Body Language Ka Istemal By Vardah Baloch

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
باڈی لینگوئج کا استعمال ۔۔۔۔۔ تحریر : وردہ بلوچ

body lang.jpg

٭: باڈی لینگوئج (جسمانی زبان) انسانوں میں معلومات کو شعوری یا نیم شعوری طور پر جسمانی حرکات یا چہرے کے تاثرات سے پہنچانے کا ذریعہ ہے۔
٭: باڈی لینگوئج کے تین بڑے استعمال ہیں؛ بولنے کے متبادل کے طور پر برتنا۔ بولے گئے الفاظ پر زور دینا اور مزاج کی عکاسی کرنا۔
٭: باڈی لینگوئج پر پہلی جدید کتاب سترہویں صدی عیسوی میں سامنے آئی۔ 1644ء میں شائع ہونے والی جان بول وَر کی کتاب ''کرولوجیا: آر دی نیچرل لینگوئج آف دی ہینڈ‘‘ ہاتھوں کی حرکات پر لکھی گئی تھی۔
٭: جسمانی زبان کو سمجھنے کے لیے عورت کے دماغ کے 14 سے 16 حصے متحرک ہوتے ہیں جبکہ مرد کے صرف چار سے چھ حصے۔
٭: عورت کی نظر کا محیط زیادہ ہوتا ہے، اس لیے وہ مرد کو سر سے پاؤں تک بغیر احساس دلائے دیکھنے کے قابل ہوتی ہے۔ مردوں کی نظر کا محیط کم ہوتا ہے، اس لیے مرد زیادہ گھور کر دیکھتے ہیں اور اس کا پتا بھی چل جاتا ہے۔
٭: آرام دہ حالت میں آنکھیں جھپکنے کی شرح 6 سے 8 فی منٹ ہوتی ہے اور آنکھیں ایک سیکنڈ کے دسویں حصے کے برابر بند ہوتی ہیں۔ دباؤ کے دوران لوگوں کی آنکھ جھپکنے کی رفتار میں ڈرامائی اضافہ ہو جاتا ہے۔
٭: امریکی عام طور پر واقف کاروں سے 18 سے 48 انچ دور کھڑے ہوتے ہیں۔ البتہ جاپانیوں کا فاصلہ 10 انچ ہوتا ہے۔ شہریوں کی نسبت دیہاتی زیادہ قریب کھڑے ہوتے ہیں۔
٭: چہرے کے تمام تاثرات میں سب سے پُرفریب مسکراہٹ ہے۔ مسکراہٹ کم و بیش 18 طرح کی ہوتی ہے لیکن ان میں سے صرف ایک حقیقی خوشی کو ظاہر کرتی ہے۔ اسے ''ڈوشین سمائل‘‘ کہتے ہیں۔
٭: دوران گفتگو جب کوئی فرد ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ اور ساتھ ہی ایک بازو پر دوسرا بازو رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ جذباتی طور پر وہ گفتگو سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔
٭: چہرے کے چھ تاثرات دنیا بھر میں یکساں پائے جاتے ہیں؛ غصہ، بیزاری، خوف، خوشی، اداسی اور حیرت۔ حال ہی میں بعض سائنس دانوں نے کہا ہے کہ حقارت اور شرمندگی کے تاثرات بھی دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔
٭: شمالی یورپ، مشرق بعید اور برطانیہ کی ثقافت میں میل جول اور گفتگو کے دوران جسمانی رابطہ بہت کم ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرق وسطیٰ، لاطینی امریکا اور جنوبی یورپ میں میل جول اور گفتگو میں لوگ ایک دوسرے کو زیادہ چھوتے ہیں اور یہ ان معاشرتی زندگی کا حصہ ہے۔
٭: مشرق وسطیٰ میں بات کرتے ہوئے مردوں کا مردوں سے اور عورتوں کا عورتوں سے آنکھیں ملائے رکھنا مغرب کی نسبت زیادہ عام ہے۔ البتہ متعدد ایشیائی، افریقی اورلاطینی امریکی ممالک میں آنکھ ملائے رکھنے کو جارحیت اور مقابلے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
٭: محقق اور نیچرلسٹ چارلس ڈارون نے ''دی ایکسپریشن آف دی ایموشنز آف مین اینڈ اینیملز‘‘ (1872ء) میں دعویٰ کیا کہ بوزنے اور انسان کے چہرے کے تاثرات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔
٭: بعض سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ انسان ہاتھ ملا کر جسمانی بو کا تبادلہ کرتے ہیں۔
٭: خود کو ٹھنڈا یا پُرسکون کرتے وقت انسان بہت سی غیرارادی حرکات کرتا ہے۔ ان میں گردن پر مساج اور بالوں سے کھیلنا شامل ہیں۔ بعض لوگ ٹھوڑی کو رگڑتے ہیں اور بعض ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہیں۔ ان تمام حرکات سے اینڈورفینز ہارمون خارج ہوتا ہے جس سے دماغ کو آرام ملتا ہے۔
٭: بے آرامی پر مرد زیادہ تر چہرے کو چھوتے ہیں جبکہ عورتیں گردن، کپڑے، زیورات، بازو یا بال چھونے کو ترجیح دیتی ہیں۔
٭: تصادم کی صورت حال میں لوگ اپنی ٹانگوں کو زیادہ پھیلا کر کھڑے ہوتے ہیں ۔
٭: بعض دوسرے جانوروں کی طرح انسان بھی اپنا غلبہ ظاہر کرنے کے لیے سینہ تان لیتے ہیں۔ مرد آستینیں بھی چڑھا لیتے ہیں۔
٭: نابینا پیدا ہونے والے بچے بری خبر سننے پر بینا افراد کی طرح اپنا چہرہ چھپا لیتے ہیں۔
٭: ایک تحقیق کے مطابق سچ بولنے والوں کی نسبت جھوٹ بولنے والے کم جسمانی حرکات کرتے ہیں، کم چھوتے ہیں اور اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں کو کم ہلاتے ہیں۔
٭: جو افراد خوش ہوئے بنا مسکراتے ہیں انہیں مسکراہت خوش ہونے میں مدد دیتی ہے۔
٭: انگوٹھا دکھانا مغرب میں ''اچھا‘‘ کی علامت ہے، اٹلی میں ''ایک‘‘ کی، جاپان میں ''پانچ کی۔ پاکستان اور ایران میں انگوٹھا دکھانا روایتی طور پر برا سمجھا جاتا ہے۔
٭: نابینا افراد کی جسمانی زبان وہی ہوتی ہے جو بینائی والے افراد کی ہوتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسمانی زبان چہرے کے تاثرات اور بولنے سے زیادہ ہماری جبلت کا حصہ ہے۔
٭: دوسرے کی طرف انگلی اٹھانے کو دنیا بھر میں برا سمجھا جاتا ہے۔​
 

Back
Top