Health Article Coronavirus: Zehani Masail Aur Un ka Hal By Rizwan Ata

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
کورونا وائرس: ذہنی مسائل اور ان کا حل
تحریر : رضوان عطا

Coronavirus-Zehani-Masail.jpg


کورونا وائرس کا پھیلاؤ ملک سمیت دنیا بھر میں جاری ہے۔ اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع سے ہمیں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد اور مرنے والوں کی تعداد مسلسل معلوم ہو رہی ہے جو بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ تشویش کا سبب صرف یہی نہیں۔ اندیشہ ہے کہ یہ مہلک وائرس ہمارے جسم میں بھی داخل ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں بیشتر دفاتر اور فیکٹریاں بند ہیں جبکہ بیروزگاری بڑھنے لگی ہے۔ تشویش، ذہنی دباؤ ، خوف اور پریشانی کے لیے کیا اتنا کافی نہیں؟

امریکا میں حال ہی میں 1092 افراد کا جائزہ لینے کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ 78 فیصد مرد اور 82 فیصد عورتیں اس وبا سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ اسی طرح ایک تحقیق برطانیہ میں ہوئی ہے جن میں اکثریت کی پریشانی کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پاکستان میں دیکھا گیا ہے کہ جو ہنسی مذاق محافل اور ملاقاتوں کا خاصہ ہوا کرتا تھا، ٹریفک کی طرح یکایک غائب ہو گیا ہے۔

کسی بھی ناگہانی صورت حال کے ردعمل میں تشویش، ذہنی دباؤ اور خوف کا عود کر آنا فطری ہوتا ہے۔ خطرے کی صورت میں بے فکر رہنے سے انسان خود کو مشکل میں ڈال سکتا ہے جبکہ تشویش، ذہنی دباؤ اور خوف اکثر چوکنا اور محفوظ رہنے پر اکساتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات یہ اس قدر حاوی ہو جاتے ہیں کہ ضرر پہنچانے لگتے ہے اور فرد روزمرہ کے امور بھی درست طور پر نمٹانے کے قابل نہیں رہتا۔

مثلاً کسی بیرونی سطح، جیسا کہ دروازے کے ہینڈل کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈر لگنے لگتا ہے کہ وائرس حملہ آور نہ ہو جائے اور فرد ہاتھ تک نہیں لگاتا، ایک طرح کا فوبیا یا بے جا خوف پیدا ہوتا ہے۔

دراصل ہمیں انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کے چیلنج کا سامنا ہے۔ کوروناوائرس نے سماجی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ اب دوست احباب سے ملنا مشکل ہے، ملنا چاہیے بھی نہیں مگر اس سے احساس تنہائی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں پہلے سے نفسیاتی مسائل کے شکار افراد کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ تشویش، ذہنی دباؤ یا خوف میں مبتلا ہو رہے ہیں تو چند اقدامات مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے۔

۔1۔ حالات کی سنگینی کے باوجود بہت سی چیزوں پر ہم شکر ادا کر سکتے ہیں۔ شکرگزار ہونا بھی خود کو پُرسکون رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔ مثلاً بہت سے لوگوں کو گھر پر رہ کر اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع مل رہا ہے۔ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں۔

۔2۔ ذرائع ابلاغ تک رسائی کم کر دیں۔ بعض اوقات وبا کی ہیبت طاری ہو جاتی ہے اور لوگ خطرے کو اصل سے بڑھ کر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ انہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں رہتا۔ ذرائع ابلاغ میں ان کی توجہ پھیلاؤ اور ہلاکتوں پر حددرجہ مرکوز ہو جاتی ہے۔ یہی موضوع ان کے ذہن میں بار بار گردش کرنے لگتا ہے۔ حالات سے آگاہی ضروری ہے لیکن تشویش، خوف یا ہیبت کے طاری ہونے سے بچنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ پر کم نظر رکھی جائے۔ ایک اور مسئلہ جعلی خبروں کا ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا پر کورونا وائرس کے بارے میں غلط خبریں آتی رہتی ہیں جو مزید مسائل پیدا کرتی ہیں۔ ان حالات میں عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے مشورہ دیا ہے کہ لوگ دن میں ایک یا دو بار قابل اعتبار ذرائع سے خبریں چیک کریں۔

۔3۔ حال ہی میں خبر آئی ہے کہ ''لاک ڈاؤن‘‘ کے بعد ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک میں 15 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انٹرنیٹ کا ایک مثبت استعمال کرتے ہیں یا منفی۔ مثبت استعمال کا ایک طریقہ یہ ہے کہ خود کو پُرسکون کرنے میں معاون کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ کرلی جائے، ایسی تحریریں پڑھی جائیں جن سے تشویش کم کرنے میں مدد ملتی ہے یا پھر ایسی وڈیوز دیکھی جائیں۔ ضرورت پڑنے پر ماہرین کی آن لائن خدمات بھی لی جا سکتی ہیں۔ مطلوبہ مہارت پر انٹرنیٹ کے ذریعے گھر میں بیٹھے اجرت پر کام بھی مل سکتا ہے۔

۔4۔ گھر پر زیادہ وقت گزارنے کا مطلب ہے کہ پچھلا معمول ختم! اب نیا معمول اپنانا ہوگا۔ اسی سے موافقت پیدا کریں۔ مقررہ نظام الاوقات بنائیں۔ کوئی بامقصد کام اس کا حصہ ہونا چاہیے۔

۔5۔ کوروناوائرس کے سبب دوستوں سے نہیں مل سکتے۔ اگرچہ خود جا کر ملنے کا کوئی متبادل نہیں لیکن ٹیکنالوجی ایک حد تک ضرور معاونت کرتی ہے۔ فون پر یا مختلف ایپس سے ویڈیو چیٹ ہو سکتی ہے۔ اس طرح دوستوں اور اپنے پیاروں سے رابطہ قائم رکھا جا سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی پرانے دوست سے آپ کا رابطہ بہت عرصے سے نہ ہوا ہو، اس سے بات کر لیجیے اور پرانی یادیں تازہ کیجیے۔

ْ۔6۔ ان باتوں پر توجہ دیں جو آپ کر سکتے ہیں، ان پر انہیں جو آپ کے بس میں نہیں۔ مثلاً ہاتھ دھونا آپ کے بس میں ہے، آپ چہرے پر ہاتھ لگانے سے گریز کر سکتے، آپ دوسروں سے فاصلہ رکھ سکتے ہیں وغیرہ۔ اگر ہم یہاں بیٹھے امریکا یا اٹلی میں ہونے والی تباہی پر خود کو ہلکان کریں گے تو کچھ حاصل نہیں ہوگا، الٹا اپنا نقصان ہو گا۔

۔7۔ دوسروں کی مدد کرنے سے قلبی سکون ملتا ہے۔ ہنگامی حالات میں دوسروں کی مدد کرنے کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ ڈاکٹرز، نرسیں اور طبی عملہ بیماروں کا خیال رکھے ہوئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ اطلاعات فراہم کر رہے ہیں۔ آپ آگاہی پھیلانے کا کام کر لیں، یا کسی کو مالی مدد فراہم کر دیں۔

۔8۔ اگر محسوس ہو کہ خوف، تشویش اور پریشانی حاوی ہو رہے ہیں اور اس سے روزمرہ کے امور متاثر ہو رہے ہیں تو ماہر سے مدد طلب کریں۔ ماہر سے مدد آن لائن بھی لی جا سکتی ہے۔

۔9۔ ورزش بھی ذہنی دباؤ اور تشویش کو کم کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ اگر ورزش کرنے کے لیے باہر نہیں جا سکتے یا جانا نہیں چاہتے تو گھر پر اس کا اہتمام کر لیں۔

۔10۔ ہماری ذہنی صحت کا تعلق ہماری غذا سے بھی ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔ صحت مندانہ غذا کھائیں۔ سبزیوں اور پھلوں کا استعمال زیادہ کریں، چکنائی اور شکر کم کریں۔

۔11۔ ہفتہ وار چھٹی ہو تو لوگ اکثر رات کو دیر سے سوتے ہیں اور صبح دیر سے جاگتے ہیں۔ اگر زیادہ وقت گھر پر بیٹھنا پڑے تو جاگنے اور سونے کا معمول بدل جاتا ہے، اگر کہا جائے کہ بگڑ جاتا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ وقت پر سونا اور جاگنا چاہیے، وگرنہ جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔​
 

Back
Top