Daur e Qadeem Aur Ehad e Wusta Ke Aham Kutab Khanay By Dr Abdul Mahmood

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
دورِقدیم اور عہد وسطیٰ کے اہم کتب خانے ..... تحریر : ڈاکٹر عبدالمحمود

Kutab.jpg


کتب خانہ کتابوں کے منظم ذخیرے کا نام ہے، جو علم کے طلب کرنے والوں کے استعمال کے لیے جمع کیا گیا ہو۔ اس کو انگریزی میں لائبریری کہتے ہیں۔ لفظ لائبریری لاطینی لفظ لِبر سے مشتق ہے جس کے معنی کتاب کے ہیں۔ کتب خانہ میں مطبوعہ کتابیں، رسائل، کتابچے، مخطوطات اور دیگر نوشتے اور ان کی کسی نہ کسی طرح سے لی گئی نقلیں جمع کی جاتی ہیں۔ موجودہ زمانے میں کتب خانوں میں کتابوں کے علاوہ غیر کتابی اشیا جیسے تصاویر، نقشے، گلوب، خاکے، نمونے اور فلمیں وغیرہ بھی رکھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آڈیو کتابیں اور بریل کتابیں جو نابیناؤں لیے ہوتی ہیں، کتب خانوں میں رکھی جاتی ہیں۔

قدیم زمانے میں بابلی، فینیقی، اشوری، کلدانی، حتّی، یونانی، رومی، مصری، چینی اور ہندوستانی تہذیبوں میں کتب خانوں کے وجود کا پتہ چلا ہے لیکن ان میں کتابیں کم اور حکومتی یا مذہبی ریکارڈ کا ذخیرہ زیادہ ہوا کرتا تھا۔ نینوا سے برآمدشدہ مٹی کی تختیاں، جن کی کچھ باقیات برٹش میوزیم میں ہیں، اس کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ بابلی بادشاہ آشور بانی پال (وفات 631قبل مسیح) کا ایک شاہی کتب خانہ تھا۔ یونان میں 600 قبل مسیح میں دو بڑے شاہی کتب خانے تھے، ایک ایتھنز میں، دوسرا پرگامم میں۔ افلاطون اور ارسطو نے اپنی علمی تحقیقات کے لیے کتب خانے قائم کیے تھے۔ سکندراعظم نے بھی سکندریہ میں ایک بڑا کتب خانہ قائم کیا تھا۔ اس کے جانشینوں نے، جنہوں نے بعد میں علیحدہ علیحدہ سلطنتیں قائم کر لیں، اپنے اپنے دارالحکومتوں میں کتب خانے قائم کیے تھے۔ سلطنت روما میں بھی بڑے بڑے کتب خانے قائم تھے۔ کریٹس نامی ایک محقق کے بیان سے پتہ چلتا ہے کہ روم میں اپولو، ٹائبریس اور الپین کے کتب خانے مشہور تھے۔ بابلی کتب خانوں سے پہلے مصری کتب خانے ترقی یافتہ شکل میں موجود تھے۔

عہد وسطیٰ پانچویں صدی عیسوی سے شروع ہو کر اٹھارویں صدی عیسوی پر ختم ہوتا ہے۔ عہدوسطیٰ میں مسلمانوں کے قائم کردہ کتب خانوں کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ قرآن مجید کی ابتدا لفظ ''اقرا‘‘ یعنی پڑھو سے ہوئی۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ نے ہر مسلمان پر علم کا حاصل کرنا واجب قرار دیا، خواہ اس میں کتنی ہی مشقت برداشت کرنی پڑے۔ ایسی تعلیمات سے سرشار ہو کر مسلمان جہاں کہیں گئے وہاں مساجد تعمیر کروائیں اور ان کے ساتھ ساتھ مدارس اور کتب خانے قائم کیے۔ مدینہ میں کتب خانہ محمودیہ اور کتب خانہ عارف حکمت بے کا قیام عمل میں آیا۔ خلیفہ ہارون الرشید نے بیت الحکمت کے نام سے ایک بہت بڑا کتب خانہ اور تالیف و ترجمہ کا مرکز قائم کیا۔ بیت الحکمت کے علاوہ بغداد کے مشہور کتب خانوں میں مدرسہ نظامیہ کا کتب خانہ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا کتب خانہ اور مدرسہ مستنصریہ کا کتب خانہ شمار کیے جاتے ہیں۔ تیرہویں صدی عیسوی میں ہلاکو کے حملے کے دوران یہ کتب خانے تباہ ہو گئے۔ قاہرہ میں فاطمی خلیفہ عزیزباللہ نے ایک بڑا کتب خانہ خزائن القصور قائم کیا۔ اس میں ہزاروں کتابیں جمع کی گئیں۔ اس کے علاوہ قاہرہ کے کتب خانوں میں کتب خانہ دارالعلوم بھی بہت مشہور تھا۔ چھٹی صدی ہجری میں کردوں کے حملے کے دوران یہ بیش بہا علمی خزانہ تخت و تاراج ہوا۔

جامعہ ازہر کا کتب خانہ جو فاطمی دور کی یادگار ہے، اب تک موجود ہے۔ حضرت علیؓ نے جب کوفہ کو اسلامی سلطنت کا پایۂ تخت بنایا، تو بصرہ کی بھی اہمیت بڑھ گئی۔ یہ دونوں شہر علم و فن کے بڑے مرکز بنے۔ یہاں بڑے بڑے علما پیدا ہوئے۔ جگہ جگہ مدرسے اور کتب خانے بنائے گئے۔ دمشق میں خلیفہ ولید اول کی بنائی ہوئی جامعہ دمشق بہت مشہور ہوئی جس میں ایک مدرسہ اور کتب خانہ تھا۔ یہ دنیا کی خوب صورت عمارتوں میں شمار کی جاتی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق دمشق میں 927ء میں 320 کتب خانے تھے۔ ان کے علاوہ طرابلس، حلب، سمرقند، بخارا، غزنی، ہرات، نیشا پور، مرو، بلخ، طوس، شیراز، اور قسطنطنیہ بھی علم و ادب کے مراکز رہے جن میں ان گنت مدرسے اور کتب خانے قائم کیے گئے۔ ان شہروں میں مسلمانوں نے علم و ادب اور فن کی قیمتی یادگاریں چھوڑیں۔

شمالی افریقہ کے بربر خاندانوں میں ادریسی، مرابطی، موحدی اور مرینی نے یکے بعد دیگرے حکومتیں قائم کیں۔ یہاں کے مشہور شہروں تیونس، رباط، قیروان، مراقش، فاس، الجزائر وغیرہ میں متعدد مسجدیں، مدرسے اور کتب خانے قائم کیے گئے۔ ان میں جامعہ زیتون، تیونس کا کتب خانہ اب بھی موجود ہے۔ اس طرح اندلس میں متعدد مسجدیں سیکڑوں مدرسے اور کتب خانے قائم کیے گئے جن میں قرطبہ، اسبیلا، طبلطہ اور غرناطہ کی جامعات بہت مشہور ہیں۔ صرف قرطبہ شہر میں آٹھ سو اور غرناطہ میں 137 مدرسے تھے۔ یوں تو اندلس کے تمام بادشاہ کتب خانوں کو توسیع دیتے رہے لیکن خلیفہ الحکم ثانی کا نام تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔ اس کے کتب خانے میں لاکھوں کتابیں جمع کی گئی تھیں جن کی فہرست 44 جلدوں میں مرتب کی گئی۔ اس میں عربی کے علاوہ یونانی اور عبرانی کی کتابیں تھیں۔ جامعہ قرطبہ سے سلویسٹر دوم نے تعلیم حاصل کی جو 991ء میں پوپ کے جلیل القدر عہدے پر فائز ہوا۔ ابن رشد، ابن سینا اور فارابی جیسے علما یہیں کی درسگاہ سے نکلے، جن کی تصانیف پڑھنا ابتدا میں یورپیوں کے نزدیک گناہ خیال کیا جاتا تھا، لیکن 1473ء میں کتابیں یورپی درسگاہوں کے نصاب میں داخل کی گئیں۔

وسطی دور میں یورپ میں کتب خانوں کی توسیع کی رفتار تیرہویں صدی تک بہت سست رہی۔ کتب خانے یا تو خانگی اور شاہی تھے، یا مذہبی اداروں کلیسا اور خانقاہوں سے ملحق تھے۔ تیرہویں اور چودہویں صدی عیسوی کے دوران یورپی ممالک کے مشہور شہروں جیسے آکسفورڈ ، بلونا ، پیرس، کیمبرج، سالا مانکا، پراگ اور ویانا میں جامعات کا قیام عمل میں آیا۔ کلیسا وغیرہ کے کتب خانوں کی اہمیت گھٹ گئی۔ پندرہویں صدی عیسوی میں مارٹن لوتھر کی تحریک اصلاح مذہب عام ہوئی۔ تاریخ جہاز رانی، ریاضی اور فلکیات میں دلچسپی بڑھ گئی۔ لکھنے کے لیے سستا کاغذ مہیا ہونے لگا اور متحرک ٹائپ ایجاد ہوا۔ کتابوں کی طباعت عمل میں آنے لگی۔ اس لیے کتب خانوں کی ترقی کی رفتار تیز ہو گئی۔ سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں قومی اور جامعاتی کتب خانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس دور کے مشہور کتب خانوں میں اسکوریال کا کتب خانہ (سولہویں صدی)، سر تھامس بوڈلے کا کتب خانہ (سترہویں صدی) اور وٹیکن کا کتب خانہ شامل ہیں۔

برصغیر کے تمدن کے آثار ہزاروں برس قبل مسیح کے ہیں۔ ویدوں کی تعلیمات کے مطابق مقدس کتابوں کا لکھنا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ وید اور پران کو یاد کر لیا جاتا تھا۔ اس لیے کتابوں کا ذخیرہ قدیم ہندوستان کے کتب خانوں میں بہت کم تھا۔ جب بدھ مت کی نشرواشاعت عمل میں آئی اور بدھوں نے اپنی خانقاہوں میں مذہبی کتابوں کے کافی ذخائر جمع کر لیے تو ساتویں صدی عیسوی سے ہندوؤں میں بھی کتابوں کا لکھنا عام ہو گیا اور شنکر اچاریہ، رامانج جیسے لوگوں نے بھی اس خیال کو کافی تقویت پہنچائی۔ ویدوں، پرانوں اور دھرم شاستروں پر کافی لکھا جانے لگا۔ اس لیے کتب خانوں میں کتابوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا۔ برصغیر کی قدیم جامعات نالندہ، ٹکسلا، متھرا، ترھوت، اجین، وارانسی اور پشیاگری میں کتب خانے موجود تھے جن کا ثبوت چینی سیاح فاہیان اور ہیون سانگ کے بیانات سے ملتا ہے۔

برصغیر کے وسطی دور میں مسلمانوں نے علم کی نشرواشاعت اور کتب خانوں کی توسیع میں نمایاں کام انجام دیے۔ اس دور میں بلبن اور فیروز تغلق نے کتب خانوں کو ترقی دی۔ ابتدا میں بیجاپور، گولکنڈہ، جونپور، خاندیس، گجرات اور بنگال کے حکمرانوں کے پاس کتب خانے موجود تھے۔ میوات کے غازی خان اور کشمیر کے زین العابدین کے پاس کتب خانے موجود تھے۔ علما و مشائخ کے طبقہ میں حضرت نظام الدین اولیاؒ کا کتب خانہ بہت بڑا تھا۔ مغل شہنشاہوں نے جہاں برصغیر کو فن تعمیر کے بے مثال نمونوں سے نوازا وہاں بڑے بڑے کتب خانے بھی قائم کیے۔ عوام کو ان سے استفادہ کی عام اجازت تھی۔ ان میں قابل ذکر ہمایوں، اکبر، داراشکوہ، اعتماد خان گجراتی، عبدالرحیم خانخاناں اور فیضی کے کتب خانے تھے۔ اس دور کے کتب خانوں کی عمارتیں شان و شوکت کے لحاظ سے مشہور تھیں۔ ان میں سنگ مرمر کا فرش ہوتا اور روشنی کا خاص اہتمام کیا جاتا۔ دالان وسیع ہوتے، کتابوں کو گرمی اور رطوبت کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے خصوصی انتظامات ہوتے۔ کتابوں کی ترتیب کا انتظام اتنا اچھا ہوتا کہ مطلوبہ کتاب تھوڑی دیر میں مل جاتی۔​
 

Back
Top