Ashaar Dunya ne tajarbaat o hawadis ki shakal mein

@Angelaa
وہ بابا جی کے مرنے پہ اتفاق :rofl:
اتفاق میں برکت ہے ۔۔۔۔۔۔ ابن انشاء
Itffaq mein barkat.jpg

ایک بڑے میاں جنہوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کمایا بنایا تھا آخر بیمار اور مرض الموت میں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئی فکر تھی تو یہ کہ ان کے پانچوں بیٹوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ گاڑھی کیا پتلی بھی نہیں چھنتی تھی۔ لڑتے رہتے تھے۔ کبھی کسی بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا۔ حالانکہ اتفاق میں بڑی برکت ہے۔ آخر انہیں بیٹوں پر اتحاد اور اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔ ان کو اپنے پاس بلایا اور کہا ’’دیکھو اب میں کوئی دم کو مہمان ہوں۔ سب جا کر ایک ایک لکڑی لاؤ۔‘‘ایک نے کہا ’’لکڑی؟ آپ لکڑیوں کا کیا کریں گے؟‘‘دوسرے نے کہا ’’بڑے میاں کا دماغ خراب ہو رہا ہے۔ لکڑی نہیں شاید ککڑی کہہ رہے ہیں۔ ککڑی کھانے کو جی چاہتا ہوگا۔‘‘تیسرے نے کہا ’’نہیں کچھ سردی ہے، شاید آگ جلانے کو لکڑیاں منگاتے ہوں گے۔‘‘چوتھے نے کہا ’’بابو جی کوئلے لائیں؟‘‘پانچویں نے کہا ’’نہیں اپلے لاتا ہوں وہ زیادہ اچھے رہیں گے۔‘‘باپ نے کراہتے ہوئے کہا ’’ارے نالائقو! میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑیاں لاؤ، جنگل سے۔‘‘ایک بیٹے نے کہا ’’یہ بھی اچھی رہی، جنگل یہاں کہاں؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑی کہاں کاٹنے دیتے ہیں۔‘‘دوسرے نے کہا ’’اپنے آپے میں نہیں باپو جی۔ بک رہے ہیں جنوں میں کیا کیا کچھ۔‘‘تیسرے نے کہا ’’بھئی لکڑیوں والی بات تو اپن کی سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘چوتھے نے کہا ’’بڑے میاں نے عمر بھر ایک ہی خواہش کی ہے۔ اسے پورا کرنے میں کیا ہرج ہے؟‘‘پانچویں نے کہا ’’اچھا، میں جاتا ہوں۔ ٹال پر سے لکڑیاں لاتا ہوں۔‘‘چنانچہ وہ ٹال پر گیا۔ ٹال والے سے کہا ’’میاں صاحب ذرا پانچ لکڑیاں تو دینا۔ اچھی مضبوط ہوں۔‘‘ٹال والے نے لکڑیاں دیں۔ ہر ایک خاصی موٹی اور مضبوط، باپ نے دیکھا تو اس کا دل بیٹھ گیا۔ یہ بتانا بھی خلاف مصلحت تھا کہ لکڑیاں کیوں منگائی ہیں اور اس سے کیا اخلاقی نتیجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بیٹوں سے کہا ’’اب ان لکڑیوں کا گٹھا باندھ دو۔‘‘ اب پھر بیٹوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ’’گٹھا! وہ کیوں؟‘‘’’اب رسی کہاں سے لائیں۔ بھئی بہت تنگ کیا ہے بڈھے نے۔‘‘ آخر ایک نے اپنے پاجامے میں سے ازار بند نکالا اور گٹھا باندھا۔ بڑے میاں نے کہا ’’اب اس گھٹے کو توڑو۔‘‘بیٹوں نے کہا ’’لو بھئی، یہ بھی اچھی رہی، کیسے توڑیں؟ کلہاڑا کہاں سے لائیں؟‘‘باپ نے کہا ’’کلہاڑے سے نہیں ہاتھ سے توڑو، گھٹنے سے توڑو۔‘‘حکمِ والد مرگِ مفاجات۔ پہلے ایک نے کوشش کی، پھر دوسرے نے، پھر تیسرے نے، پھر چوتھے نے، پھر پانچویں نے۔ لکڑیوں کا بال بیکا نہ ہوا۔ سب نے کہا ’’باؤ جی! ہم سے نہیں ٹوٹتا یہ لکڑیوں کا گٹھا۔‘‘باپ نے کہا ’’اچھا۔ اب لکڑیوں کو الگ الگ کرو۔ ان کی رسی کھول دو۔‘‘ایک نے جل کر کہاں ’’رسی کہا ہے، میرا ازار بند ہے۔ اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گٹھا بندھوایا ہی کیوں تھا؟ لاؤ بھئی، کوئی پنسل دینا، ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔‘‘باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ’’اچھا اب ان لکڑیوں کو توڑو، ایک ایک کر کے توڑو۔‘‘لکڑیاں چونکہ موٹی موٹی اور مضبوط تھیں، بہت کوشش کی، کسی سے نہ ٹوٹیں۔ آخر میں بڑے بھائی کی باری آئی۔ اس نے ایک لکڑی پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاق کی آواز آئی۔ باپ نے نصیحت کرنے کے لیے آنکھیں یک دم کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ بڑا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑی سلامت پڑی ہے۔ آواز بیٹے کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹنے کی تھی۔ ایک لڑکے نے کہا ’’بڈھا بہت جاہل ہے۔‘‘دوسرے نے آواز دی ’’ضدی ہے۔‘‘تیسرے نے کہا ’’کھوسٹ، سنکی، عقل سے پیدل، گھامڑ۔‘‘چوتھے نے کہا ’’سارے بڈھے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ کم بخت مرتا ہی نہیں۔‘‘بڈھے نے اطمینان کا سانس لیا کہ بیٹوں میں کم از کم ایک بات پر تو اتفاق رائے ہوا۔ اس کے بعد آنکھیں بند کیں اور نہایت سکون کے ساتھ جان دے دی۔٭…٭…٭
 
@Angelaa,
@Maria-Noor,
دونوں اپنی یاداشت ٹھیک کر لو
 
Back
Top