Coronavirus se kahaein zyada khatarnak virus By Andleeb Abbas Column

کورونا سے کہیں زیادہ خطرناک وائرس ۔۔۔۔۔۔۔۔ عندلیب عباس

اگر آپ چاہتے ہیں کہ چھوت کا مرض پھیلانے والا وائرس وبائی مرض کی شکل اختیار کرلے تو بس گھبراہٹ کا بٹن دبادیں۔ وائرس کو نپے تلے‘ منظم اور مربو ط ردِعمل کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے ‘ لیکن ہیجان‘ سنسنی خیزی اور افراتفری اسے پھیلانے کا باعث بنتی ہے ۔ گھبراہٹ سوچنے سمجھنے‘ جانچ پڑتال اور دلیل کی صلاحیت سلب کرلیتی ہے ۔ حالیہ کوروناوائرس اس سے کہیں بڑا خطرہ بن سکتا ہے ‘جتنا یہ دراصل ہے۔ اس کی وجہ اس وائرس کا خطرناک ہونا ہی نہیں‘ بلکہ انسانی فطرت میں ہیجان خیزی کا عنصر ہے۔اتنا کچھ کہا ‘ دیکھا اور سنا جاچکا ؛ بحث‘ تحقیق اور تلاش کے اتنے مراحل طے کیے جاچکے ہیں؛ سوشل میڈیا ‘ جیسا کہ فیس بک اور ٹوئٹر پر تحریری ‘ تصویری اور ویڈیو کی شکل میں اتنا مواد پیش کیا جاچکا کہ حکایت سے حقیقت اور وہم سے اصل کو الگ کرنا آسان نہیں۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق کوروناوائرس اور اس کی مختلف اقسام ایک عام فلو سے لے کر کئی ایک بیماریوں‘ جیسا کہ Middle East Respiratory Syndrome اور Severe Acute Respiratory Syndrome کا باعث بنتے ہیں۔ چین میں پھیلنے والا کوروناوائرس اس کی ایک نئی قسم ہے‘ جس کی ماضی میں انسانوں میں شناخت نہیں کی گئی تھی ۔ اس سے متاثر ہونے کی عام علامات سانس لینے میں تکلیف‘ بخار اور کھانسی ہیں۔ بیماری کے شدید حملے کی صورت میں نمونیا‘ سانس کی رکاوٹ‘ گردوں کی خرابی اور آخر کار موت واقع ہوسکتی ہے ۔ کورونا وائرس کا نشانہ اس وقت چین‘ اور اس کا شہر وہان ہے ‘ لیکن دنیا کے دیگر حصوں سے افراد کے متاثر ہونے کی رپورٹس بھی آئی ہیں۔ چین سے باہر بھی چند ایک ہلاکتوں کی تصدیق ہوچکی ہے ۔ کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔ چین سے باہراس بیماری سے متاثرہ شخص کی سب سے پہلی ہلاکت فلپائن میں رپورٹ ہوئی ہے ۔ فلپائن کے قومی نشریاتی ادارے کے مطابق‘ چوالیس سالہ چینی شخص گزشتہ ماہ وہان سے ہانگ کانگ کے راستے فلپائن آیا تھا۔ اُس کے ہمراہ اڑتیس سالہ چینی خاتون تھی جسے فلپائن میں کورونا وائرس کی پہلی مریض کے طور پر شناخت کیا گیا۔
سوشل میڈیا نے جہاں معلومات تک رسائی نہایت آسان بنادی ‘ اس نے غلط معلومات کی ترویج کہیں زیادہ وسیع اور تیزرفتار بنا دی ہے ۔ ہر کسی کی ٹائم لائن پر موجود کوروناوائرس کی خبروں‘کلپس اور ویڈیوز نے ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے کہ خوف ہی اس بیماری کے پھیلائو کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس وائرس کی 2018 ء میں پیش گوئی کردی گئی تھی۔ ویکسین کانفیڈنس پراجیکٹ کے ڈائریکٹر‘ ہیڈی لارسن نے 2018 ء میں رسالے ''نیچر‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا ''میری پیش گوئی ہے کہ انفولنزا یا اسی طرح کی کوئی اور بیماری پھوٹ سکتی ہے ‘ لیکن اُس کی وجہ روک تھام کرنے والی ٹیکنالوجی کی کمزوری نہیں‘ بلکہ ڈیجیٹل مہارت سے پھیلایا گیا جذباتی فشار ہوگا‘ جو ویکسین پر عوام کے اعتماد کو مجروع کردے گا‘ اسے عالمی سطح پر عوام کی صحت کو لاحق سب سے بڑے خطرے کے طور پر شناخت کیا جانا چاہیے ۔ ‘‘
بڑی طاقتوں کے وائرس حملوں کی وجہ سے آبادی سے لبریز شہروں کے ویران ہونے کی خبریںگھڑنے اور سازش کی تھیوریاں ٹکسال کرنے والے دن رات مصروف ہیں۔ کوروناوائرس کے بارے میں پھیلائی گئی تھیوری کے مطابق ‘یہ وائرس بل گیٹس کی ملکیت ہے اور اسے مذموم مقاصد کے لیے پھیلایا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک ٹوئٹر پوسٹ ‘ جس کے ایک ہزار کے قریب ری ٹوئٹس کیے گئے ‘ ایک عجیب ویب سائٹ کی ہیڈلائن دکھا رہی ہے‘ جس کے مطابق کوروناوائرس ایک پیٹنٹ (مصدقہ) تخلیق ہے‘ نیز یہ وائرس بل اینڈ ملڈینا گیٹس فائونڈیشن کی ملکیت تھا۔ فلمیں دیکھنے والے اسے ماضی میں فلموں میں دکھائی گئی صورتحال سے مشابہہ قرار دے رہے ہیں۔ کچھ تخلیقی ذہن رکھنے والے اس موضوع کی بنیاد پر خوفناک فلموں اورسنسنی ڈراموں کا سکرپٹ لکھنے کا سوچ رہے ہیں۔ خوف اور سنسنی خیزی کے اس ماحول میں وائرس کچھ کے لیے خوف‘ جبکہ کچھ کے لیے دلچسپی کا باعث بن چکا ۔ اس معروضیت کے ساتھ واحد مسئلہ یہ ہے کہ کورونا وائرس انسانی جانوں کے لیے اتنا ہلاکت خیز نہیں ‘جتنی خوف اور دہشت کی زہرناک فضا‘ پھر بھی اس دیوانگی میں سے معقولیت کا عنصر تلاش کرنے‘ اور سمجھداری کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ٹھنڈے دماغ سے سوچتے ہوئے حقیقت کو افسانے الگ کررکھیں۔ غیر مصدقہ معلومات کی بلاروک ٹوک ترسیل غیر ضروری خوف و ہراس کا باعث بنے گی۔ اس کا فائدے سے زیادہ نقصان ہوگا‘ اور وائرس کے خلاف جنگ مزید پیچیدگی کا شکار ہوجائے گی۔ آئیے پھیلائی گئی کچھ افواہوں کا جائزہ لیتے ہوئے اصل صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں‘ تاکہ حفاظتی تدابیر کرنا ممکن ہوسکے :۔
۔1۔ کورونا وائرس ایک ہلاکت خیز وائرس ہے‘ جو کسی بھی دیگر وائرس سے زیادہ خطرناک ہے ‘ یہ بات درست نہیں: اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز وائرس دنیا میں پھیلے ۔ سارس ( SARS) اور مرس (MERS) کی ہلاکت خیزی کی شرح بالترتیب 9.5 فیصداور 34.5 فیصد تھی ‘ جبکہ کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی صرف 3 فیصد ہے ۔ خیر ایسے معاملات کو محض اعدادوشمار کی بنیاد پر سمجھنا مشکل ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر امریکہ میں انفلونزاسے ہلاکت کی شرح متاثر ہونے والے فی ہزار افراد میں سے ایک سے بھی کم ہے ‘ لیکن ہر سال انفلونزا سے متاثر دولاکھ افراد ہسپتالو ں میں داخل ہوتے ہیں۔
۔2۔ کورونا وائرس لاعلاج ہے: یہ بات درست بھی ہے اور غلط ہے ۔ یقینا یہ ایک نئی قسم کا وائرس ہے ۔ اس وقت اس کے پھیلائو کو سمجھنے اور علاج دریافت کرنے کیلئے تحقیقات جاری ہیں‘ تاہم یہ ایک وائرس ہے؛چنانچہ وائرس سے پھیلنے والے دیگر امراض کی طرح اس سے نمٹنے کے لیے بھی علاج زیادہ اس سے بچائو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ‘ جہاں تک دیگر اقسام کے وائرسوں کا تعلق ہے تو ان کے پھیلائو اور اثر کا تعین کرنے کیلئے پندرہ دن کا معیاری وقت ہوتا ہے ‘ ان سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر لازمی ہیں۔
۔3۔ حکومتیں اپنے شہریوں کو چین سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کریں: یہ بات بھی درست نہیں‘ کیونکہ فوری انخلا دیگر مقامات پر بھی وائرس کے پھیلائو کا باعث بن سکتا ہے ۔ امریکی حکومت نے ایک ایسی خاتون کی رپورٹ جاری کی‘ جو چین سے امریکہ آئی اور اُس کی وجہ سے اُس کے دیگر اہل ِخانہ بھی وائرس سے متاثر ہوگئے ۔ انخلا صرف اُس صورت میں کیا جائے ‘جب چین کے محکمہ صحت کے حکام ایسے افراد کا انخلا محفوظ قرار دے دیں۔ الغرض دنیا بھر کی حکومتوں کی طرح پاکستانی حکومت پر بھی میڈیا اور چین میں زیر ِتعلیم طلبہ کے اہل ِخانہ کا دبائو ہے کہ اُنہیں واپس ملک میں لایا جائے ۔ اس مرحلے پر احتیاط درکار ہے ۔ تمام فورمز پر اصل صورتحال کی آگاہی دی جائے ۔ اس وقت پوری دنیا میں چین ہی اس وائرس کی ابتدائی تشخیص اور علاج کی بہترین جگہ ہے ‘ کیونکہ وہ بہت سے دیگر ممالک سے زیادہ جانتے ہیں کہ اس سے کیسے نمٹا جانا ہے ۔ طلبا کے قبل ازوقت انخلا سے بہت سے چیلنجز پیدا ہوجائیں گے‘ پہلا چیلنج تو مرض کی تشخیص ‘اور اسے پھیلنے سے روکنے کی بابت ہے ۔ دوسرا چیلنج متاثرہ افراد کے خاندانوں کو بتانا کہ کس طرح اس شخص کو دیگر افراد سے مکمل طور پر الگ تھلگ رکھنا ہے ۔ سوشل میڈیا پر پھیلے ہوئے ہیجان کی وجہ سے حفاظتی اقدامات ناکام ہو جائے گے۔ اس سے مریض کو بھی نقصان ہوگا اور یہ وائرس دیگر افراد تک بھی پہنچے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس قسم کے بحران کے وقت جب پوری دنیا کا میڈیااور سیاست دان فوری اور ہنگامی اقداما ت کا مطالبہ کررہے ہیں‘ پاکستان کو ہنگامی حالت کا بٹن دبانے سے گریز کرنا ہوگا۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ عوام کو کورونا وائرس ‘اس سے پھیلنے والے مرض‘ اسے کنٹرول کرنے کے طریقوں سے سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا کے ذریعے باخبر رکھا جائے‘ تاکہ سازش کی تھیوری کا وائرس نہ پھیلنے پائے ۔
 
@intelligent086
کالم نگار موضوع کی طرف آتے راستے میں کافی کچھ کرتے آئی ہیں
عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 

@Maria-Noor
:)
لگے ہاتھ سیاست بھی۔۔۔۔۔۔۔۔
پسند اور جواب کا شکریہ
 
Back
Top