Ashaar Daily Intekhab of nazam, Ghazal, or shair November 2019

پاؤں دیکھے گی نہ تاخیر کا دُکھ سمجھے گی
کیسے منزل کسی رہ گیر کا دُکھ سمجھے گی

کب سماعت پہ کوئی حرفِ صدا اترے گا
کب وہ دستک مری زنجیر کا دُکھ سمجھے گی

عکس کردوں گا میں دیوار پر اپنا چہرہ
اور دنیا اسے تصویر کا دُکھ سمجھے گی
NICE
 

@Mishaikh
@Falak
@Recently Active Users

image%3A9157.png
 
@Falak
@Recently Active Users

تم نے کہا تھا ہر شام تیرا حال پوچھاکریں گے
تم بدل گئے ہو یا تمھارے شہر میں شام نہیں ہوتی
 
@Ellaf khan @Recently Active Users


ٹوٹتے جاتے ہیں سب آئنہ خانے میرے
وقت کی زد میں ہیں یادوں کے خزانے میرے

زندہ رہنے کی ہو نیّت تو شکایت کیسی
میرے لب پر جو گِلے ہیں وہ بہانے میرے

رخشِ حالات کی باگیں تو مرے ہاتھ میں تھیں
صرف میں نے کبھی احکام نہ مانے میرے

میرے ہر درد کو اس نے اَبَدیّت دے دی
یعنی کیا کچھ نہ دیا مجھ کو خدا نے میرے

میری آنکھوں میں چراغاں سا ہے مستقبل کا
اور ماضی کا ہیولٰی ہے سَرھانے میرے

تُو نے احسان کیا تھا تو جتایا کیوں تھا
اس قدر بوجھ کے لائق نہیں شانے میرے

راستہ دیکھتے رہنے کی بھی لذّت ہے عجیب
زندگی کے سبھی لمحات سہانے میرے

جو بھی چہرہ نظر آیا ترا چہرہ نکلا
تو بصارت ہے مری، یار پرانے میرے

سوچتا ہوں مری مٹّی کہاں اڑتی ہوگی
اِک صدی بعد جب آئیں گے زمانے میرے

صرف اِک حسرتِ اظہار کے پر تو ہیں ندیم
میری غزلیں ہوں کہ نظمیں کہ فسانے میرے

احمد ندیم قاسمی
 
وہ جو ہمرہی کا غرور تھا وہ سواد راہ میں جل بجھا
تو ہوا کے عشق میں گھل گیا میں زمیں کی چاہ میں جل بجھا

یہ جو شاخ لب پہ ہجومِ رنگِ صدا کھلا ہے گلی گلی
کہیں کوئی شعلہءِ بے نوا کسی قتل گاہ میں جل بجھا

جو کتابِ عشق کے باب تھے تری دسترس میں بکھر گئے
وہ جو عہد نامۂ خواب تھا وہ میری نگاہ میں جل بجھا

ہمیں یاد ہو تو بتائیں بھی ذرا دھیان ہو تو سنائیں بھی
کہ وہ دل جو محرمِ راز تھا کہاں رسم و راہ میں جل بجھا

کہیں بےنیازی کی لاگ میں کہیں احتیاط کی آگ میں
تجھے میری کوئی خبر بھی ہے مرے خیر خواہ میں جل بجھا

مری راکھ سے نئی روشنی کی حکایتوں کو سمیٹ لے
میں چراغ صبح وصال تھا تری خیمہ گاہ میں جل بجھا

وہ جو حرف تازہ مثال تھے انھیں جب سے تو نے بھلا دیا
تری بزمِ ناز کا بانکپن کسی خانقاہ میں جل بجھا

سلیم کوثر​
@Recently Active Users
 
Back
Top