرانس کی مداخلت تھی۔ اس کے علاوہ ایک مقام پر فلپ نے حملہ کر دیا۔ ایڈورڈ سوم نے فرانسیسی تخت کا دعویٰ کر کے 1337ء میں فلپ ششم کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ اس جنگ میں ایڈورڈ کو شروع میں کامیابی ہوئی لیکن اس کے مرنے سے پہلے فرانس میں صرف چند ساحلی علاقے انگریزوں کے قبضے میں باقی رہ گئے تھے۔ 1347ء میں ''کالی وبا‘‘ (طاعون) پھوٹ پڑنے سے ملک کی ایک تہائی آبادی فنا ہو گئی۔
ایڈورڈ سوم کا پوتا رچرڈ دوم جس وقت تخت نشین ہوا، اس کی عمر صرف 10 سال تھی۔ اس کے چچا جان آف گانٹ ڈیوک آف لنکسٹر کی قیادت میں ایک مجلس محافظین بادشادہ تشکیل دی گئی۔ 1381ء میں کسانوں نے شورش کی جو کچل دی گئی۔ رچرڈ کے عہد میں ویکلف کی قیادت میں ایک نئے فرقے کا ظہور ہوا، جس کے پیرو لولارڈ کہلاتے تھے۔ رچرڈ نے جب مطلق العنانی سے حکومت کرنا شروع کیا تو امرا اس کی مخالفت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ پارلیمنٹ نے ملکی انتظام امرا کی ایک مجلس کے سپرد کیا لیکن رچرڈ اپنے دشمنوں پر غالب آ گیا اور اس نے ان میں سے بعض کو قتل کروا دیا اور بعض کو جلاوطن کیا جن میں جان آف گانٹ کا بیٹا ہنری لنکاسٹر شامل تھا۔اس کے بعد ہنری جب انگلستان وارد ہوا تو اس کی حمایت میں ملک میں ایک ہمہ گیر بغاوت برپا ہو گئی۔ رچرڈ تخت سے دست بردار ہو گیا اور پارلیمنٹ نے اسے معزول کیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ کی قوت بڑھتی گئی۔

 

Back
Top