Damishq Kab Abad Hua by Ikhlaq Ahmad Qadri

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
دمشق کب آباد ہوا؟ ....... اخلاق احمد قادری
Damashaq.jpg

ملک شام کے صحراؤں میں گھرے ایک نخلستان کے نزدیک کوہ قاسیون کے دامن میں آباد شہر دمشق دنیائے مشرق کا ایک عظیم تاریخی شہر ہے۔ اس سے بحیرۂ روم کا کم از کم فاصلہ ایک سو کلومیٹر ہے مگر جبل قاسیون کے پہاڑ سمندر اور شہر کے درمیان ہیں اور ایک ہزار میٹر تک بلند ہیں لہٰذا سمندر کی ہوائیں اور بادل شہر تک بآسانی نہیں آسکتے۔ زرخیز نخلستان کے وسط میں ہونے کی وجہ سے یہ شہر قدیم وقتوں سے ایک منڈی اور دریائے فرات سے نیل تک سفر کرنے والے قافلوں کے پڑاؤ کا کام دیتا رہا ہے۔ لوگوں اور سامان کی مسلسل آمدورفت نے یہاں جو چہل پہل قائم کی وہ کسی بحری بندرگاہ سے کم نہیں تھی۔ اسی وجہ سے آج کے مؤرخ کو ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہوتا کہ اس انسانی چہل پہل نے کب دمشق کا شہر آباد کر دیا۔ دمشق کے مضافات میں تل رماد سے ملنے والے آثار سے پتا چلتا ہے کہ یہاں 6300 قبل مسیح میں آبادی موجود تھی۔ ایک اور مقام پر 9000 قبل مسیح پرانی آبادی کے آثار بھی ملے ہیں۔ اس سلسلے میں 1950ء میں ہونے والی کھدائی سے، جو دمشق کے جنوب مشرق میں تل الصالحیہ کے مقام پر ہوئی یہ انکشاف ہوا کہ یہاں چار ہزار سال قبل مسیح تک ایک شہری مرکز ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ جب ہم برنجی دور تک استعمال ہونے والے ابتدائی اور نامکمل اوزاروں کو دیکھتے اور ان کا مقابلہ یہاں کے پیچیدہ نظام آب پاشی سے کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تقریباً دو ہزار قبل از مسیح کے وسط میں اس شہر کی خوشحالی ایک بڑے طویل اور سست رفتار تمدنی ارتقا کا نتیجہ ہو گی۔ تل الامرنہ سے ملنے والی الواح میں اس کے تذکرے سے گویا دمشق کی تاریخ کا صحیح آغاز ہوتا ہے۔ اس کا نام ان شہروں کے ضمن میں آتا ہے، جنہیں فرعون تھتموس سوم نے پندرہویں صدی قبل از مسیح میں فتح کیا تھا۔ ان کتبوں اور الواح میں اس کا نام دمشکا درج ہے۔ فرعون رامسیس ثالث کے کتبوں میں یہ نام ’’درمیسک‘‘ کی شکل میں ملتا ہے۔ گیارہویں صدی ق م میں دمشق سرزمین ارم کا بارونق مقام تھا۔ جس کا حوالہ حضرت ابراہیمؑ کے قصے میں بھی ملتا ہے۔ حتیٰ کہ آج بھی مسلمان دمشق کے شمال میں مقام برزہ کی مسجد کو حضرت ابراہیمؑ سے منسوب اور مقدس سمجھتے ہیں۔ روایات کے مطابق یہ مقام ان کی ولادت کا مقام تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی زمانے میں آرامیوں نے اس شہر کا ’’جالی نما‘‘ نقشہ تیار کیا، جس کے بازار بخط مستقیم ایک دوسرے کو قطع کر کے چوراہے بناتے تھے۔ یہ نقشہ دو ہزار ق م کے بابل اور آشور کے مشابہ تھا۔ ہمیں ایک مذہبی قصے سے پتا چلتا ہے کہ دسویں صدی ق م میں جبل قاسیون کی ڈھلوانوں کے ساتھ ساتھ ایک نہر کھودی گئی تھی جو اس علاقے کو سیراب کرتی تھی۔ اسی زمانے میں یہ شہر حضرت داؤدؑ کے ہاتھوں فتح ہوا لیکں حضرت سلیمانؑ کے عہد میں دمشق کے بادشاہ نے شمالی شاہان آشور اور جنوب کے ملوک اسرائیل کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی۔ 723 ق م میں تگلت پلاسر سوم کے آشوری لشکر نے دمشق کی بادشاہت کا خاتمہ کر دیا اور شہر پر قبضہ کر کے اس کے معبد اور شاہی محل کو لوٹ لیا، جس کا کچھ سامان 1940ء کی کھدائی میں بالائی عراق کے علاقے سے نکلا ہے۔ اس کے بعد آٹھویں صدی ق م میں یہ آشوریوں، ساتویں صدی میں بابلیوں، چھٹی صدی میں ہخامنشیوں، چوتھی صدی میں یونانیوں اور پہلی صدی ق م میں بازنطینیوں کے قبضے میں رہا۔ 333 ق م سکندراعظم نے دمشق فتح کیا۔ یہ ایک بڑی اہم فتح تھی اس فتح سے تقریباً 635ء تک یہ شہر مغرب کے زیراثر رہا۔ اس کے یونانی عہد اقتدار کو مؤرخین نے تین دوروں پر تقسیم کیا ہے۔ ایک بطلیموسی، دوسرا سلوقی اور پھر 90 ق م کے قریب دیمتریس نے یہاں ایک جدید یونانی سلطنت قائم کی جس سے یہ شہر پھر سے ترقی یافتہ بن گیا۔ 85 ق م میں یہ شہر پہلی مرتبہ بازنطینی قبضے میں آیا۔ 64 ق م میں پومپی نے شام کو رومی سلطنت کا صوبہ بنایا اور یہ شہر 395ء تک رومیوں کے زیراثر رہا۔ بعدازاں بازنطینیوں نے اسے اپنا صوبہ قرار دیا۔
 

Back
Top