Virus Coronavirus Ke Khilaf Kamyabi Ki Missalen By Rizwan Ata

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
کورونا وائرس کے خلاف کامیابی کی مثالیں ... تحریر : رضوان عطا

corona.jpg

کورونا وائرس کی وباء پر قابو پانے والا پہلا ملک وہی ہے جس سے اس کا آغاز ہوا تھا۔ پہلی امید افزا اطلاع 19 مارچ کو آئی جب چین نے اعلان کیا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا کا کوئی ''مقامی‘‘ کیس سامنے نہیں آیا۔ 23 مارچ تک پورے چین میں سوائے ایک دو کے کورونا وائرس کے تمام کیسز بیرون ملک سے آنے والوں کے تھے۔ گزشتہ چند دنوں کے اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ چین کے اندر لوگوں کو ایک دوسرے سے کورونا وائرس کی منتقلی کا عمل تقریباً رک گیا ہے۔
کامیابی کی دوسری مثال جنوبی کوریا کی ہے، جہاں کورونا کی وباء پھیلی لیکن اب اس کی شدت بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے، اور امید ہے کہ جلد جنوبی کوریا اس وباء پر قابو پا لے گا۔ چین اور جنوبی کوریا کی حکمت عملی میں جہاں بہت سی مماثلت ہے، وہیں کچھ اختلاف بھی ہے۔
کسی ایک ملک کی حکمت عملی کو ہو بہو دوسرے پر لاگو نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان کی ترقی اور خواندگی کی شرح، طرزِ حکمرانی، صحت کے شعبے کی حالت، معیشت اور ثقافت وغیرہ میں فرق ہوتا ہے، لیکن اس سے سیکھا ضرور جا سکتا ہے۔
چین اور جنوبی کوریا کی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی ترجیحات، پالیسی اور نفاذ کتنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جنوبی کوریا نے یہ کامیابی ملک بھر میں لاک ڈاؤن جیسا سخت قدم اٹھائے بغیر حاصل کی۔ 24 مارچ کوجنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے 74 کیس رپورٹ ہوئے لیکن مجموعی طور پر دو ہفتوں سے نئی انفیکشنز کی تعداد روبہ زوال ہے۔ 29 فروری کو، ایک ہی دن، 909 انفیکشنز رپورٹ ہوئی تھیں۔ دوسری طرف جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کے مریضوں کے مرنے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہیجبکہ اٹلی میں یہ شرح کئی گنا زیادہ ہے۔
۔16 مارچ کو عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس آدنوم نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ''ٹیسٹ کریں، ٹیسٹ کریں، ٹیسٹ کریں۔‘‘ ان کے مطابق ''آپ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر اس آگ سے نہیں نپٹ سکتے۔‘‘ جنوبی کوریا کی حکمت عملی اس بیان کا عکس معلوم ہوتی ہے۔
اٹلی کی طرح کوریا میں پہلے کورونا وائرس کے چند کیس رپورٹ ہوئے اور پھر اچانک ان میں ڈرامائی اضافہ ہو گیا۔ جنوبی کوریا میں 18 فروری تک 30 مریضوں کی تصدیق ہوئی تھی۔ اسی تاریخ کو ''مریضہ31‘‘ کا پتا چلا۔ اس عورت کا تعلق ایسے مذہبی فرقے سے تھا جس کی ایک بڑی تقریب حال ہی میں ہوئی تھی۔ کوریا کے ''سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن‘‘ نے اعلان کیا کہ تقریب میں شرکت کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد کو نزلے سے ملتی جلتی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ اگلے چند دنوں میں سیکڑوں افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے۔ اور پھر چین سے باہر کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک میں بننے میں اسے زیادہ دیر نہیں لگی۔
غالباً دنیا کے کسی ملک میں کورونا وائرس کے اتنے ٹیسٹ نہیں ہوئے جتنے جنوبی کوریا میں ہوئے۔ جنوبی کوریا میں روزانہ 12 سے 15 ہزار ٹیسٹ ہوئے۔ وسیع پیمانے پر ٹیسٹ کرنے کے ساتھ جنوبی کوریا نے مرض اور اس کے پھیلاؤ کے بارے میں معلومات کو عام کیا اور انہیں شفاف رکھا۔ اس موذی وائرس سے لڑنے کے لیے ضروری سامان کا تیزی سے بندوبست کیا گیا۔ قرنطینہ کی سہولیات کی تیاری بھی جلد ہوئی۔ جنوری میں چین نے جب کووڈ 19- وائرس کی ساخت کے بارے میں تفصیلات بتائیں تو جنوبی کوریا کی فرموں نے حکومت کے ساتھ مل کر ٹیسٹ کٹس کی تیاری شروع کر دیں۔ تب جنوبی کوریا میں یہ مرض وبائی شکل میں نہیں تھا۔ جب حالات خراب ہوئے تو ملک کے پاس روزانہ 10 ہزار افراد کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔
کوریا میں موبائل فون کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ موبائل فون کے ذریعے ان علاقوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کر دیا جاتا جہاں وائرس پھیلنے کا پتا چلتا، لہٰذا لوگ وہاں کا رخ کرنے سے گریز کرتے اور محتاط رہتے۔ کوریا کی حکومت نے ''جی پی ایس‘‘ سے منسلک ایک ایپ تیار کی، جس کی مدد سے قرنطینہ کیے جانے والے افراد پر نظر رکھی جاتی، اگر کوئی باہر نکلتا تو خطرے کی گھنٹی بجا دی جاتی۔ملک بھر میں ٹیسٹ کرنے کے سیکڑوں مراکز قائم کیے گئے۔ ان میں روزانہ 20 ہزار کے قریب ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کوریا میں بیشتر ٹیسٹ بلامعاوضہ ہوئے۔
ٹیسٹ کی عدم دستیابی یا تاخیر میں بالخصوص قرنطینہ کا پراناطریقہ اہم ہو جاتا ہے۔ کورونا وائرس سے ملتی جلتی وبائیں پہلے بھی پھیل چکی ہیں، ان میں ایک ''ہسپانوی نزلہ‘‘ یا ''سپینش فلو‘‘ تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد نزلے کی یہ قسم وبائی صورت اختیار کر گئی جس نے کروڑوں افراد کی جان لے لی۔ بعض اندازوں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا آغاز محاذ جنگ سے ہوا۔ جنگ کے دوران صفائی کے انتظامات ناکافی ہوتے تھے بالخصوص خندقوں میں۔ عالمی جنگ نومبر 1918ء میں ختم ہوئی اور فوجی گھروں کو لوٹ آئے، وائرس بھی ان کے ساتھ ہو لیا اور عام آبادی میں پھیل گیا۔ اس نے بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو مار ڈالا۔ اس کے بعد فلو کی کم از کم تین مہلک وبائیں پھیلیں لیکن کسی سے اتنی ہلاکتیں نہیں ہوئیں، جتنی ''ہسپانوی فلو‘‘ سے ہوئیں۔
کورونا وائرس اور ہسپانوی نزلے میں ایک قدر مشترک ہے۔ کورونا وائرس سے ایک قسم کا نمونیا ہو سکتا ہے۔ ہسپانوی نزلے میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا۔ جن افراد کا نظام مدافعت کمزور ہوتا ہے، ان میں نمونیا کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بوڑھے افراد کو یہ زیادہ مار رہا ہے کیونکہ ان میں قوت مدافعت کم ہوتی ہے۔ ہسپانوی نزلے کے پھیلنے کی رفتار کم تھی کیونکہ ان دنوں ہوائی جہازوں سے سفر برائے نام تھا۔ بیشتر طویل سفر ریل گاڑیوں اور بسوں پر ہوا کرتے تھے۔
ان دنوں میں بعض آبادیوں نے باقی دنیا سے رابطہ منقطع کر کے اس وباء کا کامیابی سے مقابلہ کیا، انہوں نے اجتماعی قرنطینہ سے کام لیا۔ اس کے علاوہ عوامی اجتماعات اور اکٹھ پر پابندی لگا دی۔
ہسپانوی نزلہ اس وقت پھیلا جب صحت کی سہولیات کے وسائل جنگ پر خرچ ہو گئے تھے اور صفائی کا انتظام بھی خاصا برا تھا۔ زیادہ ہلاکتوں کا ایک سبب یہ بھی ہے۔
عہدِ وسطیٰ میں طاعون کی وباء کے دوران بھی بعض آبادیوں نے دوسروں سے رابطے کو منقطع کر کے اس کی آمد کو روکا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب طب کی ٹیکنالوجی خاصی پسماندہ تھی اور آج کی طرح ٹیسٹ ممکن نہیں تھے۔
ٹیسٹ بہت مؤثر ہتھیار ہیں، ان کی مدد سے صورت حال کی بہتر تصویرکشی ہوتی ہے۔ مثلاً کوریا میں ہونے والے ٹیسٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ وائرس ایسے بہت سے لوگوں میں ہے جن میں علامات ظاہر نہیں ہو رہیں، اس کے علاوہ یہ نوجوانوں میں بھی اس سے زیادہ ہے جتنا خیال کیا جا رہا تھا۔ 14 مارچ کو جنوبی کوریا سے اطلاع آئی کہ 30 فیصد کے قریب مصدقہ کورونا وائرس کے مریضوں کی عمریں 20 سے 29 برس ہیں۔
جنوبی کوریا میں چہرے کے ماسک حکومت نے راشن کی بنیاد پر ہر ہفتے بانٹے، بہت سے لوگوں کو گھروں سے کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس طرح کاروبار کافی حد تک چلتا رہا۔ تاہم یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ متاثر نہیں ہوا۔ حال ہی میںحکومت نے 80 ارب ڈالر کے معاشی ریسکیو پیکیج کا اعلان کیا ہے۔
جنوبی کوریا میں اسی روز کورونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا جس روز ریاست ہائے متحدہ امریکا میں آیا لیکن کوریا اس لڑائی میں ''سپرپاور‘‘ کو کہیں پیچھے چھوڑ گیا۔ جنوبی کوریا میں ٹیسٹنگ کٹ کے لیے حکومت نجی شعبے کی پیداواری صلاحیت کو بروئے کار لائی۔فٹافٹ ٹیسٹ کٹس ہوئیں۔ اس امر کو یقینی بنانے میں زیادہ وقت صرف نہیں کیا گیا کہ ان کی کارکردگی بہت اچھی ہو۔ جنوبی کوریا کی حکومت نے جنوری میں کمپنیوں کو کہہ دیا تھا کہ فوراً کٹیں تیار کریں۔ ایک کمپنی کی کٹ کو چار فروری کو استعمال کی اجازت دے دی گئی۔ اگرچہ ایسی کٹوں کو اکثر ایک سال تک کلینکل ٹیسٹوں سے گزارا جاتا ہے لیکن ایسا ایک ہفتے میں کر لیا گیا۔
تیز رفتاری کی ایک وجہ ماضی میں کوریا کا ''ایم ای آر ایس‘‘ کا تجربہ ہے۔ 2015ء میں اس کے خلاف ردِعمل پر حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ''ایم ای آر ایس‘‘ کے ملک میں 186 کیسز ہوئے اور 38 اموات ہوئیں۔ یہ وائرس بھی نئے کورونا وائرس جیسا تھا لیکن کہیں زیادہ خطرناک۔ پس جنوبی کوریا نے بنیادی طور پر زیادہ ٹیسٹ کرنے اور ہر مریض کو مؤثر قرنطینہ میں رکھنے کی حکمت عملی اپنائی۔
عالمی ادارہ صحت اور چین کے ایک مشترکہ مشن نے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس مشن میں 25 ممالک کے ماہرین شامل تھے جنہوں نے چین کا تفصیلی دورہ کیا اور رپورٹ جاری کی۔ اس کا مقصد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی تیاری اور اقدام کا تفصیلی کا جائرہ لینا تھا۔ اس رپورٹ سے ہمیں چین کے اندر ہونے والے کارروائی کا پتا چلتا ہے۔
گزشتہ برس دسمبر کے اواخر میں چین کے شہر ووہان میں نئے کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ ڈاکٹر اور طب سے وابستہ افراد پہلے ہی خبردار کر رہے تھے کہ غیرمعمولی علامات کے مریض ووہان کی ہسپتالوں میں آ رہے ہیں۔ حکومت نے نئی بیماری کو تسلیم کرنے میں قدرے تاخیر کی۔ اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی لیکن جلد نظام حرکت میں آ گیا۔
اس سلسلے میں ابلاغ کو مؤثر بنایا گیا۔ چین کا نیشنل رپورٹنگ سسٹم روزانہ کی بنیاد پر مصدقہ کیسز، اموات، مشتبہ کیسز اور ان کے روابط کی رپورٹ جاری کرتا تھا۔ چین کا ہر صوبہ اپنی رپورٹ روزانہ پیش کرتا۔ چین کے نیشنل انفیکشیس ڈیزیز انفارمیشن سسٹم (آئی ڈی آئی ایس) کو ہر کیس کی رپورٹ فوری دی جاتی، جب بھی کوئی ڈاکٹر کسی مریض کی تشخیص کرتا اسے اسی وقت ڈیٹا میں شامل کر لیا جاتا اور ریکارڈ کو اپ ڈیٹ کر دیا جاتا۔ اس میں وہ مریض بھی رپورٹ ہوتے جنہیں مرض کی علامات ظاہر نہیں ہوئیں۔ وباء 10 سے 22 جنوری کے درمیان تیزی سے بڑھی، 23 سے 27 جنوری کے درمیان مستقل رہی اور اس کے بعد اس میں تیزی سے کمی آنے لگی۔
چین میں وباء کے پھیلنے کے بعد ووہان میں ماہرین وبائیات (epidemiologist) کی 1800 سے زائد ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ ہر ٹیم میں کم از کم پانچ ارکان تھے اور ان کے ذمے روزانہ مشتبہ ہزاروں افراد کو تلاش کرنا تھا۔ مریض کا جس سے واسطہ پڑا ہوتا، اس کی طبی نگرانی کی جاتی۔ یہ دیکھا گیا کہ مریض نے جن سے رابطہ کیا ان میں ایک سے پانچ میں لیبارٹری ٹیسٹ سے کورونا وائرس کے نتائج مثبت آئے۔
۔23 جنوری سے ووہان اور اردگرد کی میونسپلٹیوں کے گرد حفاظتی سرحد قائم کرنے سے وباء کوروکنے میں بہت مدد ملی۔اس سے کورونا وائرس میں مبتلا افراد ووہان سے ملک کے دوسرے حصوں میں جانے اور وہاں وباء پھیلانے کے قابل نہ رہے۔ اس کے ساتھ صوبوں کی سطح پر کورونا وائرس کو روکنے کی کوششیں کی گئیں اور اقدامات اٹھائے گئے۔ مثلاًدوسرے سے مناسب فاصلے کو لازمی بنا دیا گیا۔ مشتبہ افراد کی شناخت کا کام جفاکشی سے کیا گیا اور ان سب کو عام آبادی سے الگ کر دیا گیا۔
چین میں زیادہ تر کیسز ووہان سے چین کے دوسرے علاقوں کو منتقل ہوئے تھے، اور عام آبادی میں ان کی ایک دوسرے سے منتقلی زیادہ نہیں ہونے دی گئی۔ ایک امر توجہ طلب ہے۔ مشترکہ مشن کی رپورٹ کے مطابق چین میں کورونا وائرس کی زیادہ تر منتقلی خاندانوں کے اندر ہوئی۔ پاکستان میں خاندانی نظام چین سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ یہاں گھروں کے اندر ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے اور احتیاطی تدابیر اپنانے کو یقینی بنانا ہو گا کیونکہ چین کی مثال سے لگتا ہے کہ نقل و حرکت پر پابندی کے بعد گھروں کے اندر اس وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
چین میں جہاں طلب تھی وہاں رسد پہنچانے کی کوشش ہوئی۔ مثلاً طبی امداد کے لیے ووہان میں چین کے دوسرے علاقوں سے 40 ہزار ہیلتھ کیئر ورکرز کو لایا گیا۔
جب یہ یقین ہو گیا کہ کورونا وائرس وبائی صورت اختیار کر رہا ہے تو حکومت کی تمام سطحوں پر اس سے تحفظ اور اس کی روک کو اعلیٰ ترین ترجیح قرار دے دیا گیا۔ تحفظ اور کنٹرول کے اقدامات کرنے کے فیصلے کے ساتھ ان پر تیزی سے عمل کیا گیا۔
ملک میں مرحلہ وار کارروائی کچھ یوں ہوئی۔ پہلے مرحلے میں ووہان سے باہر کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنا حکمت عملی کا حصہ تھی۔ اس کے ساتھ ''ذریعے‘‘ پر ہاتھ ڈالا گیا۔ جانوروں کی منڈیاں بند کی گئیں۔ لیبارٹری ٹیسٹ فارمولیٹ کیے گئے۔ تشخیص کی کٹس تیار کی گئیں۔ گوشت، وائلڈ لائف اور پولٹری کی مارکیٹوں کو کہیں بند کیا گیا اور کہیں ان کی نگرانی اور کنٹرول یقینی بنایا گیا۔ اس سارے کام میں مختلف شعبوں اور اداروں کو شامل کیا گیا اور ہر ایک کو اپنی ذمہ داری نبھانے کا کہا گیا۔ اس دوران 10 جنوری کو عالمی ادارہ صحت کو چین نے کووڈ19- وائرس کے ''جینوم‘‘ کے بارے میں آگاہ کرد یا۔
دوسری مرحلے میں وباء کی شدت میں کمی کی کوشش کی گئی۔ اس کے ساتھ موت کی شرح کم کرنے اور مریضوں کے علاج پر توجہ دی گئی۔ 20 جنوری کو دوران سفر جسمانی درجہ حرارت چیک اور صحت کا معائنہ ہونے لگا۔ 23 جنوری کو ووہان میں نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
دوسرے صوبوں میں اس امر پر توجہ دی گئی کہ وباء ان میں داخل نہ ہو۔ لوگوں کی آمدورفت کو کم کیا گیا۔ لوگوں کے جمع ہونے پر اور ہر طرح کے اجتماعات پر پابندی لگ گئی۔ اس دوران وباء اور اس سے تحفظ کی معلومات باقاعدگی سے جاری کی جاتیں۔نئی ہسپتالیں تعمیر کی گئیں۔ اس کے ساتھ اجناس کی مستقل سپلائی اور قیمتوں کے استحکام کو یقینی بنایا گیا۔
تیسرے مرحلے میں کیسز کے کلسٹرز یا اکٹھ سے نپٹا گیا۔ ووہان میں اور صوبہ ہوبائی میں خطرات کے مطابق علاقوں کو ترجیح دی اور کارروائی کی گئی۔ٹیسٹنگ، مریضوں کو داخل کرنے اور علاج کا کام تسلسل سے ہوتا رہا ۔ اس سارے عمل میں جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (آرٹی فشل انٹیلی جنس) سے مدد لی گئی تاکہ بہت زیادہ اعدادوشمار یا ڈیٹا کو استعمال میں لایا جا سکے اور مشتبہ روابط کا سراغ لگایا جا سکے۔ لوگوں کو ہیلتھ انشورنس فراہم کی گئی یا انہیں موقع پر مالی امداد دی گئی۔ غذاؤں کی فراہمی گھروں اور ہاسٹلوں میں بھی ہوئی۔
چین میں تقریباً ہر کسی کا درجہ حرارت معلوم کرنے کا اہتمام کیا گیا، ماسک پہنائے گئے اور ہاتھ دھلوائے گئے۔ وباء کے پھیلنے پر صوبوں، ضلعوں اور کمیونٹی کی سطح پر استعداد کار کو بڑھایا گیا اور انہیں بروئے کار لایا گیا۔ اس کارروائی میں انٹر نیٹ اور 5 جی پلیٹ فارم بھی استعمال کیے گئے۔ جہاں یہ مرض نہیں تھا یا کم تھا وہاں سے ہیلتھ ورکرز ووہان اور صوبہ ہوبائی بڑی تعداد میں بھیجے گئے اور دوسرے علاقوں سے امدادی سامان بھی بہت بڑی مقدار میں بھیجا گیا۔
بالآخر مثبت نتائج آنے لگے، وباء کنٹرول میں آئی، سکول کھلنے لگے اور معاشی سرگرمیاں جاری ہو گئیں۔ حالات کو قدم بہ قدم نارمل کیا گیا۔
کامیابیاں اپنی جگہ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان ممالک میں بہت بڑی تعداد میں انسان جان سے گئے۔ آج کے حالات کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی دنیا کو اپنی ترجیحات ازسرنو طے کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپ نہ جنگ سے گزر رہا ہے اور نہ پسماندہ ہے، وہاں یہ وباء کیوں بے قابو ہو رہی ہے؟ یقینا شعبہ صحت دنیا بھر میں نظرانداز ہوا ہے، کہیں کم اور کہیں زیادہ۔​
 

Back
Top