Safar Nama Duniya Khoobsurat Hai by Ata ul Haq Qasmi

Status
Not open for further replies.
Heer

Heer

New Member
Invalid Email
11
 
Messages
5,100
Reaction score
7,233
Points
701
عطاء الحق قاسمي
دنيا خوبصورت ہے

شانتي شانتي:
ہماري فلائٹ رات کو تين بجے براستہ بنکاک سنگاپور کيلئے روانہ ہونا تھي جہاں ايک رات قيام کے بعد ہميں اگلے روز آسڑيليا کيلئے روانہ ہونا تھا، اس وقت دوپہر کے دو بج چکے تھے، ہمارا سامان ہوٹل مڈوے پي آئي اے کي تحويل ميں ہے، اور اس اچھے خاصے معقول ہوٹل کي بے انتظامي ديکھ کر
خراب کرگئي شاہيں بچے کو صحبت زاع
والا مصر عہ ياد آگا، ميں نے اپنے کمرے سے برادر بزرگ ضياالحق قاسمي سے رابطہ قائم کرنے کيلئے آپريٹر کو انکو فون نمر ديا، جب لافي دير تک اس نے فون نے ملايا ميں دوبارہ موصوفہ سے دست بستہ درخواست کي جس پر انہوں نے جھاڑ پلادي، اتني بے صبري کي ضرورت نہيں، اکيلي جان اور اتنا کام، آپ انتظار کريں، اور ديکھيں دوبارہ کال کي ضرورت نہيں ، جب آپ کي باري آئے گي ميں آپ کو خود اطلاع کروں گي، بٹ صاحب ميرے روم ميٹ تھے، ان کي جلالي طبعيت جوش ميں آنے ہي کوتھي، کہ ميں نے وہيں بند باندھے بس جانے ديں ، يہاں ہمارا قيام دنيائے فاني کي طرح چند روز ہي نہيں بلکہ چند گھنٹوں کا ہے، لہذا شانتي شانتي۔
 
راجہ اندر:
ہماري پہلي منزل بنکاک تھي، اور بنکاک تک ہميں تھائي ائيرويز نےلے جانا تھا، فلپس کپمني نے اس مطالعاتي اور تفريحي دورے کا اہتمام ان 34 ڈيلروں کي ضيافت طبع کيلئے کيا تھا، جن کا تعلق ملکے کے چاروں صوبوں سے تھا اور جنہوں نے خود کو بہتر ڈيلر ثابت کيا تھا، ميري حيثيت مبصر کي تھي، گروپ ميں جوان بھي تھے بوڑھے بھي، زاہد تھے، رند بھي اوروہ بھي جن کيلئے شاعر نے کہا ہے۔
رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئي۔
سو ميرے آئندہ کئي روز رنگ برنگے انسانوں کي اس کاک ٹيل کے ساتھ بسر ہونا تھے، نشہ تو آنا ہي تھا۔
جہاز پرواز کيلئے اپنے پر پھيلائے اور تھوڑي دير بعد روشنيوں سے جگمگ جگمگ کرتا کراچي ہماي نظروں سے اوجھل ہوتا چلاگيا، روشنيوں کا شہر اب ويسے بھي آنکھوں سے اوجھل ہوتا چلا جارہا تھا اور اس کي جگہ اندہيروں کے اس شہر نے لے لي، جہاں ہاتھ کو ہاتھ سجھائي نہيں ديتا، پرواز نارمل ہوتے ہي تھائي ميزبان لڑکيا حرکت ميں آگئيں اور انہوں نے ساق گري شروع کي، ان تھائي لڑکيوں کے خدوخال ويسے تھے جسيے تھائي لڑکيوں کے ہوتے ہيں، ليکن تھوڑي ہي دير بعد ان کي ريشم ايسي اکن جس کي تعريف وارث شاہ نے بھي کي ہے، حسن اخلاق، نرم و نازک ہاتھ اور ان ہاتھون ميں پيش کئے گئے، پيمانوں کے زير اثر مسافروں نے محسوس کيا کہ وہ پريوں کے جھرمٹ ميں ہيں ، چناچہ ان ميں کئي ايک نے خود کو باقاعدہ راجہ اندر محسوس کرنا شروع کرديا، ميرے کچھ ہم سفر للچائي نظروں سے مينا وجام اور اس کے ساتھ ايک دوسرے کو کنکھيوں سے ديکھتے رہے کہ شايد گروپ ميں سے کوئي جرات رندانہ سے کام ليتے ہوئے مے نوشي آغاز کرے تو وہ بھي ہاتھ بڑھا کر جام اٹھاليں مہر ہم لوگ اتنا اللہ سے نہيں ڈرتے جتنا ايک دوسرے سے ڈرتے ہيں چناچہ الحمد اللہ سب نے کوک پر اکتفا کيا۔
 

اپنے مرزا صاحب:
وفد کے قائد اطہر حليم اپني نشست پر اب اطمينان اور سکون سے بيٹھے تھے، جو اطمينان اور سکون زچہ، زچگي کے مراحل طے کرنے کے بعد محسوس کرتي ہے، ہم سب لوگوں نے جہاز ميں سوار ہونے تک ان کي مت ماري ہوئي تھي، اور ظاہر ہے ايسے ہونا ہي تھا، کہ يہ کوئي ملک کي سربراہي تو نہيں تھي، کہ سربراہ کا مسائل سے کوئي تعلق ہي نہ ہو، ميرے ہم سفروں ميں سرگودھا کے حميد وائيں، مجيد وائيں اور شاہد بھي تھے، وائيں فيملي سے ہمارے گھريلوں تعلقات ہيں، ليکن ان کے ساتھ زيادہ وقت گزارنے کا موقع اس سفر کے دوران ہي ميسر ہو اور ميں نے محسوس کيا کہ انکا ظاہر ہي نہيں ان کا باطن بھي خوبصورت ہے، شاہد سے ميرا پہلا تعرف تھا، يہ ہنس مکھ نوجوان سارے سفر کے دوران گلاب کي طرح کھلتا اور کھلکھلاتا رہا، باقي مسافروں کا تعارف ميں آپ کو باري باري کرائوں گا ليکن اس سے پہلے مرزا عبد القيوم کا تعارف ضروري ہے، چند برس پيشتر مرزا صاحب سے تعلق پيدا ہوا تو برسوں پراني دوستيوں پر حاوي ہوگيا، وہ گذشتہ تيس برس سے ميرے کالم کے قاري ہيں، يہ قاري کا لفظ تو ميں نے استعمال کيا ہے وہ اس کيلئے حافظ کا لفظ استعمال کرتے ہيں، معذرت کے ساتھ ليکن کاروباري حضرات ميں اسيے صاحب دل بہت کم ہوتےہيں جو دل کے معاملات ميں بھي کاروبار سے صرف نظر کرسکيں، کسي زمانے ميں ميرے پاس اسکوٹر ہوتا تھا، ايک دفعہ اس کي ورر ہالنگ کي نوبت آگئي تو اسپئير پارٹس خريدنے ميں ميکاوڈروڈ گيا، جب سيلز ميں بل بنناے لگاتو دکان مالک آگا مجھے ديکھ کر وہ ديوانہ اور ميري لپکا اور انتہائي گرم جوشي سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا قاسمي صاحب ميں آپ کي تحريروں کا عاشق ہوں، ميں کتنا خوش نصيب ہوں کہ آج آپ سے ملاقات ہوگئي پھر اس نے چائے کا آرڈر ديا اور دوران وہ مسلسل ميرے بارے ميں ايسے تصريفي کلمات کہتا رہا جن کا ميں خود کو مستحق نہيں سمجھتا تھا، اتنے ميں سيلز ميں نے بل بنا کر مالک کو دي اتو وہ غصے سے لال پيلا ہو کر کہنے لگا، يہ کيا بنا کر لائے ہوں، جانتے نہيں يہ عطاالحق قاسمي صاحب ہيں جو ہماري قوم کا سرمايہ ہيں، پانچ سو بارہ روپے چھ آنے ميں سے يہ بارہ روپے چھ آنے نکالو اور دوبارہ بل بنائو، تم لوگ قوم کے محسنوں کي عزت کرنا جانتے ہي نہيں ۔۔۔بے وقوف جاہل، مجھے يوں لگا جيسا اس ساري گفتگو ميں صرف يہ ہي آخري دو لفظ ميرے لئے ہيں، خير يہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے، قيوم کي محبت مختلف نويت کي ہے وہ کاروبار ميں بھي محبت کے قائل ہيں، جبکہ يار لوگ محبت ميں بھي کاروبار کرتے ہيں، انکا تعلق پنجاب کے ايک پس ماندہ قصبے پسرور سے ہے اور وہ اپنے اس قصبے کو نہيں بھولتے، ہر سال پوري تحصيل ميں امتيازي نمبروں سے امتحان پاس کرنے والے طلبہ و طالبات ميں لاکھوں روپے کے انعمات تقسيم کرتے ہيں، گورے چٹے، خوش لباس اور خوش کلام مرزا عبدالقيوم کو اپنے علاقے ميں ايک ہيرو کي حيثيت حاصل ہے۔
 
اپنے مرزا صاحب:
وہ ميرے ساتھ تھي:
دن کي بھاگ دوڑ اور رات کي بے آرامي نے مجھے بے حد تھکا دياتھا، ميں نے اپني نشست کو سرکائي اور سر سيٹ پر ٹکا کر آنکھيں موندليں اور پھر وہ اپني پاز يبيں چھنکاتي ميرے براربر ميں آن کھڑي ہوئي، اس کي مخروطي انگليان ميرے بالوں ميں رينگ رہي تھيں، اس کے سانسوں کي مہر ميرے مشان جاں کو معطر کر رہي تھي۔
پھر اس کي مندروں کي گھنٹيوں ايسي آواز نے ميرے کانوں ميں رس سا گھول ديا۔
تم بہت خوش تھے کہ ملک سے باہر جارہا ہوں چلو کچہ سن کے لئے اس سے جان چھوٹي مگر ميں تمہارا پيچھا چھوڑنے والي نہيں ہوں، تم جہاں بھي جائو گے ميں تمہارے ساتھ رہوں گي، تم پھول سے خوشبو کو تو جدا نہيں کرسکتے۔
تم مجھ سے کب جدا ہو ميرا تو کوئي لمحہ تمہارے خيال سے خالي نہيں ميں جب تماہرے ساتھ زمين پر چلتا ہو تو زمين ميرے پائوں کے نيچے پھول بچھا ديتي ہے۔
ميں نے اس کے پھول ايسے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے حصار ميں ليتے ہوئے کہا۔
اس نے اپني جھيل سي آنکھوں سے لمبي لمبي پلکوں کي جھالر اوپر اٹھائي اس کے چہرے پر حيا کے شفق رنگ ابھرے اور اس نے اپنا ريشم جيسا ہاتھ ميرے ہاتھوں پر رکھ ديا۔
بنکاک کي آمد آمد تھي، جہاز ميں ايک کھلبلي سي مچ گئي، اس ہنگامے ميں وہ ايک بار پھر ميري نظروں سے اوجھل ہوگئي جو ميري تنہائيوں کو اپني رفاقتيں سونپ ديتي ہيں، ميں نے کھڑکي ميں سے نيچے ديکھا تو تھائي لينڈ کي خوبصورت سر زمين کو اپنا منتظر پايا مجھ سے اگلي نشستوں کے مسافر اچھل اچھل کر کھڑکي سے باہر جھانک رہے تھے، وہ شايد رن وے پر بھيبنکاک کے شعلے تلاش کر رہے تھے،ان کا خيال تھا کہ سول ايوي ايشن کا عملہ بھي جہاز کو لينڈ کرانے کي بجائے ہاتھ ميں بينر لئے کھڑا ہوگا، بيوٹي فل گرل، اونلي فور ٹين ائيرز اولڈ، پليز ٹڑائي، ليکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ سول ايوي ايشن کے عملے نے صرف جہاز کو لينڈ کرايا، تھائي لينڈ مين لينڈنگ کيلئے ان مسافروں کو يقين ائي رپورٹ سے ہوٹل تک کا سفر اختيار کرنا پڑا ہوگا، کراچي سے بنکاک تک کي پرواز پانچ گھنٹے کي تھي، ہم تھکے ہارے ائير رپورٹ کي عمارت ميں داخل ہوئے جہاں کچھ دير قيام کرنا تھا تاکہ نگاپور کيلئے کينٹاس ائير لائن کي فلائٹ پکڑ سکيں، سنگاپور ميں بھي ہمارا قيام صرف ايک رات کيلئے تھا، البتہ آسڑيليا سے واپسي پر ہم نے تين دن اس شہر ميں گزارنا تھے جس کي جھلک ميں اس سے پہلے دو دفعہ ديکھ چکا ہوں، ليکن اس پر بھر پور نظر ڈالنے کا موقع واپسي پر ہي ملنا تھا، جب انسان کا پورا دن بھاگ دوڑ ميں گذرتا ہے،اور ساري رات جاگ کر گذاري ہو اس کي ذہني حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہيں، سو اس وقت ہم سب تھکے تھکے سے تھے، سوائے قيمو صاحب کئے جو ہميشہ کي طرح تروتازہ تھے، اور اب ائير پورٹ کے ايک کونے ميں معمول کي روزش کا کوٹہ پورا کرنے کھڑے کھڑے پائوں کو حرکت دے رہے تھے۔
 
بٹ صاحب کي محبوبہ:
اتنے ميں منير بٹ ميرے پاس آئے، ان کے چہرے پر اداسي کي لکيريں تھيں، اور وہ کھوئے کھوئے لگ رہے تھے۔
خيرتي تو ہے بٹ صاحب، بہت مضحل لگ رہے ہيں؟ ميں نے پوچھا
مجھے وہ بہت ياد آرہي ہے، ان کے لہجے سے لگتا تھا جيسے وہ ابھي رو ديں گے، ميں نے سوچا يہ محبت بھي کيسي ظالم چيز ہے پچپن سالہ، چھ فٹ لمبے تڑنگے شخص کو بھي رلاديتي ہے۔
کون ياد آرہي ہے، آپ مجھے تفصيل سے بتائيں تاکہ آپ کے دل کا بوجھ ہلکا ہو مين ان کيلئے يہي کرستا تھا۔
دارلماہي کي مچھلي ياد آرہي ہے، بٹ صاحب نے ہونٹون پر زبان پھيرتے ہوئے کہا۔
لاحول ولا قوتھ ميرے منہ سے بے اخٹيار نکلا ميں سمجھا کوئي محبوبہ ياد آرہي ہے۔
بٹ صاحب ميري اس بد ذوقي پر بہت حيران ہوئے۔
مچھلي کے قتلوں کے مقابلے ميں بھلا کسي قتالہ کي کي ااہميت ہے؟
انہوں نے گلو کير لہجے ميں مجھے مخاطب کيا۔
جہاز ميں ان بدبختوں نے کھانے کيلئے جو ديا تھا، وہ آپ نے ديکھا تھا؟
ميں تو اس طرف نظر اٹھا کر بھي نہيں ديکھا۔
بے شک ايک سچے عاشق کي يہي نشاني ہے بٹ صاحب کا شمار بلا شبہ اشيائے خورد نوش کے سچے اور جان نثار عاشقوں ميں ہوتا ہے۔
انتظار کے پانچ گھنٹے ہم نے ائير پورٹ پو گھوم پھر کر گزارے مير تقي مير نے يہ شعر غالبا کچھ اسي قسم کي صورت حال ميں کہا تھا۔
ترے کوچے اس بہانے ميرا دن سے رات کرنا
کبھي اس سے بات کرنا، کبھي اس سےبات کرنا
ائير پورٹ اچھا تھا ليکن سچي بات تو يہ ہے کہ مقامي حسينائيں مجھے کچھ زيادہ پسند نہيں آئيں، اگر بنکاک کے شعلے يہي تھے تو يہ خاصے بجھے بجھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
اڑنے سے پہلے ہي ميرا رنگ زرد تھا
مرحلہ ہفت خواں:
مجھے جب آسٹريليا اور سنگا پور کے دورے کي دعوت موصول ہوئي تو ميں نے اندرون ملک اور بيرون ملک وقت مانگنے والوں سے ان تاريخوں ميں معذرت کرنا شروع کردي جو تاريخيں اس دورے کے آغاز اور انجام کے درميان ميں پڑتي تھيں، مگر اس کے نتيجے ميں خاصي ناخوشگوار صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، انہي دنوں ميں ايک دوست نے پينتاليس برس کي عمر ميں شادي کيلئے رضا مندي کا اطہار کيا ان کي ہونے والي بيوي نے يہ انقلابي فيصلہ پچاس سال کي عمر ميں کيا تھا، چناچہ دولہا مياں نے يہ نويد مجہے ٹيليفون پر سنائي اور کہا ميري خوشي اسي صورت ميں دو چند ہوجائے گي، اگر آپ اس شادي ميں شريک ہوں مگر تاريخ وہي تھي، جو ہماري ميزبان فلپس کمپني والوں نے آسڑيليا روانگي کي بتائي تھي، سو مجھے بادل نخواستہ معذرت کرنا پڑي، اسي طرح تين چار مختلف النوع تقريبات ايسي تھيں، جن ميں خود ميرا دولہا بننے کا شوق پورا ہوتا تھا، يعني صدارت ہاتھ آرہي تھي، مگر شو مئي قسمت سے يہ تقريبات بھي انہي تاريخوں ميں پڑتي تھيں، يہاں تک تو معاملہ ٹھيک تھا ليکن ہوا يوں کہ آسڑيليا روانگي کي تاريخ ميں قدرے ردو بدل ہوگيا، جو کہ اس طرح کے دوروں ميں عموما ہوتا ہے، اور چونکہ ميں متزکرہ تقريبات ميں نہ آنے کا وعدہ کرچکا تھا اور وعدہ خلافي مرد کے شايان شان نہيں چناچہ ميں نے ان تقريبات ميں شموليت مناسب نہيں سمجھي، مگر جب ميں ان تاريخوں ميں لاہور ميں پايا گيا تو احباب نے ميري شخصيت کے حوالے سے خاصي نازيبا سي باتيں کہيں، مور اوور کہ اس دوران برطانيہ اور ناروے کے دوستوں نے مجھے اپنے ہاں مدعو کيا، مگر ميرے ليئے تاريخ کا تعين ممکن نہيں تھا، آسڑيليا کيلئے حتمي روانگي کي تاريخ ابھي طے ہونا تھي، بلا آخر يہ مرحلہ ہفت خواں بھي طے ہوا مگر اس کے بعد ايک اور مرحلہ آگيا۔
 
پسرو کا سرسيد:
لاہور سے فيصل اليکڑک کے مرزا عبدا القيوم جن کي تعليمي اور سماجي شعبے ميں بے پناہ خدمات ہيں اور جنھيں اسي حوالے سے پسرو کا سر سيد کہا جاتا ہے ميرے ہمراہ تھے، ان سے طے تھا کہ صبح ساڑھے دس بجے ائير پورٹ پر ملاقات ہوگي، فلائٹ کا ٹائم سوا گيارہ بجے کا تھا، ميں ٹھيک ساڑھے دس بجے ائير پورٹ پر تھا، جہاں برادرم عبدا لقيوم اور بٹ صاحب ميرے منتظر تھے، چھ فٹے بٹ صاحب نے اپني پاٹ دار آواز ميں ميرا استقبال کيا اور اپنا معمول کا فقرہ دہرايا، ملاقتوں ميں اتنا وقفہ نہ ڈالا کريں، آپ کويں ہميں بيمار کريں گے، حالانکہ ابھي کل ان سے ملاقات ہوئي تھي، تاہم اصلي تے وڈا استقبال کپمني کے نمائدوں نے کيا جو سرخ گلاب کے ہار لئے ہمارے منتظر تھے، يہ ہار نہ نہ کرتے ہوئے بھي ہم تينوں کے گلے ميں ڈال دئيے گئے تھے، بلکہ تصوريں بھي کھينچيں گئيں، ارد گرد کھڑے مسافر اور ان کے عزو\يز و اقارب باہم زائرين کو عقيدت کي نظروں سے ديکھ رہے تھے، مگر سوچ رہے تھے، حج کا سيزن نہيں ہے، يہ خوش نصيب يقينا عمرے پر جارہے ہوں گے، انہوں نے غالبا اکبر الہ آبادي کا يہ شعر نہيں سنا تھا۔
سدھاريں شيخ کعبہ کو ہم انگلستان ديکھيں گے
وہ ديکھيں گے گھر خدا کا، ہم خدا کي شان ديکھيں گے
سو خدا کي شان ديکھنے کيلئے آسڑيليا جانے والے مسافروں منے جب ائير پورٹ پر لينڈ کيا تو کمپني والے ايک دفعہ پھر استقبال کيلئے کھڑے تھے مگر خدا کا شکر ہے اس دفعہ ان کے ہاتھوں ميں ہار نہیں تھے۔
وگر نہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے۔
 
yah download kasay ho ga????????????????

aaap plz pdf main upload karayn plz
 
Status
Not open for further replies.
Back
Top