Ashaar Daily Intekhab of nazam, Ghazal, or shair November 2019

@Ellaf khan


نیند کے بیچ کوئی خواب کہاں کُھلتا ہے
آنکھ کُھلتی ہے تو حیرت کا جہاں کُھلتا ہے

یہ تو الفاظ ہی دے جاتے ہیں دھوکہ اکثر
اپنے چہرے سے کہاں رازِ نہاں کُھلتا ہے

دِل کا دروازہ شکستہ ہے نہ جانے کب سے؟
جب بھی کُھلتا ہے ، بصد آ ہ و فغاں کھُلتا ہے

عشق ہے اور طلب کرتا ہے عُمروں کا خراج
ایک دستک سے کہاں در یہ میاں! کُھلتا ہے

بولتے جانے سے اظہار ہی ہوتا ہے فقط
چُپ کے آداب جو آیئں تو بیاں کھُلتا ہے

عُمر بھر عکس دکھاتا نہیں پُورا خاور
جب شکستہ ہو تو آیئنہِ جاں کُھلتا ہے

@Recently Active Users
 
@Recently Active Users


دامنِ شوق سے لپٹا جو تیری یاد کا دکھ
دل کے پہلو سے لگا آہ کا فریاد کا دکھ

آزمائش تھی کڑی دل پہ نوازش ہر ایک
ہم نے رہ رہ کے اٹھایا ستم ایجاد کا دکھ
 

@Ellaf khan Thank you...this one is for you

@Recently Active Users



وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں

تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں

پھول دامن میں چند رکھ لیجے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں

زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

دیکھنے والا اک نہیں ملتا
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں

جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن
غم بڑے دلپذیر ہوتے ہیں

اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

عبدالحمید عدم
 
@Mishaikh


رنج و غم ٹوٹے ہیں دل پر اس قدر پردیس میں
جا بجا بکھرا ہوا ہوں ٹوٹ کر پردیس میں

اپنی مرضی کی اُڑانیں بھر نہیں سکتے پرند
کٹ گیے ہوں جیسے ان کے بال و پر پردیس میں

@Recently Active Users
 

@Recently Active Users
@Mishaikh
@Ellaf khan


وابستہءِ جنوں ہیں خیالات آج کل
منہ دیکھتی ہے گردشِ حالات آجکل

چہرہ خجل، خیال پریشاں، نظر اُداس
ناگفتنی ہیں عشق کے حالات آجکل

اب شہر کی طرف بھی نکلنا محال ہے
زنجیر بن گئے ہیں خیالات آجکل

وہ شوخ دل کی بات بھی سنتا نہ تھا کبھی
اب دل پہ لکھ رہا ہے مقالات آجکل

خاموش لب ہیں، دستِ طلب میں بھی دم نہیں
آنکھوں سے ہو رہے ہیں سوالات آجکل

یہ انقلابِ فکر ہے خاموش تھے کبھی
یا بولنے لگے ہیں خیالات آجکل

ہے کس قدر خلوص وفا شوق حوصلہ
وہ مجھ سے کر رہے ہیں سوالات آجکل

اب ان کی یاد بھی نہیں آتی قریبِ دل
سونی پڑی ہے بزمِ خیالات آجکل

اے دل جنابِ کیف کو صحرا میں دیکھنا
بھٹکے ہوئے ہیں ان کے خیالات آجکل
 
وہ جو تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں

تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں

پھول دامن میں چند رکھ لیجے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں

زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں

وہ پرندے جو آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

دیکھنے والا اک نہیں ملتا
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں

جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اُف! وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن
غم بڑے دلپذیر ہوتے ہیں

اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

@Falak appi lajawab zabardast:thumbs up::thumbs up::thumbs up::thumbs up::thumbs up::thumbs up:
 
Back
Top