Biography of Urdu Writer Dr Mubashir Hassan By Abdul Hafeez Zafar In Urdu

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
ڈاکٹر مبشر حسن
Dr.jpg

وہ پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے تھے ۔ کئی کتابیں بھی لکھیں
تحریر : عبدالحفیظ ظفر

اگر ڈاکٹر مبشر حسن کو پاکستان کی سیاست کا بوڑھا برگد کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان سے پہلے نواب زادہ نصراللہ خان کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا۔ وہ پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر تھے لیکن اس کے علاوہ وہ سیاست دان، مصنف اور ماہرمعاشیات بھی تھے۔ اس لحاظ سے انہیں کثیرالجہات شخصیت کہا جا سکتا ہے۔
۔22 جنوری 1922ء کو پانی پت (بھارت) میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر مبشر حسن 1947ء میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے بی ایس سی سول انجینئرنگ کی اور پھر بعد میں امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے سول انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان (اس وقت مغربی پاکستان) واپس آنے کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1965ء میں بھارت کے ساتھ جنگ کے بعد ان کا سیاسی فلسفہ منظر عام پر آیا۔
انہوں نے اپنا سیاسی منشور ''عوامی اتحاد کا اعلان‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) میں ڈیموکریٹک سوشلزم کی وکالت کی۔ ان کی مقبولیت کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں مغربی پاکستان بلوا لیا جہاں ڈاکٹر مبشر کے گھر 30 نومبر 1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کے ساتھ جے اے رحیم، اور کئی دوسرے رہنما بھی موجود تھے۔ سائنس اور سیاست پر وسیع علم رکھنے کی وجہ سے ڈاکٹر مبشر بہت جلد ذوالفقار علی بھٹو کے معتمد ساتھی بن گئے۔ اس کے علاوہ زیڈ اے بھٹو نے انہیں اپنا مشیر بھی بنا لیا۔ 1971ء کی جنگ کے بعد مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو ڈاکٹر مبشر کو وزیرخزانہ بنا دیا گیا جنہوں نے 1972ء میں وزارت سائنس کے لیے بھٹو کی مدد کی۔
۔1974ء میں ڈاکٹر مبشر حسن کے بھٹو کے ساتھ اختلافات پیدا ہو گئے جب بھٹو نے ملک معراج خالد کو وزارت قانون سے ہٹا دیا، جن کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ 1974ء میں ڈاکٹر مبشر حسن نے بطور وزیرخزانہ استعفیٰ دے دیا لیکن بھٹو کے ساتھ ان کی وفاداریاں قائم رہیں۔
۔1974ء میں ہی بھٹو نے انہیں وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا مشیر مقرر کر دیا۔ ڈائریکٹوریٹ آف سائنس کے ڈائریکٹر ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر مبشر نے ''کہوٹہ پراجیکٹ‘‘ کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ 1977ء میں ڈاکٹر مبشر حسن نے پی این اے کے رہنماؤں کو ایک میز پر لانے کے لیے بہت کاوشیں کیں، جو ناکام ثابت ہوئیں۔ 1977ء میں جب جنرل ضیاالحق نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ کر خود اقتدار سنبھالا تو ڈاکٹر مبشر حسن کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں اڈیالہ جیل میں بھٹو کے ساتھ رکھا گیا جہاں انہوں نے سات سال گزارے۔ 1984ء میں جیل سے رہا ہونے کے بعد ڈاکٹر مبشر حسن دوبارہ انجینئرنگ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔انہوں نے پاکستان کے معاشی مسائل پر کئی مضامین لکھے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) گروپ میں شمولیت اختیار کر لی اور مرتضیٰ بھٹو کی حمایت کا اعلان کیا۔ وہ کئی برس پہلے عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ''شاہراہِ انقلاب، رزمِ زندگی اور پاکستان کے جعلی حکمران طبقے‘‘ بہت مقبول ہوئیں۔ انگریزی زبان میں بھی ان کی جن کتابوں کو پذیرائی ملی ان میں ''برڈز آف انڈس، میراج آف پاور، نیشنل یونٹی، کیا کیا جائے، اے ڈیکلریشن آف یونٹی آف پیپل‘‘ شامل ہیں۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے 1988ء میں ''دوست‘‘ نامی تنظیم بنائی جس میں خاصی تعداد میںنوجوان شامل ہوئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ عام لوگوں کو پاکستان کے حقیقی مسائل سے آگاہ کیا جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور دیا جائے۔
یہ تنظیم کچھ عرصہ فعال رہی لیکن پھر تحلیل ہو گئی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں ڈاکٹر مبشر حسن بہت متحرک تھے۔ اس وقت لاہور میں قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں ہوا کرتی تھیں جو ساری پی پی پی نے جیت لیں۔ اس زمانے میں الیکشن لڑنا بہت سستا تھا۔ کروڑوں روپوں کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے کئی امیدواروں نے سائیکل پر اپنی انتخابی مہم چلائی اور کامیاب ہوئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے باغبانپورہ کے علاقے میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور 85000 ووٹ حاصل کیے۔ ان کا مخالف امیدوار ذکاالرحمان صرف 10000 ووٹ حاصل کر سکا اور اس کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس وقت ''بھٹو لہر‘‘ تھی اور پی پی کا مقابلہ کرنا بہت مشکل تھا۔
ڈاکٹر مبشر حسن 1977ء میں پی پی پی کے سیکرٹری جنرل تھے۔ جب پی این اے کی تحریک عروج پر تھی تو انہوں نے اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس پر انہیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ کہا گیا کہ انہوں نے مشکل وقت میں بھٹو صاحب کا ساتھ چھوڑ دیا۔ بہرحال انہوں نے کیوں استعفیٰ دیا اور اس وقت کیوں دیا، ابھی تک ایک معمہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی رکن اسلم گورداسپوری نے اپنی خودنوشت میں دعویٰ کیا ہے کہ ڈاکٹر مبشر حسن پیپلز پارٹی کے بنیادی رکن نہیں تھے۔ چند برس قبل روزنامہ ''دنیا‘‘ میگزین کو ایک انٹرویو میں بھی انہوں نے واشگاف الفاظ میں یہ کہا تھا۔ بہرحال پیپلز پارٹی کی طرف سے اس دعوے کی کبھی تردید نہیں کی گئی۔
جب ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا تو ڈاکٹر مبشر حسن ضیاالحق کے پاس گئے تھے اور انہیں کہا تھا کہ وہ بھٹو کو پھانسی نہ دیں۔ ڈاکٹر مبشر کے بقول ضیاالحق نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ بھٹو کو سزائے موت نہیں دی جائے گی لیکن بعد میں کیا ہوا یہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔
ڈاکٹر مبشر حسن طویل عرصے سے بیمار تھے۔ 14 مارچ 2020ء کو فرشتہ اجل آن پہنچا اور وہ 98 برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔

 

@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا​
 
Back
Top