Mental Health Dimaghi Sehat Ko Darpaish Challenges By Khalid Najeeb Khan

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
دماغی صحت کو درپیش چیلنجز

brain.jpg

تحریر : خالد نجیب خان

بڑی بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں صحت کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ۔ اپنی صحت کے بارے میں جب آپ خود ہی فکر مند نہ ہوں گے تو پھرکوئی اور کیوں ہوگا؟ہمارے ارد گرد کم ہی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ دوسروں کی صحت کا بھی خیال کرتے ہیں۔

یہ تو عام جسمانی صحت کے حوالے سے بات ہے ،دماغی صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو بظاہر جسمانی طورپر اچھے خاصے صحتمند لوگ بھی اپنی دماغی صحت پر توجہ نہیں دیتے ۔ دنیا بھر میں30فیصد سے زیادہ لوگ دماغی صحت کے مسائل سے دو چار ہیں جبکہ پاکستان میں اِس کی شرح کہیں زیادہ ہے۔اِس وقت ہمارے ہاںبے چینی یعنی انزائیٹی کا مرض بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے جسکی وجہ سے ڈپریشن اور پھر خود کشیوں کی شرح بڑھ رہی ہے ۔منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان بھی اِسی وجہ سے ہے۔ زیادہ تشویشناک بات تو یہ ہے کہ نوجوان نسل میں یہ مسائل زیادہ ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔

سائیکالوجسٹ مدیحہ اعجاز کے مطابق انزائیٹی یا بے چینی کی ایک بڑی وجہ بہت زیادہ انفارمیشن بھی ہے۔آج کے دور میں جبکہ انٹرنیٹ کی رسائی ہر کسی کے پاس ہے ،اِس سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان ہو رہا ہے۔ایک عام شخص جسکے پاس بنیادی تعلیم یا علم ہی نہیں ہے ،وہ جب انٹرنیٹ پر بہت زیادہ ایڈوانس قسم کی معلومات حاصل کرتا ہے تو یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے حالانکہ اُس نے تو سمندر میں سے ایک قطرہ بھی نہیں لیا ہوتا۔اسی غلط اور خوش فہمی کیساتھ جب وہ عملی زندگی میں لوگوں کے ساتھ معاملات کرتا ہے تو اُسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے اُسکے اندربے چینی پھیلنے لگتی ہے اور پھر دیگر ذہنی بیماریاں آنے لگتی ہیں۔

اِن تمام مسائل سے نبٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ والدین خصوصاًمائیں اپنے بچوں کو وقت دیں، خصوصاًپانچ سال تک کی عمرکے بچوں کو تو بھر پور وقت دیں ۔ کلینک کی پریکٹس کے دوران میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ نوجوان نسل کی خرابی کی بڑی وجہ ماؤں کی عدم توجہی ہے۔مائیں اپنے سکون اورآرام کی خاطر اپنے اُن بچوں کو کارٹونز ٹی وی یا انٹر نیٹ کے حوالے کردیتی ہیں جن کی پرورش اُنہوں نے خود کرنا ہوتی ہے ۔ماں کے وقت کے بغیر بچے ’’بچے‘‘ نہیں رہتے بلکہ بچپن میں ہی بڑے ہوجاتے ہیں۔اُن کے بچپنے کا یہ بڑا پن ہی دراصل بہت سی خرابیوں کا سبب بنتا ہے۔لہٰذا اپنے بچوں کو اُن کا بچپن ضرور دیجئے اور یہ صرف اور صرف اُنہیں پورا وقت دینے سے ہی ممکن ہے۔
ایک مرتبہ میرے پاس ایک کیس آیا ، سات سال کا ایک بچہ اپنے بیگ میں چاقو لے کر سکول چلا گیا اور اُس سے وہ اپنے ساتھیوں کو زخمی کررہا تھا۔معلو م ہواکہ وہ گھر پروڈیو گیم کھیلتا ہے جس میں ایک کردار چاقو سے دوسرے کرداروں کو مار تا ہے مگر مرنے واالے کردار دوبارہ جی اُٹھتے ہیں۔ اُس بچے کے ذہن میں بھی وہی چاقو اور چاقو بردار کردار تھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ چاقو سے زخم لگنے کے بعد وہ بھی دوبارہ جی اُٹھیں گے۔ اِس طرح کی بیشمار کہانیاں موجودہیں ۔

راقم الحروف نے کہا کہ اِس طرح کے ویڈیو گیمز ،کارٹونز اور ڈرامے دراصل ایک مقصد کے تحت ہی ٹی وی چینلزکے ذریعے عوام الناس تک پہنچائے جارہے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ حقیقی معنی میں ترقی کرتی ہوئی قوم کو پسماندگی کی طرف دھکیل دیا جائے۔بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگ کارٹونز ، ٹی وی اور انٹرنیٹ وغیرہ کو محض وقت گزارنے کیلئے ہی دیکھتے ہیں یہی وجہ کہ وہ وقت گزارتے ہیں تو وقت اُنہیں گزار دیتا ہے اور اُنہیں ہوش اُس وقت آتا ہے جب وہ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہتے۔سب سے بڑی ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے بعض میڈیا ہاؤسز کام تو پاکستان میں کررہے ہوتے ہیں مگر کر کسی اور ملک کیلئے رہے ہوتے ہیں۔ بچوں اور نوجوان نسل کی تربیت جب تک اِن خطوط پر جاری رہے گی یہ مسائل نہ صرف بدستور رہیں گے بلکہ اِن میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔اِس سے نجات کا واحد راستہ محض وہی ہے جو محترمہ مدیحہ اعجاز صاحبہ نے بتایا ہے۔اِس کا یہ مطلب ہرگز نہ سمجھا جائے کہ ہم انٹرنیٹ اور دیگر جدیدآلات کا استعمال بالکل ترک کردیں بلکہ ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کس گیجیٹ کی ہمیں کب ،کہاں،کیوں،کیسے اور کتنی ضرورت ہے۔ ضرورت کے عین مطابق جب یہ گیجیٹس استعمال ہوں گی تو پھر یقیناً صرف فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔

ڈاکٹر فواد احمد رائے نے خصوصی بچوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسان کی اصل قوت مسلز، ہتھیاروں ، اسلحہ ،جہازوں وغیرہ میں نہیں ہے بلکہ محبت ہی اصل قوت ہے۔ دنیا والے جن چیزوں کو اپنی قوت خیال کرتے ہیں، اُنہیں بظاہر قوت تو قرار دیا جاسکتا ہے مگر اصلی ہر گز نہیں۔ بیشک اصلی قوت محبت ہی ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ خصوصی بچوں میں پیار کرنے کا جذبہ عام بچوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔آپ اُن کے پاس جائیں تو آپ کو بھی پیار ملے گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ جس کو پیار مل جائے تو پھر اُسے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔

خصوصی بچوں کی ماہر ثمریز حفیظ کے مطابق خصوصی بچوں کی اصطلاح پاکستان میں گزشتہ چار دہائیوں سے مستعمل ہے ۔اِس سے قبل جو الفاظ اِن کیلئے استعمال ہوتے تھے اُن میں تحقیر کا پہلو محسوس ہوتا تھا۔ پھرخصوصی بچے اور اسپیشل چلڈرن کی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔اب اِس میں بھی ایک خصوصی احساس ملنے لگا ہے جس سے اِن بچوں کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے،اِسی لئے اِن کیلئے ’’چلڈرن وِد مینٹل ہیلتھ چیلنجز کی اصطلاح متعارف کرائی جارہی ہے۔اب اِس رجحان کو بھی فروغ دیا جارہا کہ اِن بچوں کو خصوصی سکولوں اور تعلیمی ادروں کی بجائے نارمل سکولوں میں ہی زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ یہ معاشرے کے زیادہ فعال شہری بن سکیں اور خود بھی معاشرے سے زیادہ اور بہتر انداز میں فوائد حاصل کرسکیں۔ ہمارے پاس ہر روز سائیکالوجسٹ، سائیکائٹرسٹ اور فزیو تھراپسٹ آتے ہیں جو ہماری مستقل ٹیم کا حصہ ہیں،اِسکے علاوہ بھی رضا کار خواتین و حضرات بھی آکر اِن بچوں کی خدمت کرتے ہیں۔یہاں آنے والے بچے زیادہ تر ایسے ہیں جنہیں مینٹل چیلنجز کے ساتھ ساتھ کئی طرح کے سماجی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔کیونکہ اِن میں سے ایسے بھی بچے ہیں کہ جن کو اُن کے والدین یہاں چھوڑ تو گئے ہیں مگر وہ اُن کی خبر گیری نہیں کرتے ۔کبھی کبھار کوئی چکر لگا لیتا ہے مگر زیادہ تر کو فون کر کے بلانا ہی پڑتا ہے اُن میں سے بھی کئی تو پھر بھی رابطہ ہی نہیں کرتے۔باقاعدگی سے چکر لگانے والے یا اپنے بچوں کی خبر گیری کرنے والے والدین کم ہی ہیں۔اِس کی وجہ شائد یہی ہے کہ یہاں وہی بچے پہنچتے ہیں جن کے والدین اُنہیں افورڈ نہیں کررہے ہوتے ۔ دراصل لوگ اِن بچوں کو بیکار خیال کررہے ہوتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی جان پیدا کی ہے اُس کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے ۔اب وہ مقصد اُن والدین کو بھی سمجھ نہ آئے تو پھر کسی نہ کسی کو تو اِسے سمجھنا ہی ہوتا ہے۔ہم اِن بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بننے کے قابل بناتے ہیں۔جب تک بچے یہاں رہتے ہیں وہ اِس قابل ہو جاتے ہیں کہ کوئی ہنر سیکھ سکیں۔ہنر سکھانے کیلئے دوسرے ادارے ہیں جیسے حکومت پنجاب کا ادارہ نشیمن ہے،وہاں پر اِنہیں فنی تعلیم دی جاتی ہے ۔اگر کسی وجہ سے اِن کا داخلہ نہ ہوسکے تو پھر اُنہیں ایدھی ہوم میں بھیج دیا جاتا ہے۔​
 

Back
Top