Benefits Of Patience In Quran And Sunnah By Mehar Azhar Hussain In Urdu

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
صبر،تحمل ،برداشت کی اہمیت تحریر : مہر اظہر حسین وینس

sabr.jpg

کسی بھی معاشرے میں کامیابی کے ذرائع توبے شمارہیں لیکن آج کل کے دورمیں اورحالات کومدنظررکھتے ہوئے جس چیزکی بے حد ضرورت ہے وہ ہے صبر،تحمل ،برداشت ۔ صبرکے لغوی معنی ہیںروکنا،برداشت کرنا ،ثابت قدم رہنا یاباندھ دینا۔اوراس کا مفہوم ہے کہ ناخوشگوارحالات میں اپنے نفس پرقابورکھنا ،پریشانی ،بیماری ،تکلیف اورصدمے کی حالت میں ثابت قدمی اورہمت قائم رکھتے ہوئے اپنے مالک وخالق پرمکمل بھروسہ اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے ’’اللہ صابروں کو دوست رکھتاہے ‘‘۔اللہ تعالیٰ صبرکی فضیلت یوں بیان فرماتے ہیں’’یقینااللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔

دوسری جگہ ارشادباری تعالیٰ ہے ’’اورجومصیبت آپ کوپیش آئے ،اس پرصبرکرو،یہ بڑے عز م اورحوصلے کی بات ہے‘‘۔ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبرﷺ سے فرمایا’’اور(اے رسول ؐ)صبرکیجئے جس طرح اولوالعزم رسولوںنے صبرکیا‘‘۔اسی طرح سورۃ النساء آیت نمبر200میںاللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اے ایما ن والو!خود بھی صبرکرواوردوسروں کوبھی صبرکی تلقین کرو‘‘۔

لوگوں نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیاچیزہے؟توآپ ﷺ نے فرمایاصبر۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے نے فرمایا:اسلام چارستونوںپرمبنی ہے ۔۔یقین،صبر ،جہاد اورعدل۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریمؐ نے فرمایا’’اللہ تعالیٰ کے بعض ایمان والے بندو ں اور ایمان والی بندیوں پراللہ تعالیٰ کی طرف سے مصائب اورحوادث آتے رہتے ہیں ، کبھی اس کی جان پرکبھی اس کے مال پرکبھی اس کی اولادپر(اوراس کے نتیجے میں اس کے گناہ جھڑتے رہتے ہیں)یہاں تک کہ مرنے کے بعد وہ اللہ کے حضو ر اس حال میں پہنچتاہے کہ اس کاایک گناہ بھی باقی نہیں ہوتا۔‘‘ بعض لوگ دنیا میں حد سے زیادہ دکھ ،تکلیف اور بیماری کا شکار بنتے ہیں۔

ان لوگوں کو اجراسی مقدار میں ملے گا جس مقدارمیں انہوں نے مصیبت اٹھائی ۔سب سے زیادہ تکالیف اللہ کے پیغمبروں اوربرگزیدہ ہستیوں نے برداشت کیں اور ان پرشکر اورصبرکیاجس طرح حضرت یعقوب ؑ کو ان کے بیٹے حضرت یوسف ؑ کی اندوہناک خبرسنائی گئی توانہوں نے صبرکیا۔ حضرت عائشہ ؓ کو بدنام کرنے کی ناپاک کو شش کی گئی توآپؓ نے صبرکیاجس کو صبرجمیل کہاجاتاہے اسی طرح حضرت حارث ؓ کوتپتے انگاروں پرلٹایا گیا ،حضر ت بلال ؓ کے گلے میں رسی ڈال کرگھسیٹاگیا۔حضرت صہیب رومی ؓ کو ہجرت کے موقع پرمال ودولت سے ہاتھ دھوناپڑا،حضرت ابو سلمہ ؓ سے ان کے بیوی بچے چھین لیے گئے ،ام سلمہؓ سے بچے اورشوہرچھین لیاگیا ۔حضرت خبیبؓ کوایمان لانے کی وجہ سے سولی پرلٹکا دیاگیا ان لوگوں نے دولت ایمان بچانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیا ۔

خداکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مصائب اورمشکلات میں کسی قسم کا اضطراب ،بے زاری اوراللہ کی رحمت سے ناامیدی کا اظہارنہیں کیا بلکہ صبرجمیل اختیارکرتے ہوئے اللہ کے حضور سرخرو ہوئے ۔سب سے زیادہ تکالیف ہمارے پیارے آقاومولیٰ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھائی ہیں ۔دین حق کی تبلیغ کااعلان کیاتو کفارمکہ آپ ؐکے دشمن ہوگئے لیکن آپؐ نے ان کے ظلم وستم کوبرداشت کیااورصبرواستقلال کادامن نہ چھوڑا۔

ابولہب آپؐ کو برا بھلا کہتا۔اس کی بیوی ام جمیل آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھاتی اورکوڑاپھینکتی تب بھی آپ ﷺ لوگوںکے حق میں دعائیں کرتے اورصبراختیار کرتے ،یہاں تک کہ آپ ؐ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپﷺ پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی ۔اس پرآپؐ کی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراؓ نے اس غلاظت کودورکیا۔ آپﷺنے فرمایا:۔ترجمہ:’’بیٹی یہ لوگ نہیں جانتے کہ ان کی بہتری کس چیز میںہے ،ان کے لیے دعاکرو،اللہ انہیں ہدایت دے ‘‘۔

آپ ؐ کاگلاگھونٹنے کی ناپاک جسارت بھی کی گئی ۔آپ ؐکامکمل سوشل بائیکاٹ کیاگیا ،شہید کرنے کی تدبیریں کی گئیں۔طائف میںآپﷺ پرسنگباری کرکے بدن مبارک کولہولہان کیاگیا غزوہ احدمیںآ پ ﷺ کے دندان مبارک شہیدکردیئے گئے لیکن آپ ؐنے ہرموقع پرصبرواستقلال سے ہرتکالیف کواپنے اللہ کی خوشنودی اورحق کی تبلیغ کے لیے برداشت کیا اورہروقت آپ ؐکی زبان سے دعائیہ کلمات ہی نکلے کہ ’’اے اللہ ان کوہدایت دے یہ مجھ کونہیں جانتے ‘‘۔حضورپرنوررحمت عالم ﷺ کے اس صبر نے عرب کے لوگوں میں انقلابی تبدیلی پیداکردی ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، ترجمہ ’’دنیاوآخرت میں حقیقی کامیابی کی خوشخبری کے حق داروہی ہیں جوصبراختیار کرتے ہیں‘‘۔ صبرکا خاص انعام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں صابرکوسب لوگوں کے سامنے خاص انعام سے نوازے گا۔صبرکے ثمرات یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صبرکرنے والوں کاساتھ دیتاہے ،انہیں فتح وکامرانی نصیب ہوتی ہے ۔ایسے لوگوں کوآخرت میں اعلیٰ ترین گھرملتے ہیں جن میں ان کے تما م نیک رشتہ داربھی ان کے ساتھ رہیںگے ۔

مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں بھی صبرکے مفیدنتائج سامنے آتے ہیں۔قوموں پرجب کوئی مصیبت یابراوقت آجائے تواس کامقابلہ صرف ہمت اورصبرہی سے کیاجاسکتاہے ۔ان حالات میں افراتفری ،بدنظمی ،مایوسی اوربے عملی کامظاہرہ کیاجائے توقومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ہمیں چاہئے کہ اگر کوئی تکلیف یامصیبت آپڑے تواللہ کی رضا کی خاطر صبرواستقامت کا مظاہرہ کریںاوراللہ تعالیٰ کی عطاکردہ نعمتوں کاشکراداکریں۔اسی میں ہماری دین ودنیا دونوںکی کامیابی ہے ۔ ٭٭٭​
 

Back
Top