Brabar Ka Hissab By Khalid Masood Khan Column

برابر کا حساب ۔۔۔۔۔۔ خالد مسعود خان

اب آخر میں تو لاک ڈائون بالکل ہی مذاق بن کر رہ گیا تھا۔ دیگر شہروں میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہو گا کہ وہ کون سا جاپان میں ہیں؛ تاہم ملتان میں تو حد ہی ہو گئی تھی۔ میں گھر جاتے ہوئے سڑکوں پر رش کا موازنہ قبل از لاک ڈائون والی ٹریفک سے کرتا تھا تو کل تک ٹریفک کا حال ویسا ہی ہو چکا تھا جیسا پہلے عام دنوں میں ہوتا تھا۔ پرسوں بعد از نماز عصر چوک فوارہ سے تھوڑا آگے فاطمہ جناح ہسپتال والے چوک پر معمول کے مطابق والا رش تھا۔ گاڑی اس ٹریفک میں دس منٹ تک پھنسی رہی۔ دو ماہ پہلے بارہ منٹ پھنستی تھی‘ تو پرسوں دو منٹ کی بچت ہوئی۔ بس اتنا فرق تھا۔ مجھے کل آصف مجید نے ایک وڈیو پوسٹ کی تھی۔ یہ وڈیو تائیوان میں کورونا کی صورتحال پر تھی۔ چین کے سابقہ آمر چیانگ کائی شیک نے چین سے بھاگ کر بحیرہ مشرقی چین میں واقع ایک جزیرے پر اپنی متوازی حکومت قائم کر لی تھی۔ یہ جزیرہ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے پہلے فارموسا کہلاتا تھا۔ مائوزے تنگ کے لانگ مارچ کے نتیجے میں چیانگ کائی شیک کی حکومت ختم ہوئی اور وہ 1949ء میں نواحی جزیرے تائیوان میں چلا گیا اور وہاں اپنی حکومت قائم کر لی۔ اصلی چین کا نام پیپلز ریپبلک آف چائنا ہو گیا اور تائیوان کا نام ریپبلک آف چائنا ہو گیا۔ چین تب دنیا سے کٹا ہوا ملک تھا اور اقوام متحدہ سے لے کر دوسرے عالمی اداروں تک تائیوان ہی نمائندہ چین تصور ہوتا تھا۔ 1970ء تک دنیا کے بیشتر ممالک نے چین (مین لینڈ) کو بطور ایک مقتدر ریاست تسلیم نہ کیا اور یہ درجہ تائیوان کو حاصل رہا؛ تاہم اس کے بعد حالات بالکل الٹ ہونا شروع ہو گئے۔ آج پیپلز ریپبلک آف چائنا حقیقی چین کی نمائندگی کرتا ہے اور تائیوان کسی عالمی ادارے کارکن نہ ہونے کے باوجود عملی طور پر بڑا مستحکم ہے۔ اڑھائی کروڑ سے کم آبادی اور محض چھتیس ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل یہ ملک دنیا کی اکیسویں مضبوط ترین معیشت ہے اور اس کی مضبوط معاشی بنیاد کا دارومدار برآمدات پر ہے۔ تائیوان آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا نواں حصہ اور رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا قریب دسواں حصہ ہے۔ پاکستان فی کس آمدنی کے حساب سے دنیا میں ایک سو بتیسویں نمبر پر ہے جبکہ تائیوان اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ تائیوان کی فی کس آمدنی پاکستان سے سترہ گنا زیادہ ہے۔ قارئین! معاف کیجیے گا‘ میں نے ضروری سمجھا کہ تائیوان کے بارے میں بنیادی باتوں سے آپ کو آگاہ کردوں۔ یہ اس لیے ضروری تھا کہ آپ سب لوگ تائیوان کی موجودہ شکل و صورت سے تھوڑی بہت جانکاری لے لیں۔ تائیوان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد چار سو انتیس اور اب تک وہاں اس بیماری سے ہونے والی اموات کی تعداد محض چھ ہے۔ یہ ملک چین کا قریب ترین ہمسایہ ہے اوراس مہلک بیماری سے دیگر ممالک کی نسبت کم ترین متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ مزید یہ کہ گزشتہ سترہ دن میں یہاں کوئی نیا مریض سامنے نہیں آیا۔ نیا مریض سامنے نہ آنے کی وجہ یہ نہیں کہ وہاں ٹیسٹ نہیں ہو رہے‘ حقیقت یہ ہے کہ وہاں اس مہلک مرض پر قابو پایا جا چکا ہے۔ حیرانی اس بات پر نہیں کہ وہاں کوئی نیا مریض سامنے نہیں آ رہا بلکہ حیرانی اس بات پر ہونی چاہئے کہ وہاں لاک ڈائون نامی احتیاط سرے سے برتی ہی نہیں گئی۔ نہ بازار بند ہوئے نہ صنعت کا پہیہ رکا۔ نہ دفاتر بند ہوئے اور نہ ہی سکولوں میں چھٹیاں ہوئیں۔ نہ دیہاڑی دار متاثر ہوئے اور نہ پرائیویٹ سیکٹر میں لوگ بیروزگار ہوئے۔ سارا ملک کھلا رہا اور معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہا۔ نہ کوئی امدادی پیکیج دینا پڑا اور نہ ہی وہاں کے حکمرانوں کو چندے کی اپیل کرنی پڑی۔ اس کی صرف ایک وجہ تھی‘ قومی نظم و ضبط۔ ساری قوم نے اس افتاد کے آغاز سے ہی اسے نہایت ذمہ داری اور سنجیدگی سے لیا اور دوکام نہایت پابندی سے کیے۔ ایک سماجی فاصلہ یعنیSocial Distancing پر عمل کیا اور دوسرا فیس ماسک استعمال کیا۔ صرف دو پابندیوں کے نتیجے میں وہ بے شمار پابندیوں اور مشکلات سے محفوظ رہے۔ ہم نے سو جوتے کھائے اور سو پیاز بھی۔
روزانہ سہ پہر کو ملتان میں چھ نمبر چونگی سے تھوڑا پہلے واقع ایک بڑے گروسری سٹور اور چھ نمبر چونگی سے تھوڑا آگے واقع ایک سپر سٹور کے سامنے گاڑیوں کا اتنا رش ہوتا ہے کہ ٹریفک جام ہو جاتی ہے۔ روزانہ یوں لگتا ہے کہ شاید کوئی ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے لیکن ٹریفک جام ان سٹورز میں جانے والے خریداروں کی گاڑیوں کی پارکنگ کے باعث ہوتا ہے۔ سٹور کے اندر بھی ایسی صورتحال ہوتی ہے کہ اسے اگر کسی ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو یہ پنجابی کا لفظ گھڑمس ہے۔ اب یہ گھڑمس کیا ہوتا ہے؟ اسے لکھ کر سمجھانا مشکل ہے۔ آپ کو اس کا مطلب سمجھنے کیلئے اس سٹور میں آنا پڑے گا۔ بظاہر بیس پچیس فیصد دکانیں کھلی تھیں لیکن اگر شٹر کے پیچھے سے جھانک کر دیکھتے تو ستر فیصد دکانیں کھلی تھیں۔ یہ بیس اور ستر کے درمیان والے پچاس فیصد ان دکانوں کے تھے جو آدھا شٹر کھول کر کاروبار کر رہی تھیں۔ گزشتہ سے پیوستہ روز ملک احسان الرحمان نے اسی طرح نیم وا شٹر والی دکان سے سوفٹی چپل خریدی۔ ملک صاحب نے احوال بتاتے ہوئے سارا نقشہ کھینچا کہ کس طرح وہ دکان کے سامنے پہنچے اور کس طرح باہر سٹول پر بیٹھے ہوئے دکاندار کے اسسٹنٹ نے انہیں اشارے سے پاس بلایا اور دریافت کیا کہ انہیں کیا درکار ہے۔ پھر ان کی فرمائش سن کر اس اسسٹنٹ نے انگلی سے شٹر کو کھٹکھٹایا اور آدھا شٹر اوپر اٹھا کر ملک صاحب کو دکان کے اندر دھکیل دیا۔ اندر ساری لائٹیں روشن تھیں اور تین چار انہی کی طرح کے ضرورتمند گاہک جوتے پسند کرنے میں مصروف تھے۔ بقول ملک صاحب ان کی ضرورت بڑی واضح تھی۔ انہوں نے دو منٹ میں سوفٹی پسند کی اور اندر سے شٹر کو انگلی سے بجایا۔ باہر موجود اسی اسسٹنٹ نے شٹر آدھا اٹھایا، ملک صاحب کُبے ہو کر باہر نکلے اور گاڑی میں بیٹھ کر گھر روانہ ہوگئے۔ سارے شہر میں اسی طرح کام ہورہا تھا۔ جونہی پولیس یا کسی سرکاری ادارے کی کسی چھاپہ مار ٹیم کا شبہ پڑے سب شٹر بندکر کے ادھر اُدھر ہوجاتے۔ شجاعباد سے ایک ایم پی اے بتا رہا تھا کہ وہ ملتان سے شجاعباد جاتے ہوئے بازار میں سے گزرا تو لاک ڈان تو کجا اس کا شائبہ بھی نظر نہیں پڑ رہا تھا؛ تاہم تھوڑی دیربعد وہ واپس اسی راستے سے گزرا تو سارا بازار سنسان تھا۔ پتا چلا کہ چند منٹ پیشتر رینجرزوالوں کی گاڑیاں گزری تھیں۔ یہ ساری بند دکانیں اسی کا نتیجہ ہیں۔کل سے لاک ڈاؤن نامی منافقت سرکاری طور پر تقریباً ختم ہی ہوئی اور سب احتیاطی ہدایات بھی اپنے انجام کو پہنچیں۔ رمضان کے سبب سب سے براحال سموسوں اور پکوڑوں والی دکانوں پر ہے۔ بندے پر بندہ چڑھا ہوتا ہے۔ میں یہ صرف محاورہ استعمال نہیں کر رہا بلکہ صورتحال کی عین وہی منظرکشی کر رہا ہوں جو وہاں در پیش ہے۔ کم ہی سہی، لیکن بہرحال اگر اب بھی کسی جگہ سماجی فاصلے پر عمل ہو رہا ہے تو وہ مسجدیں ہیں۔ دو چار جگہوں پر ذاتی طور پر دیکھنے کا اتفاق ہواکہ نمازی ایک دوسرے سے تین تین فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہیں لیکن کسی ایک بھی گروسری سٹور پر، کسی دکان پر، کسی دودھ دہی والے کے پاس، کسی سبزی فروش کے ہاں یا کسی امدادی رقم کے تقسیم کرنے والے مرکز پر لوگوں کو سماجی فاصلے کا دھیان رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ چار روز قبل نادرا کے دفاتر کھلے تو وہاں ہونے والی بے احتیاطی نے دیگر سب بے احتیاطیوں کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ ابھی صرف دو دن گزرے ہیں اور سب احتیاطوں کا دھڑن تختہ ہو گیا ہے۔ دو تین دن انتظار کریں۔ معاشی بدحالی اور لوگوں کی تنگی کے سبب لاک ڈائون مزید نرم کر دیا گیا ہے۔ دھکم پیل، مار دھاڑ، بدنظمی اور بے احتیاطی ہمارا قومی وتیرہ ہے۔ کیا پڑھے لکھے کیا ان پڑھ‘ کیا امیر کیا غریب۔ وزیراعلیٰ نے قرنطینہ ہوٹلوں میں مہنگے کھانوں پر تو فوری نوٹس لے لیا ہے، لیکن ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کے ملتان ایئرپورٹ سے دوستوں کے ہمراہ رفوچکر ہو جانے پر مچنے والے شوروغل پر کانوں میں کڑوا تیل ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں؛ تاہم ان سارے برے حالات میں ایک بات بڑی دلچسپ ہے کہ عوام اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔ عوام 8171 پر میسج کرکے حکومت سے امداد مانگ رہے ہیں اور حکومت 6677 پر عوام سے چندہ مانگ رہی ہے۔ حساب برابر ہے، کسی کا کسی پر کوئی احسان نہیں۔
 
Columnist
@intelligent086
ہم لوگوں سے نظم و ضبط کی امید😢 جیسے لکھی ہے آ ہی جانی ہے یہ مقولہ ہوتاہے
 

@intelligent086
ہم لوگوں سے نظم و ضبط کی امید😢 جیسے لکھی ہے آ ہی جانی ہے یہ مقولہ ہوتاہے

پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
Back
Top