Coronavirus Khandaani Nizam Ko bachanay Ke Liye Aaya hai By Sohaib Marghub Column

کورونا وائرس خاندانی نظام کو بچانے کیلئے آیا ہے ۔۔۔۔ صہیب مرغوب


سائنسدان ہمیں ڈرانے کیلئے روزانہ ہی نئے سے نیا بیان جاری کر دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ دنیا کی صحت پہلے ہی اچھی نہیں، کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ کے سب سے بڑے صحت عامہ کے ادارے ''سنٹر فار ڈزیز کنٹرول‘‘ (CDC) نے خبردار کیا ہے کہ یہ وائرس ایک سال سے زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 2002 میں پھیلنے والا ''سارس‘‘ (SARS) موسم گرما کی شدت سہار گیا تھا۔ اس کا حملہ نومبر 2002 سے جولائی 2003 تک جاری رہا تھا۔ ''سارس‘‘ سے انسان کی جان موسم کی شدت سے نہیں بلکہ احتیاطی تدابیر سے چھوٹی تھی۔ ''نیویارک ٹائمز‘‘ نے جمعہ کی اشاعت میں لکھا ہے ''اگر توجہ نہ کی گئی تو امریکہ میں پھوٹنے والی کورونا وائرس کی وبا 16 تا 21.40 کروڑ امریکیوں کو بیمار کر سکتی ہے۔ سی ڈی سی نے صرف امریکہ میں ہلاکتوں کا اندازہ 2 لاکھ سے 16 لاکھ تک لگایا ہے۔ مضمون کا عنوان ہے ''CDC's Worst-Case Coronavirus Model: 214 Million Infected, 1.7 Million Dead ‘‘۔ اخبار کے مطابق صرف امریکہ میں 24 لاکھ تا 2.1 کروڑ افراد کے ہسپتالوں میں داخل ہونے کا اندیشہ ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے 2.5 ارب ڈالر مانگے تھے لیکن اب 50 ارب ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔ یہ کسی ایک ملک کا سب سے بڑا بجٹ ہے۔ آسٹریلیا مالی مشکلات سے نکالنے کے لئے 65 لاکھ شہریوں میں 750 ڈالر فی کس کے حساب سے 4.6 ارب ڈالر خرچ کرے گا تاکہ وہ گھر میں رہ کر اخراجات پورے کر سکیں۔ 24 لاکھ افراد کو ٹیکسوں میں رعایت بھی دی جائے گی۔ آسٹریلیا کل 17.6 ارب ڈالر خرچ کرے گا۔
ہم بھی اس وائرس پر آسانی سے قابو پا سکتے ہیں۔ ہمارے لئے اہم بات یہ ہے کہ اس کا پھیلائو دنیا کے چار ممالک میں بہت زیادہ ہوا۔ 80 سے 90 فیصد مریض چین، ایران، اٹلی اور جنوبی کوریا میں سامنے آئے تھے۔ ان چاروں ممالک میں بوڑھوں اور پہلے سے بیمار افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چین میں تعداد انتہائی کم اور اٹلی اور ایران میں بڑھ رہی ہے۔ اٹلی میں 22.6 فیصد افراد 65 سال سے بڑے ہیں اور یہ تناسب دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اٹلی میں قوت مدافعت کی کمی‘ شوگر اور دل کے امراض اس وبا کے پھیلائو کا باعث بنے۔ ہمارے ہاں اس عمر کے افراد کی تعداد کافی کم ہے۔ چین میں ہر گھر کی چمنی سے بھی وائرس مارنے والے کیمیکلز کا چھڑکائو کیا گیا۔ دیو قامت روبوٹس کی مدد سے ہر سڑک اور گلی میں سپرے کرنے کے بعد ملک بھر میں زیر گردش تمام نوٹ جلا دیئے گئے۔ کھانے پینے کے سامان کی ڈلیوری کیلئے روبوٹس کی مدد لی گئی جبکہ باورچی کا درجہ حرارت اور ابتدائی ٹیسٹ رپورٹ بھی کھانے کی ڈلیوری کے ساتھ بھیجی گئی۔ کھانے کی پیکنگ بھی وائرس فری کاغذوں میں کی گئی۔ 5 کروڑ چینیوں کو قرنطینہ میں رکھ کر ہر ممکن سہولت مہیا کی گئی۔ مشکوک مریضوں کی سانس عام فضا میں ملانے کی بجائے قرنطینہ میں بنائے گئے خصوصی راستوں کے ذریعے نکالی گئی، اس سانس کی ٹریٹمنٹ بھی کی گئی۔ یہ احتیاط کسی اور ملک کیلئے ممکن نہیں۔
یہ وائرس زیادہ طاقت ور تو نہیں ہے، ایک آدمی کو لگنے کے بعد دوسرے کو لگ سکتا ہے لیکن کافی کمزور ہو جاتا ہے‘ مگر اس کی ''دوڑ‘‘ بہت تیز ہے۔ کسی چیز پر لگنے کے بعد ناپسندیدہ ماحول میں یہ وائرس جلدی مر جاتا ہے لیکن کچھ چیزیں موافق آ جاتی ہیں جن پر یہ ہر آدھے گھنٹے اپنی تعداد دگنی کر لیتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق نے بتایا ہے کہ کورونا وائرس کو موبائل سیٹ بہت پسند ہے اور کیوں نہ ہو، یہ وائرس پیدا ہی چین کے ترقی یافتہ شہر میں ہوا‘ جس کے گردونواح میں جدید ترین انڈسٹریز کام کر رہی ہیں۔ 29 فروری کو ایک سائنسی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کیتھرین ایلن فولے نے موبائل سیٹ سے کھیلنے والوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس حرکت سے بچیں۔ انہوں نے اپنے مضمون ''The novel coronavirus can likely live up to 96 hours on phone screens‘‘ میں لکھا ہے کہ کورونا وائرس موبائل فون کی سکرین پر 96 گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے، یہ کسی بھی میٹریل پر اس کی سب سے زیادہ لائف ہے۔ کچھ تحقیقات میں یہ عمر 76 گھنٹے بتائی گئی ہے۔ کیتھرین لکھتی ہیں ''شیشہ پر اسے موت بھی دیر سے آتی ہے، کورونا وائرس شیشے پر سب سے زیادہ دیر تک لائف انجوائے کر سکتا ہے‘‘۔ کئی ممالک میں ایک عام آدمی دن بھر میں بسا اوقات 1800 مرتبہ موبائل فون کو ہاتھ لگاتا ہے۔ امریکہ میں 96 افراد کے ایک گروپ پر تحقیق سے پتہ چلا کہ ہر فرد نے 24 گھنٹے میں مجموعی طور پر 2600 مرتبہ موبائل کو ہاتھ لگایا اور 76 مرتبہ موبائل کی سکرین کو سکرول کرکے چیک کیا کہ کون کون سے آئٹم چل رہے ہیں۔ ایک اور تحقیق یونیورسٹی آف سائوتھ ویلز آسٹریلیا میں ہوئی۔ آسٹریلین امریکیوں جتنے شوقین نہیں، انہوں نے 24 گھنٹوں میں 268 یعنی ہر گھنٹے میں 23 مرتبہ موبائل فون کو چھوا۔ اس عادت سے جان چھڑا لیجئے۔ لفٹ کے بٹن پر بھی یہ ننھی مگر خوفناک جان 72 گھنٹے زندہ رہ سکتی ہے۔ لفٹ کا استعمال کم کرنے میں ہی عافیت ہے۔ وزن کم ہو جائے گا، صحت بھی ٹھیک رہے گی۔ دیگر اشیا جیسے پلاسٹر‘ گتا‘ فارمیکا‘ سٹین لیس سٹیل‘ پلاسٹک پر بھی یہ وائرس کئی کئی گھنٹے زندہ رہ سکتا ہے۔
اب ہم بتاتے ہیں کہ یہ وائرس جسم میں داخل کیسے ہوتا ہے۔ جسم میں داخل ہوتے ہی کیا کرتا ہے، اور سب سے اہم بات، ہم اس کا راستہ کیسے روک سکتے ہیں؟ یہ سانس کی نالی میں داخل ہونے کے بعد میزبان خلیوں کی بیرونی تہوں کو برباد کر دیتا ہے، اور پھر یہ جسم کے صحت مند خلیوں کو ''ہائی جیک‘‘ کر لیتا ہے۔ یہ انہیں بھی وائرس ہی پیدا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایک وائرس لاکھوں بیمار خلیوں کو جنم دے سکتا ہے۔ اس سے بچنا ہی بہتر ہے، اگر ہم نے احتیاط کر لی تو وائرس بائیں ہاتھ کی مار ہے۔ یہ ناک یا منہ کے راستے سانس کی نالی میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے۔ منہ (اور ناک میں بھی) میں بار بار انگلی نہیں ڈالنا چاہیے جیسا کہ کئی لوگ ناخن کاٹنے یا دانت صاف کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ آنکھوں کو بھی کم سے کم ملیے۔ ہر ایک گھنٹے بعد ایک گلاس پانی پی لیجئے۔ اس سے وائرس کو پھیپڑوں میں جانے کا موقع نہیں ملے گا۔ وہ پانی کے ساتھ پیٹ میں چلاجائے گا جہاں اس سے نمٹنے کا اچھا انتظام موجود ہے۔ پیٹ میں موجود کئی قسم کے اینزائمز وائرس کو مار مار کر الو بنا دیں گے۔ امریکی ادارے سی ڈی سی کی تحقیق کے مطابق یہ وائرس بیمار انسانوں کے فضلے میں بھی پایا گیا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ بیماری پھیلانے کے قابل ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ وائرس خون میں شامل ہو گیا تو گیسٹرو انٹرائٹس سسٹم کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس صورت میں دست اور بدہضمی کی شکایت ہوسکتی ہے۔ یہ بون میرو میں سوزش پیدا کر سکتا ہے اس لئے گھر اور جسم کا درجہ حرارت بڑھا لیجئے، سویٹر یا کوٹ ضرور پہن کر رکھئے، نیم گرم پانی پیجئے۔ اس سے وائرس کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔ جسم کا درجہ حرارت کم ہونے سے وائرس کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کھانسی، زکام یا چھینک کی صورت میں ہاتھ اور منہ کو بار بار دھوئیں، کم از کم 20 سیکنڈ تک۔ ہاتھ دھوتے وقت کئی لوگ انگلیوں کی پوروں کی درمیانی جگہ کو بھول جاتے ہیں، ان کا کیا قصور ہے؟ یونیورسٹی آف ٹینیسی ہیلتھ سائنس سنٹر سے منسلک رُدرا چھناپناور (Rudra Channappanavar) کے بقول انگلیوں کی درمیانی جگہوں کو بھی بار بار دھونے سے کورونا وائرس کہیں کا نہیں رہے گا، اپنی موت آپ مر جائے گا۔ سفر کم سے کم کر دیجئے۔ آفس‘ گھر یا دوران سفر کسی بھی غیرضروری چیز کو ہاتھ لگانے سے گریز کیجئے، سیڑھیاں اترتے وقت بھی سہارا لینے کی ضرورت نہیں۔ دو ہفتے کیلئے نوکروں کی جگہ خود کام کیجئے، گھر میں دو ہفتے کا کھانے پینے کا سامان رکھ لیجئے اور بچوں کے ساتھ لائف انجوائے کیجئے۔ اچھا سوچتے ہوئے سمجھ لیجئے کہ شاید آپ نے گھر اور بچوں کو وقت دینا کم کر دیا تھا اس لئے یہ وائرس خاندانی نظام کو بچانے اور آپ کو اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالنے کیلئے آیا ہے۔​
 

an other new story related to corona

thanks for sharing janab :)

y we cant edit or delete our reply if v made any mistake / typing error etc in it
 
ہے۔
اب ہم بتاتے ہیں کہ یہ وائرس جسم میں داخل کیسے ہوتا ہے۔ جسم میں داخل ہوتے ہی کیا کرتا ہے، اور سب سے اہم بات، ہم اس کا راستہ کیسے روک سکتے ہیں؟ یہ سانس کی نالی میں داخل ہونے کے بعد میزبان خلیوں کی بیرونی تہوں کو برباد کر دیتا ہے، اور پھر یہ جسم کے صحت مند خلیوں کو ''ہائی جیک‘‘ کر لیتا ہے۔ یہ انہیں بھی وائرس ہی پیدا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ایک وائرس لاکھوں بیمار خلیوں کو جنم دے سکتا ہے۔ اس سے بچنا ہی بہتر ہے، اگر ہم نے احتیاط کر لی تو وائرس بائیں ہاتھ کی مار ہے۔ یہ ناک یا منہ کے راستے سانس کی نالی میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے۔ منہ (اور ناک میں بھی) میں بار بار انگلی نہیں ڈالنا چاہیے جیسا کہ کئی لوگ ناخن کاٹنے یا دانت صاف کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ آنکھوں کو بھی کم سے کم ملیے۔ ہر ایک گھنٹے بعد ایک گلاس پانی پی لیجئے۔ اس سے وائرس کو پھیپڑوں میں جانے کا موقع نہیں ملے گا۔ وہ پانی کے ساتھ پیٹ میں چلاجائے گا جہاں اس سے نمٹنے کا اچھا انتظام موجود ہے۔ پیٹ میں موجود کئی قسم کے اینزائمز وائرس کو مار مار کر الو بنا دیں گے۔ امریکی ادارے سی ڈی سی کی تحقیق کے مطابق یہ وائرس بیمار انسانوں کے فضلے میں بھی پایا گیا ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ بیماری پھیلانے کے قابل ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ وائرس خون میں شامل ہو گیا تو گیسٹرو انٹرائٹس سسٹم کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس صورت میں دست اور بدہضمی کی شکایت ہوسکتی ہے۔ یہ بون میرو میں سوزش پیدا کر سکتا ہے اس لئے گھر اور جسم کا درجہ حرارت بڑھا لیجئے، سویٹر یا کوٹ ضرور پہن کر رکھئے، نیم گرم پانی پیجئے۔ اس سے وائرس کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔ جسم کا درجہ حرارت کم ہونے سے وائرس کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کھانسی، زکام یا چھینک کی صورت میں ہاتھ اور منہ کو بار بار دھوئیں، کم از کم 20 سیکنڈ تک۔ ہاتھ دھوتے وقت کئی لوگ انگلیوں کی پوروں کی درمیانی جگہ کو بھول جاتے ہیں، ان کا کیا قصور ہے؟ یونیورسٹی آف ٹینیسی ہیلتھ سائنس سنٹر سے منسلک رُدرا چھناپناور (Rudra Channappanavar) کے بقول انگلیوں کی درمیانی جگہوں کو بھی بار بار دھونے سے کورونا وائرس کہیں کا نہیں رہے گا، اپنی موت آپ مر جائے گا۔ سفر کم سے کم کر دیجئے۔ آفس‘ گھر یا دوران سفر کسی بھی غیرضروری چیز کو ہاتھ لگانے سے گریز کیجئے، سیڑھیاں اترتے وقت بھی سہارا لینے کی ضرورت نہیں۔ دو ہفتے کیلئے نوکروں کی جگہ خود کام کیجئے، گھر میں دو ہفتے کا کھانے پینے کا سامان رکھ لیجئے اور بچوں کے ساتھ لائف انجوائے کیجئے۔ اچھا سوچتے ہوئے سمجھ لیجئے کہ شاید آپ نے گھر اور بچوں کو وقت دینا کم کر دیا تھا اس لئے یہ وائرس خاندانی نظام کو بچانے اور آپ کو اپنے کام
حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق عمل کریں پاکستان میں اس وبا کے پھیلنے کے کوئی چانس نہیں
 
@SK*
ابھی روحانی پیشواوں نے بھی بہت کچھ کہنا ہے​
 
Back
Top