Ephesus : Barbad honay wala Shehr e Bemisaal By Razwan Ata

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
افسس: برباد ہونے والا شہرِ بے مثال
تحریر : رضوان عطا

ephsus.jpg


دورِ قدیم کے سات عجائباتِ عالم میں سے ایک ارٹیمس کا معبد ہے۔ یہ جس شہر سے منسلک ہے، وہ صدیوں تک بہت سی جنگوں، بربادیوں، بغاوتوں اور وباؤں کا مقابلہ کرنے کے بعد بالآخر سنسان ہو چکا ہے۔ یہ ترکی کے صوبے ازمیر میں واقع شہر سلچوک سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہوا کرتا تھا۔

تاریخ میں ایک خطہ اناطولیہ کے نام سے جانا جاتا تھا، جو اب موجودہ ترکی کا حصہ ہے۔ اس کے مغربی ساحل کا مرکزی حصہ آیونا کہلاتا تھا۔ یہاں دو طرح کے یونانی آبادکاروں، آیونی اور اٹیک نے دسویں صدی قبل مسیح میں ایک شہر تعمیر کیا۔ یہ شہر ایک اور قدیم شہر اور سلطنت ازروا کے دارالحکومت کے مقام پر بنایا گیا۔

شہر کے قریب مشہور ارٹیمس کے معبد کی تکمیل 550 ق م میں ہوئی مگر یہ حملہ آوروں کی زد میں رہا۔ شہر کو شہرت عطا کرنے والی دیگر عمارتوں میں لائبریری سیلسوس اور 25 ہزار شائقین کی گنجائش والا ایک تھیٹر ہے۔ مسیحیت کی بعض اہم شخصیات نے یہاں قیام کیا اور بہت سے مشہور فلسفیوں اور شاعروں نے یہاں جنم لیا۔

افسس کی کھدائی سے پتا چلتا ہے کہ شہر کے مقام اور اس کے اردگرد انسانوں نے بہت پہلے آباد ہونا شروع کر دیا تھا۔ اس کے اردگرد آبادی آخری حجری دور (تقریباً چھ ہزار ق م) میں ہو گئی تھی۔ حالیہ برسوں میں ہونے والی کھدائیوں میں کانسی کے عہد کے اوائل کی آبادیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ حِتی اناطولیہ کے قدیم لوگ تھے۔ ان کے ذرائع کے مطابق ارزوا کا دارالحکومت اپاسا یا اباسا تھا۔ بعض سکالرز کا خیال ہے کہ یہی نام بعدازاں افسس بنا۔ 1500-1400 ق م کا دور، جسے میسینین دور کہتے ہیں،یونانیوں کی وسعت کا دور تھا۔ آیونی تیرہویں اور چودہویں صدی قبل مسیح میں ایشیائے کوچک میں آباد ہوئے۔

اپاسا اور افسس ملتے جلتے ہیں، اور امکان یہی ہے کہ پرانے شہر کے مقام پر یا اس کے آس پاس نیا شہر آباد کیا گیا۔شہروں کے آباد ہونے کے اسباب قصے کہانیوں اور دیومالائی داستانوں کی شکل میں بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک داستان کے مطابق افسس کی بنیاد ایتھنز کے انڈروکلوس نامی شہزادے نے رکھی جسے اپنے باپ بادشاہ کوڈروس کی موت کے بعد اپنا ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ انڈروکلوس نے شہر کے بیشتر قدیم لوگوں کو نکال باہر کیا۔

وہ ایک کامیاب جنگجو تھا۔ وہ آیونا کے 12 شہروں کو یکجا کرکے ان کا اشتراک قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کے دور میں شہر خوشحال ہونے لگا۔ اپنے اتحادیوں کی مدد کرنے کے دوران وہ مغربی اناطولیہ کے کارین لوگوں کے خلاف جنگ میں مارا گیا۔ بعدازاں چند یونانی مؤرخین نے لکھا کہ اس شہر کی بنیاد ایمازونز کی ملکہ افوس نے رکھی۔

۔650 ق م کے لگ بھگ افسس پر کمیری حملہ آور ہوئے۔ یہ خانہ بدوش انڈویورپی لوگ تھے۔ جب انہیں نکال باہر کیا گیا تو یکے بعد دیگرے کئی جابر حاکم شہر پر مسلط ہو گئے۔ عوامی سرکشی کے بعد شہر کا انتظام ایک کونسل کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے تحت شہر ایک بار پھر پھلے پھولنے اور خوشحال ہونے لگا۔ اس دوران بہت سی تاریخی شخصیات پیدا ہوئیں جن میں شاعر کیلینوس اور ہپوناکس، فلسفی ہیراکلیٹس اور عظیم مصور پرہاسیوس اور طبیب سورانس اور روفس شامل ہیں۔

560 ق م کے لگ بھگ افسس کو لیدائی بادشاہ کرویسس نے فتح کیا۔ لیدائی بھی مغربی اناطولیہ کے رہنے والے تھے۔ اگرچہ وہ ایک سخت گیر حاکم تھا لیکن اس نے شہر کے باسیوں سے اچھا سلوک کیا۔ اس کے بعد کرویسس کی قیادت میں لیدائیوں نے فارس پر حملہ کر دیا۔ آیونیوں نے کوروش اعظم کی امن کی پیش کش قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس کے بجائے لیدائیوں کے ساتھ ہو لیے۔
جب فارسیوں نے کرویسس کو شکست دے ڈالی تو آیونیوں نے امن کی پیش کش کر دی، لیکن کوروش اعظم نے ان کے ہتھیار ڈالنے اور سلطنت میں ضم کرنے پر اصرار کیا۔ انہیں 547 ق م میں شکست ہوئی اور ایشیائے کوچک کے وہ شہر جو یونانیوں کے تھے، ہخامنشی سلطنت کا حصہ بن گئے۔

شہر خوشحالی کی جانب گامزن رہا لیکن جب فارس کے کمبوجیہ دوم اور دارا نے ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا تو افسس کے رہنے والوں نے فارسیوں کے خلاف جنگِ افسس (498 ق م)میں حصہ لیا ۔ یہ آیونیوں کی مشترکہ بغاوت تھی۔ اس واقعے نے یونانیوں اور فارسیوں کے درمیان جنگوں کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔ 479 ق م میں آیونی ایتھنز والوں کے ساتھ مل کرفارسیوں کوایشیائے کوچک کے ساحلوں سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔تاہم بعدازاں اس پر پھر فارس کا قبضہ ہو گیا۔
جب 334 ق م میں سکندر اعظم نے کارزارِ گرانیک میں فارس کی سپاہ کو شکست دی تو ایشیائے کوچک کے یونانی شہروں کو آزادی نصیب ہوئی۔ فارس نواز ظالم حاکم سیرپاکس اور اس کے خاندان کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

افسس میں داخلے پر سکندراعظم کا شاندار استقبال کیا گیا۔ جب سکندراعظم نے دیکھا کہ ارٹیمس کے معبدکی تکمیل کا کچھ کام ابھی باقی ہے تو اس نے مالی مدد کرنے اور اس کی پیشانی پر اپنا نام کندہ کرنے کی تجویز دی، مگر مقامی لوگوں نے بوجوہ اسے قبول نہ کیا۔ سکندر کی موت کے بعد شہر اس کے جرنیلوں کے ہاتھ آیا۔

اس کی بندرگاہ کو دریائے کیسٹر نے بھرنا شروع کر دیا تھا۔ کم گہرے پانیوں نے مچھروں کی تعداد اور ملیریا کی بیماری میں اضافہ کر دیا جس سے شہریوں کی بہت سی ہلاکتیں ہوئیں۔ حاکم اور سکندر کے جرنیل لیسیماکوس نے لوگوں کو ارٹیمس کے معبد کے گرد قدیم آبادی سے دو کلومیٹر دور بسنے پر مجبور کر دیا۔ نئی آبادی کو ارسینوئی کا نام دے دیا جو دراصل حاکم کی دوسری بیوی کا نام تھا۔ اس کی موت کے بعد شہر کا نام دوبارہ افسس رکھ دیا گیا۔

اس کے بعد شہر سلوقی سلطنت کے ہاتھ آیالیکن پھر مصری فرعون بطلیموس سوم نے اس پر قبضہ کر لیا اور 263 سے 197 قبل مسیح تک اس پر حکمرانی کی۔سلوقی اسے واپس لینے میں کامیاب تو ہوئے مگر جلد یہ رومی جمہوریہ کے تحت آگیا جس نے اس پر محصولات کا بہت زیادہ بوجھ لاد دیا۔ اس لیے جب پونٹس کے بادشاہ متھریڈیٹس کا جرنیل یہاں پہنچا تو اسے خوش آمدید کہا گیا۔

اسی شہر سے متھریڈیٹس نے رومی شہریوں کے قتل کا حکم جاری کیا جس کے نتیجے میں ایشیا میں 80 ہزار رومی شہریوں کا قتل عام ہوا۔ 86 قبل مسیح میں شہر دوبارہ رومیوں کے پاس چلا گیا۔
جب 263ء میں شمالی یورپ کے گوتھوں نے اسے تباہ کیا تو شہر کے زوال کا آغاز ہو گیا۔ البتہ قسطنطین اعظم نے اس میں خاطر خواہ تعمیرات کرائیں۔

۔614ء میں یہ زلزلے کا شکار ہوا تو اس کی کاروباری اہمیت خاصی کم ہو چکی تھی کیونکہ اس کی بندرگاہ دریائی مٹی کے سبب ناکارہ ہوتی جا رہی تھی جس سے تجارت پر اثر پڑ رہا تھا۔ اس لیے لوگ یہاں سے نقل مکانی کرنے لگے۔

۔654-55ء میں اس پر حضرت معاویہؓ کی افواج حملہ آور ہوئیں اور اس کے زوال کو تیزتر کر دیا۔ 1090ء میں سلجوقی ترک اس کے حاکم بنے لیکن اس وقت تک یہ شہر سے ایک قصبہ بن چکا تھا۔بعدازاں یہ سلطنتِ عثمانیہ میں شامل ہوا اور آخر کار موجودہ ترکی کا حصہ بنا۔

یہ شہر 50 ء کے لگ بھگ ابتدائی مسیحیت کا اہم مرکز تھا۔یہاں سیلسوس کی لائبریری میں کبھی ہزاروں مخطوطے ہوا کرتے تھے۔ یہاں دورِ قدیم کا سب سے بڑا تھیٹر بھی تھا جس میں 25 ہزار شائقین کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ یہاں بہت سی عمارتیں ایسی ہیں جو ماضی کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔ پندرہویں صدی عیسوی میں بے آباد ہوئے اس شہر کے کھنڈرات سے ایک ہنستے بستے شہر کو تصور کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔​
 

۔

۔654-55ء میں اس پر حضرت معاویہؓ کی افواج حملہ آور ہوئیں اور اس کے زوال کو تیزتر کر دیا۔ 1090ء میں سلجوقی ترک اس کے حاکم بنے لیکن اس وقت تک یہ شہر سے ایک قصبہ بن چکا تھا۔بعدازاں یہ سلطنتِ عثمانیہ میں شامل ہوا اور آخر کار موجودہ ترکی کا حصہ بنا۔
ماشاءاللہ
فاتحین میں مسلمان بھی شامل ہیں اور ان کی فتوحات کی نشانیوں میں سے ایک نشانی آج بھی محفوظ ہے
 
یہ شہر 50 ء کے لگ بھگ ابتدائی مسیحیت کا اہم مرکز تھا۔یہاں سیلسوس کی لائبریری میں کبھی ہزاروں مخطوطے ہوا کرتے تھے۔ یہاں دورِ قدیم کا سب سے بڑا تھیٹر بھی تھا جس میں 25 ہزار شائقین کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ یہاں بہت سی عمارتیں ایسی ہیں جو ماضی کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔ پندرہویں صدی عیسوی میں بے آباد ہوئے اس شہر کے کھنڈرات سے ایک ہنستے بستے شہر کو تصور کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسکی عظمت رفتہ تو تاریخ سے ظاہر ہو رہی ہے
 
Back
Top