Corona: Siasi Qayadat B Khatray Mein By Imran Yaqoob Khan Column

کورونا: سیاسی قیادت بھی خطرے میں؟ ۔۔۔۔۔۔ عمران یعقوب خان

کورونا وائرس کے خلاف جنگ بہت مشکل ہے اور اس جنگ میں فرنٹ لائن لیڈرز کی مشکلات سب سے زیادہ ہیں۔ اس کی مثال برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن کی ہے جو کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی بناتے اور اس پر عمل درآمد کراتے ہوئے اس موذی وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے ایک ویڈیو پیغام میں کورونا وائرس کا شکار ہونے کی تصدیق کی اور تنہائی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔
برطانوی وزیر اعظم نے کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے سے دو ہفتے پہلے ہی بہت سی ملاقاتیں منسوخ کر دی تھیں اور کئی ملاقاتیں ویڈیو لنک کے ذریعے کر رہے تھے۔ برطانوی کابینہ کی حالیہ میٹنگز بھی ویڈیو لنک پر ہوئیں۔ ملکہ برطانیہ کے ساتھ بالمشافہ ملاقات کی بجائے وزیر اعظم ان سے بھی فون پر رابطے رکھ رہے تھے۔ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ‘ جو دنیا بھر میں سب سے معروف خط و کتابت کا پتہ ہے، برطانوی وزیر اعظم کا سرکاری دفتر ہے اور اس سے ملحق گیارہ اور بارہ ڈاؤننگ سٹریٹ بھی وزیر اعظم کے زیر استعمال ہیں۔ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں سرکاری ملازموں اور سیاسی مشیروں کی ڈھائی سو ٹیمیں کام کرتی ہیں جنہیں کورونا کے خلاف اس جنگ کے دوران محدود کر دیا گیا تھا۔ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک وقت میں صرف ستر افراد موجود رہ سکتے تھے۔ وزیر اعظم کے دفتر کا عملہ سماجی فاصلے کے لیے طے شدہ حدود پر بھی عمل کر رہا تھا اور ایک دوسرے سے رابطے کے لیے بھی فون کال اور ویڈیو لنک کا استعمال کر رہا تھا۔
کورونا ٹیسٹ مثبت آنے سے پہلے برطانوی وزیر اعظم دن کا آغاز صبح سوا آٹھ بجے کرتے تھے۔ ان کی پہلی ملاقات برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر، چیف سائنٹیفک ایڈوائزر، وزیر صحت اور کورونا سے نمٹنے کے ذمہ دار دیگر وزرا کی ٹیم سے ہوتی تھی۔ سوا نو بجے برطانوی وزیر اعظم سیکرٹریز آف سٹیٹ، چیف میڈیکل آفیسر، چیف سائنٹیفک ایڈوائزر اور سیاسی مشیروں کے ساتھ اجلاس کرتے تھے۔ اس اجلاس میں حکومت کا روزانہ کا ایجنڈا طے ہوتا تھا۔ اس کے بعد وزیر اعظم کئی سیاسی مشیروں، ماہرین سے ملاقاتیں کرتے تھے اور شام پانچ بجے کی پریس کانفرنس میں برطانوی عوام کو حکومت کے اقدامات پر اعتماد میں لیتے تھے لیکن یہ پریس کانفرنس بھی ویڈیو لنک پر منتقل ہو چکی تھی۔
وزیر اعظم بورس جانسن نے تنہائی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں ویڈیو لنک اور ٹیکنالوجی کے ذریعے وہ کام کرتے رہیں اور قوم کی رہنمائی کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے۔ وزیر اعظم کے تنہائی اختیار کرنے کے کچھ ہی دیر بعد وزیر صحت نے بھی تنہائی اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے ایک دن بعد برطانیہ کے چیف میڈیکل آفیسر بھی کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہونے پر تنہائی میں چلے گئے۔ اس طرح اس وبا سے لڑنے کے تمام اہم ذمہ دار اس کا شکار ہو کر ایک ایک کمرے تک محدود ہو چکے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم، چیف میڈیکل آفیسر اور وزیر صحت کورونا کے شبہ یا تصدیق پر تنہائی اختیار کر چکے ہیں لیکن ان کی ٹیم اور ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے عملے کے ارکان بھی اس کورونا وائرس کی زد میں آنے کے خدشات کا شکار ہو گئے ہیں۔ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کا مرکزی دروازہ دیکھنے سے لگتا ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا گھر ہے لیکن اندر سے یہ گھر بہت وسیع ہے۔ اس کے باوجود یہاں عملہ اس قدر زیادہ ہے کہ اس کے لیے چھوٹے چھوٹے کیبن اور تنگ راہداریاں ہیں اس لیے کوشش کے باوجود سماجی فاصلے کے اصول پر سو فیصد عمل ممکن نہیں۔ وزیر اعظم بورس جانسن گیارہ ڈاؤننگ سٹریٹ کے ایک بالائی کمرے میں تنہائی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دس اور گیارہ ڈاؤننگ سٹریٹ کو ملانے والا دروازہ بند کیا جا چکا ہے۔ ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے ترجمان اس دروازے کی بندش کی تصدیق کر چکے ہیں۔ وزیر اعظم کو جو کچھ بھی درکار ہو گا، سرکاری فائلیں، کھانے پینے کی اشیا، ایک دروازے کے باہر ان کے لیے رکھ دی جائیں گی اور وزیر اعظم اس دروازے سے باہر آ کر یہ اشیا اٹھا لیں گے۔ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے وزیر اعظم کے دفتر کی کوشش ہے کہ یہ عمل بھی کم سے کم ہو تا کہ ان کے ساتھ رابطے تقریباً ختم ہو جائیں اور عملہ اس وائرس سے بچا رہے۔
وزیر اعظم بورس جانسن، ان کے وزیر صحت اور چیف میڈیکل آفیسر کی عدم موجودگی میں یہ جنگ لڑنا برطانیہ کے لئے بہت مشکل ہو جائے گی۔ وزیر اعظم تنہائی اختیار کر کے دوسروں کو بچانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ملک کی قیادت کرنے کی کوشش بھی جاری رکھے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے کورونا کا شکار ہونے کے بعد دوسرے ملکوں میں بھی قیادت کے بارے میں فکر مندی پیدا ہو چکی ہے۔ اس مشکل وقت میں عوام کی منتخب قیادت کے لیے زیادہ امتحان ہے کہ وہ عوام کی رہنمائی بھی کرتے رہیں اور خود کو اور عوام کو محفوظ بنانے کے اقدامات بھی کر سکیں۔
وزیر اعظم جناب عمران خان کے بارے میں ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کی خبر کو لے کر پاکستان میں بھی افواہ پھیلی کہ ان کا ٹیسٹ بھی مثبت آ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے ان افواہوں کا بر وقت نوٹس لے کر تردید کی اور کہ واضح کیا کہ وزیر اعظم عمران خان بالکل خیریت سے ہیں اور ان کے متعلق گردش کرنے والی خبر نما افواہوں میں کوئی صداقت نہیں۔ سینیٹر فیصل جاوید کی تردید سے قوم کو حوصلہ ہوا لیکن وزیر اعظم ہاؤس میں میڈیا پرسنز اور دیگر مشاورتی اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے، اور وزراء کی پریس کانفرنسیں بھی جاری ہیں‘ جن میں وہ عوام کو ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کے مشورے دیتے ہیں لیکن ان مشوروں پر خود عمل نہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مساجد کی بندش کی مخالفت کرتے ہوئے مفتی منیب الرحمن صاحب نے بھی یہ موقف اپنایا کہ حکومتی اجلاسوں میں پچاس پچاس افراد شریک ہو رہے ہیں اور مساجد میں نمازیوں کی تعداد پانچ تک محدود کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ مفتی صاحب کا اشارہ ایوان صدر میں ہونے والے علما کے اجلاس کی طرف بھی تھا‘ جہاں انہیں بھی مدعو کیا گیا تھا۔ حکومت کی طرف سے عوام کے مذہبی جذبات کے احترام کا اظہار لازم ہے اور مذہبی معاملات پر علما کی مشاورت سے بہترین لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے۔ مفتی منیب الرحمن حکومت کے اقدامات یا احتیاطی تدابیر کے مخالف نہیں لیکن ان کے استدلال کا جواب استدلال سے ہی دیا جانا چاہئے۔ علما اور دینی حلقوں نے ہر مشکل گھڑی میں قوم کی آگے بڑھ کر رہنمائی کی ہے اور ہر مشکل میں وہ فرنٹ لائن پر رہے ہیں، اس سے پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء کی قربانیاں قوم کو اب بھی یاد ہیں‘ اس لیے کوئی بھی علماء کے کردار کی نفی نہیں کر سکتا۔
ہماری دعا ہے کہ رب العالمین ساری دنیا کو اس آفت سے نجات دلائے اور انسانیت کو اس سے محفوظ رکھے۔ برطانوی وزیر اعظم سمیت کورونا سے لڑائی میں فرنٹ لائن قیادت گھروں میں بیٹھنے کو مجبور ہو چکی ہے۔ یہ صورتحال غماز ہے کہ ہماری قیادت زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لے۔ ان حالات میں بہتر یہی ہو گا کہ وزیر اعظم ہاؤس، ایوان صدر، وزرائے اعلیٰ کے دفاتر اور گورنر ہاؤسز میں بھی احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل ہو تاکہ اس مشکل گھڑی میں قومی سیاسی قیادت محفوظ رہ کر ملک و قوم کی حفاظت اور بھلائی کے منصوبے بنا سکے اور ان پر عمل بھی کرا سکے۔ یہ سب پر واضح ہے کہ قیادت صحت مند رہے گی تو ہی عوام کی رہنمائی کر سکے گی اور قوم کو کورونا کی وبا سے بچانے کے لیے سرگرمی کے ساتھ ضروری تدابیر کر سکے گی۔ اس ضرورت بلکہ ناگزیریت کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔​
 

Back
Top