Aaina Behakny se zara pehly

بہکنے سے زرا پہلے
تحریر: صبغہ احمد

انسان کا دکھ کبھی کبھی اتنا رقت آمیز ہو جاتا ہے کہ اس دکھ کو آنسوؤں سے لکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا۔ اپنی بےوقوفی اور دوسرے کی بے حسی اور اس کے درمیان ناانصافی اتنی تلخ ہو کر ابھرتی ہے کہ خون کے آنسو رو کر بھی اس کا ازالہ نہ ممکن ہو جاتا ہے۔ کرب اور اذیت کا صحرا پار کرتے ہوئے بعض دفعہ جب پلٹ کر اس ایک چہرے کی طرف دیکھتی ہوں اور اس پر بے حسی و بے رحمی کے آثار ہنوز پاتی ہوں تو صحرا کی تپتی ہوئی ریت میں لپٹ کو جان دے دینے کو جی چاہتا ہے شاید اس طرح اپنی غلطی کا ازالہ کر سکوں، پھر سوچتی ہوں نہیں۔۔ اللہ برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ وہ جانتا ہے اس کا بندہ اس قابل ہی نہیں کہ اس قدر اذیت سہہ پائے۔ وہ انسان سے بڑھ کر اپنے بندے سے محبت کرتا ہے پھر پتا نہیں مجھے رب کی محبت نظر کیوں نہیں آئی شاید میں اس قابل ہی نہیں کہ اس محبت کو سمجھ پاتی۔ اگر میں جان جاتی کہ میرا رب کتنا عظیم ہے تو میں کبھی صراط مستقیم سے دور نہ ہوتی۔ میں اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوں کہ اس نے نے بہکنے سے زرا پہلے میری دستگیری کی۔​
 

Back
Top