Chaye Ka dosra Cup Aur Moodi By Abdullah Babar Awan

چائے کا دوسرا کپ اور مودی ۔۔۔۔ عبداللہ بابر اعوان

یکم جون 2020ء کے دن ایشین ہٹلر نے با لآ خر چائے کا دوسرا کپ پی کر دکھادیا۔پہلا کپ پینے کیلئے اسے دو منٹ میں تین فائٹر جیٹ قربان کرنا پڑے۔''چائے والا‘‘ کے ہوائی فوجیوں کو اولین کپ فنٹاسٹک لگا تھا۔دوسرا کپ سوپر فنٹاسٹک ثابت ہوا۔یہ اتفاق نہیں بلکہ آرایس ایس کے لائف ممبر نریندر مودی نے جان بوجھ کر جموں و کشمیر کی حسین وادیوں میں چائے پینے کا فیصلہ کیا تھا۔پہلی مرتبہ خطۂ آزاد جموں و کشمیر کے علاقے میں جبکہ دوسری بار لداخ کے درہ گلوان میں۔پاک چین دوستی کی طرح پاک چین چائے کیسی تھی ‘یہ دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر تبصروں کا بہت بڑا موضوع بن گیا ہے۔آئیے ان میں سے صرف دو عدد تبصرے ہم بھی دیکھ لیتے ہیں۔
پہلا تبصرہ یشونت سنہا نے بھارت کے اندر سے کیا۔یشونت نے سوشل نیٹ و رک پر اپنے ٹوئٹر سے مودی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا‘ تبت میں عوامی جمہوریہ چین کی فوجی تنصیبات پر سر جیکل ایئر سٹرائیک کیسی رہے گی؟ بھارت کے 20فوجی جوانوں اور ایک ان کے کمانڈنگ آفیسر کی موت کا بدلہ لینے کیلئے؟کیونکہ ہمارا موٹو ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ''گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘یا پھر یوں ہے کہ ہماری ساری کی ساری بہادری صرف پاکستان کیلئے ہی مخصوص ہو کر رہ گئی ہے؟
یکم جون 2020ء کو اسی صفحے پر شائع ہونے والے وکالت نامہ کا عنوان تھا ـ:Indo-China Conflict‘جس میں بھارت کی توسیع پسندی کی وجہ سے ایشیا کے امن کو لاحق خطرات کی پوری تفصیل بتائی گئی تھی۔آج یہ خطرات صرف 18دنوں کے مختصر عرصے میں خونریز کومبیٹ میں تبدیل ہو چکے ہیں۔انڈین میڈیا کے ایک حصے میں بڑھکیں ماری جا رہی ہیں‘جبکہ دوسرے حصے میں بھارتی فوج نے سرکاری طور پرکنفرم کر دیا ہے کہ لداخ میں آدھی رات کے بعد‘ بھارتی فوجیوں نے نصف شب کے گیدڑوں کی طرح پیپلز آرمی آف چائنا پر مسلح حملہ کیا۔ بھارتی حملے کا مقصد چائنیز ٹروپس کو سرپرائز دینا بتایا گیا تھا۔ اس بھارتی حملے کی وہ تفصیلات جو بھارت کے اندر سے سامنے آئی ہیں ‘ان کی طرف جانے سے پہلے حملے کے پہلے دو نتائج جان لینا ضروری ہوگا۔
1۔بھارتی حملے کا سیاسی نتیجہ : درہ گلوان میں چین کی پیپلز آرمی کے ہاتھوں ذلت آمیز پٹائی کے فوراً بعد مودی نے امن کا راگ الاپنا شروع کردیاہے۔اس کے 6-7سالہ اقتدار میں لوگوں نے امن کی بھاشا کا نعرہ نریندر مودی کے مُنہ سے پہلی بار سنا۔ بھارت میں مودی اور اس کے جرنیلوں کے استعفوں کا مطالبہ زوروں پر ہے ۔ استعفوں کے مطالبے میں بھارتی فوج کے سابق جرنیل ‘اپوزیشن اوربہت سی دوسری آزاد آوازیں بھی شامل ہو چکی ہیں‘جس کی وجہ سے بھارتی وزیر اعظم مودی کو آر ایس ایس کی زبان بھول کر آل پارٹیز کانفرنس طلب کرنے کا شوشہ چھوڑنا پڑ گیا۔ بھارت کی وزارتِ عظمی سے استعفیٰ دینے کے مطالبے کے علاوہ مودی اور اس کے جرنیلوں کو دو مزید سوالوں کا بھی بڑے زور و شور سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ان میں سے پہلا سوال یہ ہے کہ لداخ میں بھارت کے زیر قبضہ کتنے علاقے پر عوامی جمہوریہ چین کی پیپلز آرمی نے بنکرز اور پکی اسٹیبلشمنٹ بنالی ہے؟ بھارت کے اندر سے سونیا گاندھی‘ راہول گاندھی اور دوسرے سیاسی لیڈر یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ مودی نے اپنی جنگی تاریخ کے اتنے بڑے جانی نقصان میں دوسری بار کیوں کراپنے انڈین آرمی کے جوانوں کوجھونک دیا؟ پہلی مرتبہ کارگل کی لڑائی میں پاکستان کے بہادر جوانوں کے ہاتھوں بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا‘جس کی کہانیاں آج بھی پورے بھارت میں بکھری ہوئی ہیں۔
2۔بھارتی حملے کا فوجی نتیجہ : بھارت کی مسلح افواج میں ڈسپلن اور خوراک کے ساتھ ساتھ مورال اور اخلاقیات کے شدید مسائل پائے جاتے ہیں۔بھارتی فوج کے حوالے سے ایک تازہ سٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سینئر افسران اونچے رینک کی آڑ میں جونیئر افسروں کی بیویوں کا جسمانی استحصال کرتے ہیں ۔اسلحے کی تربیت کا یہ عالم ہے کہ لوہے کے راڈوں پر کیل ویلڈ کر کے آر ایس ایس کی لیڈرشپ نے چین کے علاقے فتح کرنے کا منصوبہ بنالیا۔فیلڈ کے سپاہی بُرے کھانے اور خوراک نہ ملنے پر ویڈیو بنابنا کر سوشل میڈیا بھر رہے ہیں۔بد اخلاقی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے فوجیوں میں خود کشی کا رواج زور پکڑ چکا ہے۔ان حالات میں انڈین آرمی کا مورال مُنہ کے بَل زمین پر جا پڑا ہے۔ان حالات میں ہندوتوا کی تعصب والی سوچ پر مبنی مودی حکومت ا ور اس پر ٹاپ کے جرنیل مُنہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔بھارتی میڈیا‘ فوج اور حکومت دونوں پر پریشر ڈال رہا ہے کہ وہ اس عالمی بے عزتی کا بدلہ پاکستان اور نیپال کے خلاف جارحیت کر کے لے۔
زیادہ تفصیل میں نہ جائیں پھر بھی اتنا کہنا ضروری ہے کہ اگر بھارت نے کوئی فالس فلیگ یا سرجیکل سٹرائیک دہرانے کی کوشش کی تو اسے پاکستانی فوج کی طرف سے بہت شدید جواب دیا جائے گا۔عملی طور پر ایشیا کے پُرامن آسمانوں پر جنگ کے بادل گہرے سے گہرے ہوتے جارہے ہیں۔بھارت کی ہر جارحا نہ تیاری پاکستان کی ریاستی اور حکومتی مشینری کی گہری نظر کے نشانے پر ہے۔بھارت کی جانب سے ایسی جارحیت کی غلطی کے امکانات ایل او سی کی دوسرے طرف واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایک ہائی وولٹیج کانفلکٹ کا چانس بھارت کی جانب سے 95 فیصد موجود ہے‘جبکہ دوسری جانب بھارت کو زندگی کا سب سے بڑا سبق سکھانے کیلئے پاکستان کی تیاری 100فیصد سے زیادہ ہے۔
۔1947ء میں تقسیم ہند کے بعد بھارت نے مسلسل ثابت کیا ہے کہ وہ مکمل طور پر بدمعاش ریاست ہے اور بھارت کی فوج صحیح معنوں میں ایک روگ آرمی۔ اگر چہ بھارت نے دنیا کو گمراہ کرنے کیلئے عر صے تک سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا سیریل سَوپ جاری رکھا‘لیکن اب اس کی اصل قاتلانہ ذہنیت اور مودی کا چھوٹا پن یوں کھل کر سامنے آیا ہے؎
اُس نے قد کاٹھ نکالا ہے زمانے میں بہت
وہ مگر سوچ کا بونا ہے‘ یہی رونا ہے
اس وقت انڈین آرمی ایک ایسی فوج ہے جس کے خطے میں ہر بارڈر پر نہ صرف توسیع پسند خیالات ہیں‘بلکہ اُس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ یہ دنیا کی پہلی ایسی فوج ہے جس میں مذہبی تعصب کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے اور وہ ذات پات کے نظام سے بھی دو چار ہے؛چنانچہ انڈین آرمی میں ایسا پوٹینشل موجود ہے کہ وہ کبھی بھی مغرب کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔اس وقت بھارت کے اندر غیر جانب دار تجزیہ کار دو باتوں پر اتفاق ِرائے رکھتے ہیں۔پہلی یہ کہ مودی کا پیدا کیا ہوا مذہبی اشتعال اندرونی طور پر بھارت کیلئے سب سے بڑا اور شدید ترین خطرہ ہے ‘جبکہ دوسرے نمبر پر بھارت کی بد معاش فوج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کی سلامتی کو گارنٹی کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔
وزیر اعظم جناب عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے امن سے محبت کا ہر موقعے پرکُھل کر اظہار کیا‘جس کا تازہ ترین ثبوت COVID -19کے حوالے سے عمران خان صاحب کی طرف سے بھارت کو کی جانے والی انسان دوست امداد کی پیشکش ہے‘جس کے جواب میں اگلے روز عورتوں‘ بچوں اور بزرگوں سمیت چار نہتے پاکستانی شہریوں کو آر ایس ایس کے فوجیوں نے گولا باری کے ذریعے شہید کرکے دیا ہے۔بھارت کا غرور چین کی پیپلز آرمی نے توڑ کر رکھ دیا ہے۔عالمی خبروں میں اسے بلڈ آن دی بارڈر کہا جارہا ہے۔مودی کو خوش ہونا چاہیے کہ اس کی فوج نے اُس کے دور میں چائے کے دوسرے کپ کا بھی مزہ چکھ لیا۔
 
Columnist
Abdullah Babar Awan
Column date
Jun 20, 2020

Back
Top