Battle of Crécy : France Kayun Haara ? Translated in Urdu By Rizwan Ata

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
کریسی کی لڑائی فرانس کیوں ہارا؟ ۔۔۔۔ تحریر : مارک کارٹ رائٹ

crecy.jpg

۔26 اگست 1346ء کو ہونے والی کریسی کی لڑائی میں انگلستان کی فوج نے اپنے سے کہیں بڑی فرانسیسی فوج کو شکست دی تھی۔ یہ ''سو سالہ جنگ‘‘ (1337ء تا 1453ء) کی پہلی بڑی لڑائی تھی۔ اس لڑائی میں ایڈورڈ سوم شاہ انگلستان (دورِحکمرانی 1327ء تا 1377ء) اور اس کے بیٹے ایڈورڈ دی بلیک پرنس (1330ء تا 1376ء) نے اپنی پیشہ ور فوج کی قیادت کرتے ہوئے فتح پائی۔ اس کامیابی میں اچھے قطعہ زمین کے انتخاب، فوجی نظم و ضبط، لمبے کمان جیسے تباہ کن ہتھیار کے استعمال اور فلپ ششم شاہ فرانس (دورِ حکمرانی (1328ء تا 1350ء) کے تحت فرانسیسی قیادت کی نااہلی نے کردار ادا کیا۔ کریسی کے بعد 1356ء میں پوائٹیرز کی لڑائی میںاس سے بھی شاندار جیت ہوئی اور انگلستان 116 سال تک جاری رہنے والے تنازعے کے ایک فریق کی حیثیت سے اس میں شامل رہا۔
سو سالہ جنگ: 1337ء میں انگلستان کے ایڈورڈ سوم نے فرانسیسی علاقوں تک اپنی سرحدوں کو وسعت دینے کا ارادہ کیا۔ ازابیلا آف فرانس (فرانس کے فلپ چہارم کی بیٹی) کا بیٹا اور فرانس کے چارلس چہارم (دورِ حکمرانی 1322ء تا 1328ء) کا بھانجا ہونے کے ناتے فرانس کی بادشاہت کا دعویدار ہونے کا اس کے پاس بہترین جواز موجود تھا۔ فطری امر ہے، اس وقت کا بادشاہ فلپ ششم اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں تھا اور اسی لیے فرانس اور انگلستان کے درمیان ''سو سالہ جنگ‘‘ کا آغاز ہو گیا۔ اس تنازعے کو یہ نام اس کی طوالت کے باعث انیسویں صدی میں دیا گیا۔
جنگ کی پہلی بڑی کارروائی جون 1340ء میں اس وقت کئی گئی جب ایڈورڈ سوم نے ''ممالکِ زیریں‘‘ (شمال مغربی یورپ کا ساحلی خطہ) میں سلیز کے مقام پر فرانسیسی بحری بیڑے کو تباہ کر ڈالا۔ پھر ''ارل آف ڈربی‘‘ کی قیادت میں ایک فوج نے 1345ء میں برطانوی بادشاہت کے لیے گیسکونی کو دوبارہ چھین لیا۔ اس کے بعد فرانس کے اندر زمینی کارروائی کے لیے ایڈورڈ سوم کے سب سے بڑے بیٹے ایڈورڈ آف وُڈ سٹاک، المعروف ایڈورڈ دی بلیک پرنس کی قیادت میں جولائی 1346ء میں ''وادیٔ سین‘‘ میں تمام فرانسیسی قصبے اور گاؤں نذرِآتش کر دیے گئے۔ ''شیوشی‘‘ کے نام سے مشہور اس حکمت عملی کے کئی مقاصد ہوا کرتے تھے، جیسے مقامی لوگوں میں دہشت پیدا کرنا، حملہ آور فوج کے لیے مفت خوراک کا بندوبست کرنا، اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے قیدیوں سے مالِ غنیمت اور تاوان وصول کرنا، حریف کی معاشی بنیادیں کمزور کرنا تاکہ اس کے لیے فوج مجتمع کرنا دشوار ہو جائے۔ اس عمل میں عام سپاہیوں کو بھی ضربیں لگانے اور لوٹنے کا موقع مل جاتا۔ یہ معاشی جنگ کی ایک ظالمانہ شکل تھی، اور شاید اس حکمت عملی کو شاہ فلپ کو میدان کارزار میں اترنے اور حملہ آور فوج کا مقابلے کرنے کے لیے اکسانے کے مقصد کے تحت ترتیب دیا گیا تھا۔ ہوا بھی یہی کچھ۔
سپاہ اور ہتھیار: کریسی میں دونوں اطراف کے پاس عہدِوسطیٰ کے نائٹس پر مشتمل ہراول گھڑسوار اور پیادہ دستے تھے لیکن انگریزوں کی لمبی کمانوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ لمبی کمان عہدِوسطیٰ کا سب سے تباہ کن ہتھیار تھا۔ ان کمانوں کی لمبائی پانچ سے چھ فٹ ہوتی اور عام طور پر انہیں یئو کے درخت اور سن سے بنایا جاتا۔ زرہ بکتر میں چھید کرنے کی صلاحیت کے حامل یہ تیر 83 سینٹی میٹر یا 33 انچ لمبے ہوتے اور وزن کی زیادتی کے لیے انہیں ایش اور شاہ بلوط سے بنایا جاتا۔ ایک ماہر تیر انداز ایک منٹ میں 15 تیر چلا سکتا تھا یعنی چار سیکنڈ میں ایک۔ انگلستان کی فوج میں سوار تیر انداز بھی ہوتے جو پسپا ہونے والی فوج کا پیچھا کرنے کے قابل ہوتے تھے یا میدان جنگ میں جہاں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی انہیں فوراً بھیجا جا سکتا تھا۔
فرانسیسیوں کے پاس اگرچہ چند تیرانداز تھے مگر انہوں نے زیادہ انحصار آڑی کمان والوں پر کیا۔ آڑی کمان کو استعمال کرنے کے لیے کم تربیت درکار ہوتی ہے۔ فلپ کی فوج میں سب سے نمایاں حصہ جینوا کے آڑی کمان والوں کا تھا۔ آڑی کمان سے تیر چلانے کی رفتار لمبی کمان کی نسبت خاصی کم ہوتی ہے، دونوں کی رفتار میں پانچ اور ایک تیر کا تناسب ہوتا ہے۔
جہاں تک پیادہ فوج کا تعلق ہے، بہتر مسلح افراد نے پتریوں والے زرہ بکتر یا موٹا اور سخت لباس یا دھاتی ٹکڑوں والا چمڑا پہنا ہوتا۔
عام پیادہ سپاہ کو عموماً گھڑ سواروں کے متصادم ہونے تک روکے رکھا جاتا تھا۔ ان کے پاس زرہ بکتر برائے نام ہوا کرتے تھے اور ہتھیار بھی برچھی، نیزا اور کلہاڑا ہوا کرتے تھے یا پھرزرعی آلات میں ردوبدل سے بنے ہتھیار۔ ایڈورڈ کی فوج کے پاس چند خام توپیں بھی آ گئیں، تاہم اس دور کی پسماندہ ٹیکنالوجی کے باعث ان کا اثر محدود تھا۔
لڑائی: کیلیس کے جنوب میں ایک چھوٹے سے قصبے ''کریسی ان پونیٹیو‘‘ کے نزدیک 26 اگست 1346ء کو پڑاؤ سے قبل دونوں افواج کے درمیان چند جھڑپیں راستے میں ہوئیں۔ شاہ ایڈورڈ اپنی سپاہ کی خود قیادت کرتے ہوئے 12 جولائی کو شربورگ کے قریب سینٹ واسٹ لا ہوگ پر اترا تھا۔ پھر وہ مشرق کی جانب چل پڑا۔ بادشاہ بلیک پرنس کی سپاہ سے جا ملا اور شہزادے کو ''سر‘‘ کا خطاب دیا جو شاید کامیاب دھاوے بولنے کا انعام تھا۔ اس کے بعد 26 جولائی کو کائن پر قبضہ کر لیا گیا اور پھر حملہ آور فوج پیرس کے مغرب میں پویسی کے مقام پر شمال کی طرف مڑ گئیں اور بالآخر کریسی کے نزدیک پہنچ گئی۔ اسی دوران شاہ فلپ قریبی ابویل سے اپنی فوجوں کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھا۔
کریسی کی لڑائی میں تعداد پر اختلاف ہے، لیکن تاریخ دانوں کا اتفاق ہے کہ فرانسیسی فوج کے مقابلے میں انگلستان کی فوج بہت کم تھی، غالباً 25000 اور 12000 کا مقابلہ تھا۔ چند تاریخ دان ایڈورڈ کی فوج کی تعداد 15000 بتاتے ہیں۔
شاہ ایڈورڈ کی فوج نے اپنی عددی کمی کو پورا کرنے کے لیے قدرے اونچے مقام پر پڑاؤ کیا جہاں سے قریبی دریا نظر آتا تھا۔ ایڈورڈ کی افواج تین ڈویژنوں میں تقسیم تھیں۔ ایک طرف جنگل اور دلدلی میدان تھا اور دوسری جانب ویڈیکورٹ کا چھوٹا سا گاؤں۔ فرانسیسیوں کو اپنی سپاہ کی قطاریں تنگ رکھنا پڑیں اور حملہ چڑھائی کی طرف کرنا پڑا۔ ایڈورڈ نے اپنی صفوں کے سامنے میدان میں سوراخ کھود کر دشمن گھڑسواروں کا کام مزید دشوار کر دیا۔ جنگ شروع ہونے سے قبل انگریز بادشاہ نے اپنی سپاہ سے ولولہ انگیز خطاب کیا۔
فرانسیسی گھڑسواروں نے پہلے دھاوا بولا لیکن تب ابتری کا شکار ہو گئے جب بڑھنے کا حکم دینے کے بعد واپس لے لیا گیا کیونکہ فرانسیسی بادشاہ نے محسوس کیا کہ وہ بعداز دوپہر ڈوبتے ہوئے سورج کے بالکل سامنے ہیں۔ واپسی کے احکامات کے باوجود بعض فرانسیسی گھڑ سوار آگے بڑھتے رہے۔ شاہ فلپ کے جینوائی آڑی کمان والے طبل اور نقارے کے ساتھ آگے بڑھے لیکن جلد انہیں احساس ہوا کہ وہ دشمن کے تیراندازوں کے براہ راست نشانے پر ہیں اور ان کی صفوں میں ابتری پھیل گئی۔ جب فرانسیسی بادشاہ نے دیکھا کہ جینوائی پسپا ہو رہے ہیں تو اس نے گھڑسواروں کو دھاوا بولنے کا حکم دیا اور اس سے مزید ابہام پیدا ہو گیا۔ اس کے بعد فرانسیسی زرہ بکتر گھوڑے قطار در قطار حملے کرتے رہے لیکن ویلش اور انگریز تیرانداز ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔
ایڈورڈ اپنی سپاہ کی وہی ترتیب بروئے کار لا یا تھا جس کی مدد سے 1333ء میں اس نے ہلیڈن ہِل کے مقام پر سکاٹس کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی۔ فرانسیسی نائٹس بے بس ہوگئے کیونکہ مختلف سمتوں سے آنے والے انگریزوں کے طاقت ور تیر ان کے زرہ بکتروں میں پیوست ہونے لگے۔
فرانسیسیوں کے پاس انگریزوں کے لمبے کمانوں کی دوری، طاقت اور ٹھیک نشانے کا کوئی جواب نہیں تھا۔ جوں ہی جنگ آگے بڑھی ابتری میں بھی اضافہ ہوا، بادشاہ ایڈورڈ کی فوج نے سکاٹ لینڈ اور ویلز میں ہونے والی لڑائیوں سے بڑی محنت سے حاصل ہونے والے تجربے اور نظم و ضبط سے فائدہ اٹھایا۔
فرانسیسی گھڑسواروں کے 15 حملوں کو پیچھے دھکیلا گیا، اور انگریزوں کے نظم و ضبط نے اس امر کو یقینی بنایا کہ کوئی ان کے دفاعی حصار کو توڑ نہ پائے۔ فرانسیسی نائٹس اور اس کے یورپی اتحادی تو تجربہ کار تھے لیکن فلپ کی پیاہ فوج کم تربیت یافتہ اور ناقابل اعتبار نیم فوجی دستوں پر مشتمل تھی۔ یہاں تک کہ اس کے نائٹس بھی غیرمنظم ثابت ہوئے۔ اس کے بعد انگریز بادشاہ نے اپنے نائٹس کو سواری سے اترنے اور یکجان ہو کر دشمن کی جانب بڑھنے کا حکم دیا۔ انہیں برچھی برداروں کی معاونت حاصل تھی اور تیراندازوں کے تیر ان کی حفاظت کر رہے تھے۔
شہزادہ ایڈورڈ، جس کی عمر اس وقت صرف 16 برس تھی، سر گاڈفرے ہارکورٹ کے ہمراہ انگریز فوج کے دائیں حصے کی قیادت کر رہا تھا۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ لڑا لیکن ایک لمحہ ایسا بھی آیا جب فرانسیسی فوج اس پرحاوی ہونے لگی اور وہ بہت بڑے خطرے میں گھر گیا۔ بالآخر اسے بچا لیا گیا اور فرانسیسیوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔
چونکہ فرانسیسی اشرافیہ کے بہت سے افراد کو مار دیا گیا تھا، اس لیے ان کی قیادت کا خاتمہ ہو گیا۔ پس رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ رات ہونے تک نتیجہ واضح ہو چکا تھا۔ بادشاہ ایڈورڈ 300 اموات کے ساتھ لڑائی جیت چکا تھا، اس کے مقابلے میں 14000 فرانسیسی مارے گئے۔
اثرات: کریسی میں فتح نے طلسماتی شہرت حاصل کر لی۔ اس کے بعد واضح عندیہ مل گیا کہ انگلستان اب فرانس سے کم تر نہیں۔ 1066ء میں نارمن ولیم فاتح کی جانب سے انگلستان کی فتح کے بعد اس کی حیثیت کم تر مانی جاتی تھی۔
ان دنوں جولائی 1347ء کو انگلستان کی فوج نے کیلیس کو طویل محاصرے کے بعد فتح کر لیا تھا۔ سکاٹ لینڈ کے ڈیوڈ دوم اور فلپ ششم کے اتحادی نے اکتوبر 1346ء میں انگلستان پر حملہ کیا تھا۔ ڈرہم کو ہدف بنایا گیا لیکن انگریز فوج نے 17 اکتوبر 1346ء کو نیویلز کراس کی لڑائی میں سکاٹس کو شکست دی۔ شاہ ڈیوڈ پکڑا گیا اور اب محسوس ہونے لگا تھا کہ ایڈورڈ سوم کو کوئی نہیں روک پائے گا۔ ایک دہائی بعد ستمبر 1356ء کو پوائٹیرز کی لڑائی میں ایک اور عظیم فتح اس کی منتظر تھی۔ یہ کامیابی کریسی سے بھی زیادہ اہم تھی کیونکہ اس میں فرانسیسی بادشاہ کو پکڑ لیا گیا تھا۔
سوسالہ جنگ میں 1360ء کے بعد کچھ وقت امن کے ساتھ گزرا مگر پھر جنگ کا سلسلہ چل نکلا، فرانس کا چارلس پنجم المعروف چارلس دی وائز (دورِ حکمرانی 1364ء تا 1380ء)اپنے پیشروؤں سے کہیں زیادہ باصلاحیت ثابت ہوا اور اس نے انگریزوں سے علاقے واگزار کرانا شروع کر دیے۔ 1375ء تک انگلستان کے زیرِقبضہ رہنے والا واحد فرانسیسی علاقہ کیلیس اور گیسکونی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا۔ انگلستان کے رچرڈ دوم (دورِ حکمرانی 1377ء تا 1399ء) کے اقتدار میں دونوں اقوام کے مابین طویل امن رہا، لیکن انگلستان کے ہنری پنجم (دورِ حکمرانی 1413ء تا 1422ء) کے زمانے میں جنگ کے شعلے پھر بلند ہو گئے اور اکتوبر 1415ء میں اگینکورٹ کی لڑائی میں انگلستان کو شاندار فتح ملی۔
ہنری کو اتنی زیادہ کامیابیاں ملیں کہ اسے فرانسیسی بادشاہ چارلس ششم (دورِحکمرانی 1380 تا 1422ء) کا وارث نامزد کر دیا گیا۔ ہنری پنجم یہ عہدہ پانے سے قبل مر گیا اور 1429ء میں جون آف آرک (1412ء تا 1431ء) کی آمد نے فرانس کی قسمت چمکا دی،کیونکہ فرانسیسی شاہ چارلس ہفتم (دورِحکمرانی 1422ء تا 1461ء)نے آگے قدم بڑھایا۔
انگلستان کے ہنری ششم (دورِحکمرانی 1422-61ء اور 1470-71ء ) میں بالآخر انگریزوں کو شکست ہوئی اور 1453ء میں جنگ کے اختتام پر کیلیس کے علاوہ تمام فرانسیسی علاقے انہوں نے کھو دیے۔
(ترجمہ و تلخیص: رضوان عطا)
 

@intelligent086
انہوں نے 116 سال جنگ میں ہی گزار دئیے
تاریخی معلومات شیئر کرنے کا شکریہ
 
Back
Top