Asad Rehman
Super Star Pakistani
16
- Messages
- 13,866
- Reaction score
- 33,100
- Points
- 1,451
ایسی الجھن ہو کبھی ایسی بھی رسوائی ہو
دل کے ہر زخم میں دریاؤں کی گہرائی ہو
عشق میں ایسے کسی کی بھی نہ رسوائی ہو
ہر قدم پاؤں میں زنجیر نظر آئی ہو
اس طرح یاد تری دل میں چلی آئی ہو
جس طرح کوئی کلی شاخ پہ مسکائی ہو
یوں گزرتے ہیں ترے ہجر میں دن رات مرے
جان پہ جیسے کسی شخص کے بن آئی ہو
دید سے پیاس بجھے چشم تمنا کی کبھی
حسن زیبا سے دل زار کی زیبائی ہو
تو قریب آیا تو ایسا مجھے محسوس ہوا
تیری خوشبو مری سانسوں میں سمٹ آئی ہو
ایسے بوجھل ہیں ترے بعد محبت کے قدم
جیسے لڑکی کسی دیہات کی گھبرائی ہو
ایک عرصہ ہوا منظر نہیں دیکھا کوئی
حسن زیبا سے مری آنکھ میں رعنائی ہو
مل بھی سکتا ہے ہمیں منزل ہستی کا سراغ
وقت نے پاؤں میں زنجیر نہ پہنائی ہو
اس طرح دیکھتا ہے مجھ کو وہ اک شخص یہاں
جس طرح ایک زمانے کی شناسائی ہو
راستے ایسے چمک اٹھتے ہیں رفتہ رفتہ
منتظر جیسے نظر راہ میں پھیلائی ہو
کاش ایسا بھی کوئی لمحہ میسر آ جائے
عشق کی بات بنے غم کی پذیرائی ہو
ایسے سینے میں پریشان ہے دل کا ہونا
ہر طرف دھول ہو ہر اور میں تنہائی ہو
دل بھی جلتا ہو جدائی میں شرارے کی طرح
گیلی لکڑی کی طرح جان بھی سلگائی ہو
گلشن زیست میں رقصاں ہو بہاروں کا سماں
تیرے آنچل سے ہر اک شاخ ہی رنگوائی ہو
حسن کو عشق کے آ جائیں جو آداب کبھی
آنکھ شیدائی نہ ہو دل نہ تمنائی ہو
عرصۂ زیست میں ایسا نہ کوئی لمحہ ملا
کسی ساعت نے کلی پیار کی مہکائی ہو
دائرے ایسے بناتی ہے یہاں قوس قزح
ہو بہ ہو جیسے کسی شوخ کی انگڑائی ہو
زندگی ایسے کٹی طعنہ و دشنام کے ساتھ
میرا ہونا بھی مرے غم کا شناسائی ہو
چین آتا ہے تمنا کو نہ ارماں کو سکوں
جب محبت کی کلی خوف سے مرجھائی ہو
بیچ کے خود کو بھی خوشیاں نہ خریدی جائیں
تیری دنیا میں نہ ایسی کبھی مہنگائی ہو
مجھ کو گل رنگ بہاروں سے یہی لگتا ہے
جیسے پروا تری خوشبو کو لیے آئی ہو
دیکھ کر رنگ بہاروں کے مجھے لگتا ہے
جیسے چنری کسی دوشیزہ نے پھیلائی ہو
پھول کی طرح سبھی داغ مہکنے لگ جائیں
کاش ایسا بھی کہیں طرز مسیحائی ہو
کیسا منظر ہو کہ سر پھوڑتے دیوانوں کے
سنگ ہو ہاتھ میں اور سامنے ہرجائی ہو
ہے مزاج اپنا الگ اپنی طبیعت ہے جدا
کیسے اس دور کے لوگوں سے شناسائی ہو
وہ سخن ور جو سخن ور ہیں حقیقی صاحب
ایسے لوگوں کا کبھی جشن پذیرائی ہو
زخم اس شوخ نے اس بار لگایا وہ نبیلؔ
جیسے بپھرے ہوئے دریاؤں کی گہرائی ہو
چائے کا کپ ہو نبیلؔ اور کسی کی یادیں
رات کا پچھلا پہر عالم تنہائی ہو
ایسی حالت میں نظر آیا ہے وہ آج نبیلؔ
جیسے شعروں میں کوئی قافیہ پیمائی ہو
نبیل احمد نبیل
@Recently Active Users
دل کے ہر زخم میں دریاؤں کی گہرائی ہو
عشق میں ایسے کسی کی بھی نہ رسوائی ہو
ہر قدم پاؤں میں زنجیر نظر آئی ہو
اس طرح یاد تری دل میں چلی آئی ہو
جس طرح کوئی کلی شاخ پہ مسکائی ہو
یوں گزرتے ہیں ترے ہجر میں دن رات مرے
جان پہ جیسے کسی شخص کے بن آئی ہو
دید سے پیاس بجھے چشم تمنا کی کبھی
حسن زیبا سے دل زار کی زیبائی ہو
تو قریب آیا تو ایسا مجھے محسوس ہوا
تیری خوشبو مری سانسوں میں سمٹ آئی ہو
ایسے بوجھل ہیں ترے بعد محبت کے قدم
جیسے لڑکی کسی دیہات کی گھبرائی ہو
ایک عرصہ ہوا منظر نہیں دیکھا کوئی
حسن زیبا سے مری آنکھ میں رعنائی ہو
مل بھی سکتا ہے ہمیں منزل ہستی کا سراغ
وقت نے پاؤں میں زنجیر نہ پہنائی ہو
اس طرح دیکھتا ہے مجھ کو وہ اک شخص یہاں
جس طرح ایک زمانے کی شناسائی ہو
راستے ایسے چمک اٹھتے ہیں رفتہ رفتہ
منتظر جیسے نظر راہ میں پھیلائی ہو
کاش ایسا بھی کوئی لمحہ میسر آ جائے
عشق کی بات بنے غم کی پذیرائی ہو
ایسے سینے میں پریشان ہے دل کا ہونا
ہر طرف دھول ہو ہر اور میں تنہائی ہو
دل بھی جلتا ہو جدائی میں شرارے کی طرح
گیلی لکڑی کی طرح جان بھی سلگائی ہو
گلشن زیست میں رقصاں ہو بہاروں کا سماں
تیرے آنچل سے ہر اک شاخ ہی رنگوائی ہو
حسن کو عشق کے آ جائیں جو آداب کبھی
آنکھ شیدائی نہ ہو دل نہ تمنائی ہو
عرصۂ زیست میں ایسا نہ کوئی لمحہ ملا
کسی ساعت نے کلی پیار کی مہکائی ہو
دائرے ایسے بناتی ہے یہاں قوس قزح
ہو بہ ہو جیسے کسی شوخ کی انگڑائی ہو
زندگی ایسے کٹی طعنہ و دشنام کے ساتھ
میرا ہونا بھی مرے غم کا شناسائی ہو
چین آتا ہے تمنا کو نہ ارماں کو سکوں
جب محبت کی کلی خوف سے مرجھائی ہو
بیچ کے خود کو بھی خوشیاں نہ خریدی جائیں
تیری دنیا میں نہ ایسی کبھی مہنگائی ہو
مجھ کو گل رنگ بہاروں سے یہی لگتا ہے
جیسے پروا تری خوشبو کو لیے آئی ہو
دیکھ کر رنگ بہاروں کے مجھے لگتا ہے
جیسے چنری کسی دوشیزہ نے پھیلائی ہو
پھول کی طرح سبھی داغ مہکنے لگ جائیں
کاش ایسا بھی کہیں طرز مسیحائی ہو
کیسا منظر ہو کہ سر پھوڑتے دیوانوں کے
سنگ ہو ہاتھ میں اور سامنے ہرجائی ہو
ہے مزاج اپنا الگ اپنی طبیعت ہے جدا
کیسے اس دور کے لوگوں سے شناسائی ہو
وہ سخن ور جو سخن ور ہیں حقیقی صاحب
ایسے لوگوں کا کبھی جشن پذیرائی ہو
زخم اس شوخ نے اس بار لگایا وہ نبیلؔ
جیسے بپھرے ہوئے دریاؤں کی گہرائی ہو
چائے کا کپ ہو نبیلؔ اور کسی کی یادیں
رات کا پچھلا پہر عالم تنہائی ہو
ایسی حالت میں نظر آیا ہے وہ آج نبیلؔ
جیسے شعروں میں کوئی قافیہ پیمائی ہو
نبیل احمد نبیل
@Recently Active Users