Battle Of Salamis By Khalid Waheed

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
سلامیز کی لڑائی ۔۔۔۔ تحریر : خالد وحید

Salamis.jpg

فارسی جنگیں اور سلامیز کی لڑائی , سلامیز کی لڑائی 480قبل مسیح میں ہوئی ،یونا نیوں نے فارسیوں کو شکست دی

سلا میز کی لڑائی فارسی جنگوں کے دوران لڑی گئی۔تاریخ کی عظیم ترین بحری جنگوں میں ایک جنگ ادھر بھی ہوئی اور سلامیز نے دیکھا کہ یونان کی مختصر بحری فوج نے فارسیوں کے بڑے فوجی دستوں کو شکست دی ۔اس مہم کے نتیجے میں یونا نیوں نے ایتھنز پر قبضہ کر لیا۔یونانیوں نے دشمن کو شکست سے ہمکنار کیا اور اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔فارسیوں کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ سمندر کے راستے اپنی فوج کو اسلحہ فراہم نہیں کر سکتے تھے اس لئے انہیں شمال کی طرف پسپا ہونا پڑا۔
480قبل مسیح میں یونان پر حملے کے دوران فارسی فوج کو دستوں کو یونان کی شہری ریاستوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا پڑا۔ یونانیوں کو جنوب کی طرف دھکیلنے ہوئے فارسیوں کو غیر ملکیوں کی طرف سے بہت امداد ملی ۔اگست میں فارسیوں کا یونانی فوجیوں سے تھرموپائی لائی کے مقام پر آمنا سامنا ہوا۔یونانیوں نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا لیکن تھرمو پائی لائی کی لڑائی میں انہیں شکست ہوئی۔
بوٹیٹیو اور انییکا کے ذریعے پیش قدمی کرتے ہوئے فارسی فوج کے سربراہ ایرلکسنر 1نے حملہ کردیا اور مزاحمت کرنے والے شہروں کو جلا دیا ۔جدوجہد جاری رکھنے کی کوشش میں یونانی فوج نے پیلوپینسس کا دفاع کرنے کیلئے استمس آف کورنتھ پر اپنی پوزیشن مضبوط کرلی ۔یہ خدشہ تھا کہ فارسی فوجیں کہیں خلیجی سرونک کے پانیوں کو پارنہ کر جائیں۔اس سے بچنے کے لیے کچھ اتحادی رہنمائوں نے دلیل دی کہ بحری جہازوں کو استمس کی طرف روانہ کردیا جائے۔فارسیوں کی طرف سے اس خطرے کے باوجودایتھنزکے رہنما تھیمس ٹو مکزکی یہ دلیل تھی کہ سلامیز پر ہی رہا جائے۔سلامیز سے کیا مراد ہے؟ہم اپنے قارئین کو ہٹاتے چلیں کہ سلامیز خلیجی سردنک میں ایتھنزکے قریب ایک جزیرہ ہے جو اس وقت بہت اہمیت اختیار کر گیا تھا ۔اس لیے اس لڑائی کو سلامیز کی لڑائی کے نام یاد کیا جاتا ہے۔
ایتھنزکا رہنما تھیمس تو کلز جارحانہ ذہنیت کا مالک تھا ۔وہ اس حقیقت سے بخوبی آشنا تھا کہ اگر سلامیز کے اردگرد محدود پانیوں پر لڑائی لڑی جائے تو یونانیوں کے چھوٹے بحری بیڑے کو فارسیوں پر فوقیت حاصل ہوسکتی ہے جونہی ایتھنز کا بحری بیڑہ اتحادیوں کے بیڑے کا حصہ بنا، تھیمس ٹوکلز نے لابنگ شروع کر دی۔
اب ایرکسنر (فارسی فوجوں کا سربراہ)نے یہ ضروری سمجھا کہ اس راستے سے گزرنے کیلئے یونانی بحری بیڑے سے ڈیل کر لی جائے۔ ایرکسنر نے سب سے پہلے جزیرے کے اردگرد تنگ پانیوں پر لڑنے سے گریز کیا۔ایرکسنر کو یہ معلوم تھا کہ یونانیوں میں کئی امور پر اختلافات موجود ہیں،اس لیے اس نے اپنی فوجوں کو استمس کی طرف روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔اسے یہ امید تھی کہ پیلونیسس دستے تھیمس تو کلزکو چھوڑریں گے تاکہ اپنی سرزمین کا دفاع کر سکیں۔لیکن ایرکسنر کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا۔ایسے لگتا ہے کہ وہ تصورات کی دنیا میں رہتا تھا اورحقیقت پسند نہیں تھا۔یونانی بیڑا اپنی جگہ قائم رہا۔اس خیال کو تقویت پہنچانے کیلئے کہ اتحادی ٹوٹ رہے ہیں،تھیمس تو کلزنے ایک چال چلی۔اس نے اپنے ایک ملازم کو ایرکسنر پاس بھیجا اور یہ دعویٰ کیا کہ ایتھنز والوں کے ساتھ دھوکا ہوگیاہے اور اب وہ کوئی اور راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ایرکسنر نے اس اطلاع پر یقین کرلیا اور اس نے اپنے بیڑے کو ہدایت کی کہ وہ آنبائے سلام کو بند کردیں اور دوسری طرف میگارا کو بھی بلاک کردیں۔
اس بات پر یقین کرتے ہوئے کہ اتحادی ٹوٹ رہے ہیں، فارسیوں نے آنبائے سلام کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔فارسیوں کا بیڑہ تین حصوں میں تقسیم تھا اور ان میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔اور یہ اس وقت ہوا جب یہ بیڑا آبنائے سلام کے محدود پانیوں تک پہنچا۔ان کی مخالفت میں اتحادیوں کے بیڑے کو ہدایت جاری کی گئی کہ وہ اپنا کام شروع کریں۔بائیں طرف ایتھنز کا بحری بیڑا تھا اور دائیں طرف سپارٹنر کا بیڑہ تھا۔جونہی فارسی قریب پہنچے‘ یونانیوں نے بڑی ہشیاری سے انہیں تنگ پانیوں کی طرف دھکیل دیا اور اس طرح انہوں نے صبح تک کا وقت حاصل کر لیا۔اس کے بعد یونانیوں نے بڑی تیزی سے حملہ کر دیا۔ فارسیوں کے بحری جہازوں کی پہلی کھیپ کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔اس کے بعد ان کے باقی بحری جہازوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا۔اس بحری جنگ کا آخری نتیجہ یہ نکلا کہ یونان فاتح بن کر سامنے آیا۔سلامیز کی جنگ میں مجموعی طور پر کتنا نقصان ہوا‘ اس کا صحیح اندازہ ابھی تک نہیں لگایا جا سکا‘ تاہم ایک اندازے کے مطابق یونانیوں کے 40بحری جہاز تباہ ہوئے جبکہ فارسیوں کو 200بحری جہازوں سے محروم ہونا پڑا۔بحری جنگ جیتنے کے بعد یونانی آبدوزوں نے سائیٹ ٹیپا کے مقام پر موجود فارسی فوجی دستوں کو ملیامیٹ کر دیا۔​
 

Back
Top