Egyptian civilization Architecture Pyramid construction By Ikhlaq Ahmad In Urdu

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
مصر میں اہرام کی تعمیر ۔۔۔۔۔ تحریر : اخلاق احمد

misar.jpg

مصر کے علاقے جیزہ میں تین بڑے اہرام صحرا میں سینہ تانے اس طرح کھڑے ہیں جیسے تین سنتری کھڑے ہوئے پہرے دے رہے ہوں۔ وہ یہ فرض گزشتہ تقریباً پونے پانچ ہزار سال سے ادا کر رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ تینوں وقت کو شکست دینے کی کوشش میں ہیں کیونکہ اتنے طویل عرصے کے بعد بھی وقت ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ یہ تینوں آج بھی اسی مضبوطی سے اپنی جگہ پر جمے ہوئے ہیں جیسے اپنی تعمیر کے وقت تھے۔ ان تینوں میں جو ہرم سب سے زیادہ بڑا ہے، اس میں فرعون خوفو کی ممی محفوظ ہے۔ خوفو کو یونانی زبان میں کیوپس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ عظیم ہرم قدیم دنیا کے ان سات عجائبات میں سے ایک عجوبہ ہے جن میں سے چھ وقت کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ عظیم ہرم چونے کے پتھر اور گرینائٹ کے بلاکوں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر میں کم از کم 20 لاکھ پتھر کے بلاک استعمال ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کا وزن 15 ٹن سے بھی زائد ہے۔ اپنی بنیاد سے یہ ہرم 481 فٹ بلند ہے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ بات بڑی حیران کن معلوم ہو گی کہ اتنے قدیم زمانے میں اس قدر بلندی پر پتھر کے 15 ٹن وزنی بلاک کیسے پہنچائے گئے تھے؟
یہ اہرام فراعنہ مصر کی تاریخ میں ''قدیم بادشاہت‘‘ کے دور میں چوتھے شاہی خاندان نے تعمیر کرائے تھے۔ ''قدیم بادشاہت‘‘ 2686 قبل مسیح سے لے کر 2181 قبل مسیح تک تیسرے، چوتھے، پانچویں اور چھٹے خاندانوں کے زمانے پر مشتمل ہے۔ ''قدیم بادشاہت‘‘ کا زمانہ شان و شوکت کی پانچ صدیوں تک وسیع ہے۔ اس زمانے کے مصر میں زندگی کے ہر گوشے میں ترقی ہوئی۔ خصوصاً آرٹ کو تو قابل رشک حد تک فروغ حاصل ہوا۔ مجسمہ سازی اس کمال کو پہنچی کہ بعد کے زمانے اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر رہ گئے۔ اہرام بھی اس زمانے میں فن تعمیر کے لحاظ سے انتہا کو پہنچے۔
چوتھے خاندان کے دوسرے حکمران خوفو نے جب 2680 قبل مسیح کے لگ بھگ اپنے عظیم ہرم کی تعمیر کا آغاز کیا تو اس کام پر ایک لاکھ سے زائد مزدور اور کاریگر لگائے۔ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ ایک لاکھ مزدوروں یا غلاموں کا ایک گروپ تین ماہ کے لیے کام کرتا تھا۔ ہر تین ماہ کے بعد یہ گروپ بدل جاتا۔ یوں دارالحکومت ممفس سے ہرم تک جانے والی شاہراہ کی تعمیر پر 10 سال کا عرصہ لگا۔ اس کے بعد ہرم کی تعمیر میں مزید 20 سال لگے۔
مصریات کی ایک جدید محقق و مؤرخ ڈاکٹر مارگریٹ مرے لکھتی ہیں کہ تین مہینے جب معماروں کو اہرام کی تعمیر کے کام پر لگایا جاتا وہ دریائے نیل میں طغیانی کے مہینے ہوتے تھے۔ ان مہینوں میں مصر میں کھیتوں میں زراعت کے تمام کام معطل ہو کر رہ جاتے اور کاشتکار بے کار ہو کر بیٹھ جاتے۔ ایسے میں خوفو نے اپنی رعایا کی بھلائی کے لیے عظیم ہرم کی تعمیر کا آغاز کیا جس سے سال کے خراب ترین مہینوں میں ایسا روزگار میسر آتا جو کھیتی باڑی سے بھی زیادہ بارآور تھا۔
خوفو کی طرح اس کا جانشین خافرا بھی اپنی تعمیر کردہ عمارات اور اپنے ہی مجسموں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔
یہ امر بھی فرعونوں میں مشترک ہے کہ ان دونوں سے مصر کا مذہبی طبقہ یعنی پروہت بیزار تھے۔ ہیروڈوٹس کو اس کی سیاحت مصر کے دوران پروہتوں نے بتایا کہ ان دونوں فرعونوں کے عہد میں مندروں پر تالے پڑ گئے اور کسی کو دیوتاؤں کی پرستش کرنے کی اجازت نہ رہی۔ ہیروڈوٹس نے اپنی سیاحت ہی کے دوران خافرا کے ہرم کے دروازے پر مصری زبان میں نصب ایک کتبہ دیکھا تھا جس میں لکھا تھا کہ ہرم کی تعمیر کے دوران معماروں اور مزدوروں کے لیے جو مولیاں، پیاز اور لہسن روزانہ فراہم کیا جاتا تھا اس پر 1600 ٹیلنٹ (پیمائش کا ایک قدیم پیمانہ) چاندی کا خرچہ اٹھتا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تعمیر کے دیگر اخراجات کتنے وسیع ہوں گے۔
باقی دو اہراموں کی طرح جیزہ کا تیسرا اہرام بھی چوتھے خاندان ہی کے فرعون منکورا نے تعمیر کرایا تھا۔ ہیروڈوٹس کے بقول منکورا ایک عدل پسند اور منصف مزاج فرعون تھا۔ اس نے اپنے پیش روؤں کے عہد میں بند ہو جانے والے مندروں کے دروازے کھلوا دیے اور لوگوں کو دیوتاؤں کی پرستش کی اجازت دے دی۔ اس طرح وہ پروہتوں کے دل بھی جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔ جیزہ کے ہی تینوں اہرام آج بھی ان تینوں فرعونوں کی انمٹ یادگاروں کے طور پر باقی ہیں۔ بظاہر پتھروں کا ڈھیر نظر آنے والے یہ اہرام دراصل اس عہد میں علم ریاضی کی ترقی یافتہ صورت کے بہترین مظاہر ہیں۔ ماہرین نے اندازہ لگایا کہ صرف بڑے ہرم کے پتھروں سے سارے فرانس کے گرد تین فٹ اونچی اور ایک فٹ چوڑی دیوار تیار کی جا سکتی ہے۔ صرف اس بات سے آپ کو قدیم مصری قوم کی محنت اور عظمت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔
کیوپس کا ہرم مکمل طور پر مخروطی شکل کا مثلث نما چہار پہلو مینار ہے۔ اس کی کسی سمت میں بھی دروازہ نہیں رکھا گیا ہے۔ اس کی سب سے نچلی منزل ایک مربع چبوترے کی مانند ہے، جس کا ہر ضلع 763 فٹ طویل ہے۔ اس چبوترے کی اونچائی چار فٹ آٹھ انچ ہے۔ اس چبوترے پر اسی اونچائی کا ایک دوسرا چبوترا تعمیر کیا گیا ہے، جس کی لمبائی چوڑائی پہلے سے کم ہے۔ اس طرح مینار کی چوٹی تک 200 کے قریب چبوترے مسلسل چلے گئے ہیں، ان چبوتروں کے بتدریج گھٹنے سے نیچے سے اوپر تک سیڑھیاں بن گئی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس بڑے ہرم میں پانچ کروڑ مکعب فٹ پتھر لگا ہے۔ 820ء تک اس ہرم کی اندرونی کیفیت کسی کو معلوم نہ تھی۔ اس سال خلیفہ مامون الرشید نے مہینوں کی محنت اور بڑا کثیر سرمایہ صرف کر کے اس کو شمال کی سمت سے کھلوایا۔ جب یہ حصہ کھلا تو شگاف کے پاس ہی مامون کو اس قدر زرنقد رکھا ہوا ملا جتنا اس عظیم عمارت کو کھلوانے میں صرف ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ شاید ہرم تعمیر کرنے والے منجموں نے اپنے علم نجوم سے ہزاروں برس پہلے ہی معلوم کر لیا تھا کہ اسے فلاں سن میں فلاں بادشاہ کھلوائے گا اور اس کا کس قدر زر اس کام پر صرف ہو گا۔ شاید انہیں وہ سمت بھی معلوم تھی جس سمت سے اس ہرم کو کھولا جانا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے پہلے ہی وہ اجرت رکھ دی تھی۔ ایک روایت علامہ شبلی نعمانی نے اپنے سفرنامے میں رقم کی ہے کہ 593ھ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے ملک العزیز نے بعض ناعاقبت اندیشوں کے مشورے سے اس اہرام کو مسمار کرانا چاہا مگر لاکھوں روپے کے زیاں کے بعد بھی صرف اوپری سطح کو نقصان پہنچ سکا۔ مجبوراً اس کام کو بند کروانا پڑا۔​
 

Back
Top