Saad Sheikh
Founder
Staff member
11
- Messages
- 5,986
- Reaction score
- 15,963
- Points
- 716
حکومت کی جانب سے لاک ڈاون میں نرمی کے باعث کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ ساتھ دیگر ضروریات زندگی کی دکانیں بھی کھل گئی ہیں اور اب جب کہ عید الفطر قریب ہے اور دو مہینے کے لاک ڈاؤن کے باعث لوگوں کو عید کی تیاری کا یہ نادر موقع ملا ہے اس وجہ سے پوری قوم صبح آٹھ بجے سے ہی سڑکوں پر نظر آ رہی ہے اور بازاروں میں غیر معمولی رش دیکھنے میں آیا ہے۔
اگرچہ ان حالات میں خریداری کے لیے آنے والوں اور دکانیں کھولنے والے دکانداروں نے پہلے ہی مکمل ایس او پیز جاری کر دیے ہیں مگر اس کے باوجود نہ تو سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھا جا رہا ہے اور نہ ہی ماسک وغیرہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہاتھوں کو جراثیم سے بچانے کا تو تصور بھی کرنا محال نظر آرہا ہے۔ دوکاندار حضرات سے لے کر خریدار تک کسی کو ایسی کسی بات کی پرواہ نظر نہیں آرہی۔ ہم جیسے لوگ کورونا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر لکھ لکھ تھک گئے۔ ہاتھوں کو بار بار دھونے اور چہرے کو بار بار چھونے سے روکنے کے ہزار جتن کرلئے۔ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی تلقین کرتے کرتے منہ دکھ گئے مگر یہ عوام ایک کان سے سن کے دوسرے سے باآسانی نکال دیتی ہے۔ نصیحتیں کرنے والوں کا منہ چڑا دیتی ہے۔
دوسری جانب کورونا کیسز روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے زائد نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ مجموعی تعداد 38 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ 800 سے زائد جاں بحق ہوچکے۔ ہمارے وزیراعظم کو قوم کے بھوکے مرنے کی فکر لگی ہے اور عوام بازاروں میں بھڑ بکریوں کے آزاد ریوڑ کی مانند بھاگی چلی جارہی ہے۔ عید شاپنگ کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
ایسے میں کوئی کسی سے کیا کہے؟ کون رکے گا کون سنے گا کون سمجھے گا؟ پھر بھی سوال کرنے میں کیا جاتا ہے؟ سوال یہ ہے کیا واقعی عید کی شاپنگ اتنی ضروری ہے کہ اس کیلئے سب کچھ داؤ پر لگایا جا سکتا ہے؟ کیا عید کی شاپنگ کے بغیر عید نہ ہوگی؟ عید کا چاند نہ چڑھے گا؟ عید کی نماز نہ ہوگی؟ ایک ایسے سخت آزمائش کے وقت میں جب سیکڑوں لوگ مر چکے ہیں، ہزاروں ہسپتال میں پڑے ہیں، بےموسمی بارشوں سے فصلیں خراب ہورہی ہیں، لاک ڈاؤن کے باعث لاکھوں بےروزگار ہوگئے، غربت و افلاس گھر گھر دستک دے رہی ہے۔۔۔ مگر پھر بھی ہم احتیاط کرنے کو تیار نہیں۔ اپنا نہیں تو اپنے پاس کے لوگوں کا سوچیئے۔ آدھا پاکستان ارطغرل غازی دیکھ رہا ہے اور باقی آدھا پاکستان بازاروں میں گھمسان کی شاپنگ لڑ رہا ہے۔ ہوش کے ناخن لیں اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے اور پھر سے لاک ڈاؤن سخت کرنا پڑجائے۔
اگرچہ ان حالات میں خریداری کے لیے آنے والوں اور دکانیں کھولنے والے دکانداروں نے پہلے ہی مکمل ایس او پیز جاری کر دیے ہیں مگر اس کے باوجود نہ تو سوشل ڈسٹینسنگ کا خیال رکھا جا رہا ہے اور نہ ہی ماسک وغیرہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہاتھوں کو جراثیم سے بچانے کا تو تصور بھی کرنا محال نظر آرہا ہے۔ دوکاندار حضرات سے لے کر خریدار تک کسی کو ایسی کسی بات کی پرواہ نظر نہیں آرہی۔ ہم جیسے لوگ کورونا سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر لکھ لکھ تھک گئے۔ ہاتھوں کو بار بار دھونے اور چہرے کو بار بار چھونے سے روکنے کے ہزار جتن کرلئے۔ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی تلقین کرتے کرتے منہ دکھ گئے مگر یہ عوام ایک کان سے سن کے دوسرے سے باآسانی نکال دیتی ہے۔ نصیحتیں کرنے والوں کا منہ چڑا دیتی ہے۔
دوسری جانب کورونا کیسز روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے زائد نئے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں۔ مجموعی تعداد 38 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ 800 سے زائد جاں بحق ہوچکے۔ ہمارے وزیراعظم کو قوم کے بھوکے مرنے کی فکر لگی ہے اور عوام بازاروں میں بھڑ بکریوں کے آزاد ریوڑ کی مانند بھاگی چلی جارہی ہے۔ عید شاپنگ کے شور میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
ایسے میں کوئی کسی سے کیا کہے؟ کون رکے گا کون سنے گا کون سمجھے گا؟ پھر بھی سوال کرنے میں کیا جاتا ہے؟ سوال یہ ہے کیا واقعی عید کی شاپنگ اتنی ضروری ہے کہ اس کیلئے سب کچھ داؤ پر لگایا جا سکتا ہے؟ کیا عید کی شاپنگ کے بغیر عید نہ ہوگی؟ عید کا چاند نہ چڑھے گا؟ عید کی نماز نہ ہوگی؟ ایک ایسے سخت آزمائش کے وقت میں جب سیکڑوں لوگ مر چکے ہیں، ہزاروں ہسپتال میں پڑے ہیں، بےموسمی بارشوں سے فصلیں خراب ہورہی ہیں، لاک ڈاؤن کے باعث لاکھوں بےروزگار ہوگئے، غربت و افلاس گھر گھر دستک دے رہی ہے۔۔۔ مگر پھر بھی ہم احتیاط کرنے کو تیار نہیں۔ اپنا نہیں تو اپنے پاس کے لوگوں کا سوچیئے۔ آدھا پاکستان ارطغرل غازی دیکھ رہا ہے اور باقی آدھا پاکستان بازاروں میں گھمسان کی شاپنگ لڑ رہا ہے۔ ہوش کے ناخن لیں اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے اور پھر سے لاک ڈاؤن سخت کرنا پڑجائے۔