Biography of Urdu Poet "Nida Faazli" By Abdul Hafeez Zafar In Urdu

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ندا فاضلی ..... تحریر : عبدالحفیظ ظفر

Nida-Fazili.jpg

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا ندا فاضلی نے اثر انگیز غزلیں لکھیں، دلکش گیت تحریر کیے
پاکستان اور ہندوستان کی فلمی صنعت میں کئی ایسے نغمہ نگار آئے جو شاندار فلمی گیت لکھنے کے علاوہ بڑی اثر انگیز غزلیں اور نظمیں بھی لکھتے تھے۔ ان میں قتیل شفائی، سیف الدین سیف، تنویر نقوی، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطانپوری، جانثار اختر، کیفی اعظمی، کلیم عثمانی اور کئی دوسرے نام لیے جا سکتے ہیں۔ کئی لوگ بہت عرصہ تک قتیل شفائی کو صرف فلمی شاعر ہی سمجھتے رہے لیکن انہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ قتیل صاحب نے 22 شعری کلیات بھی تخلیق کیے۔ وہ ایک شاندار رومانوی شاعر تھے۔ اسی طرح یہ خاکسار کالج کے زمانے تک مجروح سلطانپوری کو صرف فلمی گیت نگار ہی سمجھتا رہا لیکن پھر میں نے ان کا یہ شعر سنا
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
میں فوری طور پر مجروح صاحب کی شعری عظمت کا قائل ہو گیا۔ اسی طرح راجندر سنگھ بیدی کی ذاتی فلم ''دستک‘‘ دیکھی تو اس فلم کے آخر میں مجروح سلطانپوری کی غزل سننے کو ملی۔ لتا منگیشکر نے یہ لاجواب غزل جس مہارت سے گائی، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
اس غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیں۔
ہم ہیں متاعِ کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
اگر صرف نغمہ نگاروں کی بات کی جائے تو ان میں بے شمار نام گنوائے جا سکتے ہیں لیکن اوپر جن شعرا کا ذکر کیا گیا ہے وہ نہ صرف غزل اور نظم کے شاعر تھے بلکہ اعلیٰ درجے کے گیت نگار بھی تھے۔ بالکل اسی طرح یہ اوصاف ایک اور شاعر میں بھی بدرجہ اتم موجود تھے جن کا نام تھا ندا فاضلی۔
ندا فاضلی 12 اکتوبر 1938ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام مقتدا حسن ندا فاضلی تھا۔ وہ کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی پرورش گوالیار میں ہوئی، جہاں وہ پہلے سکول گئے اور بعد میں انگریزی ادب کا مطالعہ کیا۔ ان کے والد بھی اردو کے شاعر تھے۔ 1965ء میں ان کے والد اور خاندان کے دوسرے افراد پاکستان چلے آئے لیکن ندا فاضلی نے بھارت میں ہی قیام کا فیصلہ کیا۔ بہر حال والدین اور خاندان کے دوسرے افراد کا پاکستان ہجرت کر جانا ان کیلئے کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ندا فاضلی روٹی روزگار کیلئے گوالیار سے ممبئی چلے آئے۔
ندا فاضلی جب نوجوان تھے تو ایک مندر کے پاس سے گزرے جہاں انہوں نے ایک بھجن سنا۔ بھجن گانے والی سرداس کی موسیقی میں گا رہی تھی جس میں رادھا اپنی نوکرانیوں کے ہمراہ اپنے محبوب کرشنا سے جدائی کا غم بیان کر رہی تھی۔ اس بھجن کے شعری حسن سے ندا فاضلی بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے نظمیں لکھنا شروع کر دیں۔ اس عرصہ کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ اردو شاعری کی کچھ حدود ہیں۔ انہوں نے میر اور غالب کی شعری روح کو اپنے اندر جذب کیا تاکہ وہ جو کچھ چاہتے ہیں اس کا اظہار رک سکیں۔ وہ مِیرا اور کبیر کی گائیکی کے مزاج سے بڑے متاثر ہوئے۔ انہوں نے ٹی ایس ایلیٹ، گوگول اور چیخوف کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا جس سے ان کا شعری افق بہت وسیع ہو گیا۔ ان کے شعری اسلوب سے فلمسازوں، ہندی اور اردو کے ادیبوں کو خاصا متاثر کیا۔ انہیں اکثر مشاعروں میں بلایا جاتا تھا۔ ان کا غزل پڑھنے کا انداز بہت دلکش ہوتا تھا۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا
دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے، کھو جائے تو سونا ہے
انہوں نے 60ء کی دہائی کی شعرا کے بارے میں تنقیدی مضامین لکھے جن سے ساحر لدھیانوی، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی جیسے شعرا ناراض ہو گئے۔ چند مشاعروں میں ندا فاضلی کا بائیکاٹ کیا گیا۔ ان کے کیرئیر کو دوبارہ زندگی اس وقت ملی جب انہیں کمال امروہی نے اپنی فلم ''رضیہ سلطان‘‘ کے لیے بلایا۔ نغمہ نگار جاں نثار اختر ''رضیہ سلطان‘‘ کے گیت لکھ رہے تھے لیکن ان کا انتقال ہو گیا۔ اس طرح ''رضیہ سلطان‘‘ کے آخری دو گیت ندا فاضلی نے تحریر کیے جو خاصے پسند کیے گئے۔ 2013ء میں انہیں پدم شری ایوارڈ دیا گیا۔ انہوں نے بہت لکھا۔ ذیل میں ان کی کتب کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
''لفظوں کے پل، مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، کھویا ہوا سا کچھ، شہر میرے ساتھ چل، زندگی کی تڑپ، سب کا ہے ماہتاب، شہر میں گاؤں‘‘۔ یہ ان کے شعری کلیات ہیں۔ ان کی نثر کی کتابوں کا بھی جواب نہیں۔ ان میں ''ملاقاتیں، دیواروں کے بیچ، دیواروں کی بہار، چہرے، دنیا میرے آگے‘‘ شامل ہیں۔ ندا فاضلی کو کئی ایوارڈ دیے گئے۔
انہوں نے دو فلموں کے مکالمے بھی تحریر کیے۔ ذیل میں ہم ان کی غزلوں کے کچھ اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ جدید طرزِ احساس کے ساتھ شعری طرز احساس کا بھی کتنا خیال رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ سادگی اور سلاست بھی ان کی شاعری کے اہم اوصاف تھے۔ یاسیت بھی ان کے ہاں ملتی ہے لیکن وہ رجائیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک اور شعری وصف ہے اور وہ ہے فطری حقائق کا ادراک۔ وہ فطری حقائق کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ قاری پر یہ واضح کرتے نظر آتے ہیں کہ آپ فطرت سے لڑ نہیں سکتے، آپ کو سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
سفر میں دھوپ تو ہو گی جو چل سکو تو چلو
سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو
ہر اک کشتی کا اپنا تجربہ ہوتا ہے دریا میں
سفر میں روز ہی منجدھار ہو ایسا نہیں ہوتا
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہو گا
وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہو گا
یوں تو قدم قدم پہ ہے دیوار سامنے
کوئی نہ ہو تو خود سے الجھ جانا چاہیے
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو، کئی بار دیکھنا
دھوپ میں نکلو، گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھ
سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
اب ذرا ندا فاضلی کے فلمی گیت دیکھئے۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا (آہستہ آہستہ)
تیرا ہجر میرا نصیب ہے (رضیہ سلطانہ)
میرے تیرے نام نئے ہیں (اس رات کی صبح نہیں)
گھر سے مسجد ہے بہت دور (تمنا)
ہوش والوں کو خبر کیا (سرفروش)
میری آنکھوں نے چنا ہے تجھ کو (ترکیب)
یہ ہوائیاں (بس اتنا سا خواب)
آ بھی جا (سر)
یہ ایک دھوپ ایک سفر (دھوپ)
جب نہیں آئے تھے تم (دیو)
۔8 فروری 2016ء کو ندا فاضلی کا 77 برس کی عمر میں ممبئی میں انتقال ہو گیا۔ اتنا زیادہ ادبی کام کرنے والے کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے؟

 

Back
Top