Ertugrul Ghazi aur Ishq e Mamnu By Anjam Farooq ( Part 1-2) Column

Ertugrul-Ghazi-Ishq-e-Mamnu-Drama.jpg


ارطغرل غازی ‘‘اور’’عشقِ ممنوع ۔۔۔۔ انجم فاروق

صدیوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ انسان کی دماغی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کے تقلیدی عقائدہوتے ہیں۔یہ عقائد اسے ابھرنے نہیں دیتے‘ ورنہ کوئی ایسی بندش نہیں ‘جو کسی بھی انسان کو آئن سٹائن بننے سے روکتی ہو ۔ انسان کا ہر عمل ‘ ہر عقیدہ اور ہر نقطۂ نظر جو اسے خاندانی روایات ‘ ابتدائی تعلیم اور صحبت کے ہاتھوں ملا ہو ‘ اس کیلئے ایک مقدس ورثہ ہوتاہے‘ وہ اس ورثے کی جان پر کھیل کر حفاظت کرتاہے ۔ بسااوقات موروثی عقائدکی پکڑ اتنی سخت ہوتی ہے کہ تعلیم اور گردوپیش کا اثر بھی اسے ڈھیلا نہیں کر سکتا ۔وہ اپنے عقائد کی دنیا اپنے اند ر بسائے رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی بھی اس سے اختلاف نہ کرے ‘ یہی وہ بنیاد ہے‘ جس سے معاشروں میں انتہا پسندی اور شدت انگیزی جنم لیتی ہے ‘ جبکہ اعتدال پسند معاشروں میں ہمیشہ بامقصد اور علمی مباحثے ہوتے ہیں ‘جو فکرونظر کو وسعت دیتے ہیں ‘مگر بیمارمعاشروں کا حال بھی عجیب ہوتا ہے‘ وہاں ہر دم بے معنی اورغیرضروری بحث کے چڑھاوے چڑھتے ہیں‘ جو خیالات کی چبھن کواور شدید کر دیتے ہیں ۔

پاکستا ن میں ان دنوں دو موضوعات پر تکرا ر عام ہے؛ ایک ڈراما ''ارطغرل غازی‘‘ جبکہ دوسرا''محمد بن قاسم اور راجہ داہر‘‘۔ آپ ملاحظہ کریں ‘جہاں دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ویکسین بنانے پر مقابلہ جاری ہے‘ وہاں ہم کن مسائل میں الجھے ہوئے ہیں؟ انسانیت کو لہو لہان ہوتے دیکھ کر بھی ہم بے حسی کی چادر تانے سو رہے ہیں اوراوپر سے ستم یہ کہ ہمیں کوئی جگانے والا بھی نہیں ۔

اگر ہم گزشتہ دس سال کا جائزہ لیں توپاکستان میں تین ڈرامے سب سے زیادہ مقبول ہوئے ۔ایک'' عشق ِممنوع ‘‘ دوسرا ''میرے پاس تم ہو‘‘ اور تیسرا ''ارطغرل غازی‘‘ ۔عشق ممنوع اور میرے پاس تم ہو کی مقبولیت کی وجوہ ایک جیسی تھیں؛ دونوں میں ممنوعہ جذبات کو عشق کی رنگین چادر میں لپیٹ کر دکھایا گیا تھا ‘ جسے عوام نے جی بھر کر دیکھا ۔ ہاں البتہ ! ارطغرل غازی کے مشہور ہونے کی دو وجوہ ہیں؛ایک نظریاتی اور دوسری سیاسی ۔نظریاتی جنگ اب صرف نظریاتی نہیں رہی‘ بلکہ دو انتہاؤں کا جھگڑا بن چکی ہے ۔ ایک طرف وہ ہیں‘ جن کا ڈراما ‘ فلم ‘ موسیقی اور فنون لطیفہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں‘ جبکہ دوسری طرف وہ عالم فاضل لوگ ہیں ‘جن کا اسلامی تاریخ سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ان لوگوں کی بدقسمتی ہے کہ ان میں توازن اور اعتدال پسندی چاہ کر بھی نہیں آتی۔ دونوں طرف کا انتہا پسند طبقہ اپنے اپنے خیالات کو دوسروں پر تھوپنا چاہتا ہے ۔ یہ لوگ اپنے موروثی عقائد اور گروہی مفادات سے مجبور ہوکر بحث برائے بحث کر رہے ہیں‘ ورنہ ڈرامے کو ڈراما سمجھ کردیکھنے میں کیا قباحت ہے؟ ''ارطغرل غازی ‘‘کبھی اتنا مشہور نہ ہوتا‘ اگر وزیر اعظم عمران خان اس کی تعریف نہ کرتے ۔ وزیراعظم کے ایک بیان نے ان کے حامیوں اور مخالفین کی تلواروں کو بے نیام کردیا ۔ پی ٹی آئی کے ٹائیگروں کو موقعہ مل گیا اور انہوں نے ''ارطغرل غازی ‘‘کو ڈرامے سے زیادہ سمجھ لیا ۔ ہر طرف تعریفیں ایسے ہونے لگیں‘ جیسے پاکستان لال قلعے پر جھنڈے گاڑ آیا ہو۔ دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان کے مخالفین تو جیسے اسی موقعہ کی تاک میں تھے ‘انہوں نے اس ڈرامے کو دیکھے بغیر تنقید کے نشتر چلانا شروع کردیے ۔ اسلامی تاریخ اور ترکوں کی تاریخ کو گڈمڈ کر دیا اورعمران خان کی ضد میں ترک فنکاروں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ‘جو کسی طور بھی مناسب فعل نہیں ۔

اب ان کی بات کرتے ہیں‘ جنہوں نے شاید ہی کبھی زندگی میں کوئی ڈراما یا فلم دیکھی ہو ‘ لیکن ''ارطغرل غازی‘‘ کے وہ بھی دیوانے ہیں‘ کیونکہ سلطنت ِعثمانیہ ان کے دلوں میں بستی ہے ۔وہ ڈرامے کے کرداروں سے اتنے مانوس ہو گئے ہیں کہ انہیں حقیقی زندگی میں بھی اتنا اجلا دیکھنا چاہتے ہیں‘ جتنا وہ ڈرامے میں ہیں ۔ یہ ان کی آرٹ سے دوری کی پہلی جھلک ہے ۔ شیکسپیئرنے کہا تھا کہ'' ڈرامے کو تعصب کی عینک سے نہیں‘ بلکہ دل ودماغ کی نظر سے دیکھنا چاہیے‘‘۔ کتنے پاکستانی ہیں‘ جو اس پر عمل کر رہے ہیں ؟ ادب اور تاریخ کے طالب علموں کو یہ بات نہیں بھولناچاہیے کہ کوئی بھی ڈراما یا فلم تاریخ کی پوری کہانی بیان نہیں کرتا‘ رائٹر کو فکشن کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ اس کے کمرشل مفادات اسے کہانی بدلنے کا جواز پیش کرتے ہیں‘ لہٰذا جو لوگ ''ارطغرل غازی ‘‘ ڈرامے پر تنقید کر رہے ہیں ‘ان کے پاس کوئی علمی دلیل ہے تو ضرورموضوعِ بحث بنائیں‘ اگر کہیں تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے تو یہ نکتہ عیاں ہونا چاہیے ‘ورنہ یقین مانیں یہ بحث لاحاصلی کا کھیل ہے ‘جس کا انجام محض وقت کا ضیاع ہے ۔

سوشل میڈیا پر '' ارطغرل غازی‘‘ پر بحث لبرلز نے شروع کی اور انتہا ان لوگوں نے کی جو ڈرامے کو گناہ سمجھتے ہیں ۔ یہ کیا بچگانہ منطق ہے کہ ایک ڈراما دیکھنے سے ہمارا کلچر تباہ ہو جائے گا ؟ ہم ترکوں کو فالو کرنے لگیں گے ‘ ہمیں اسلامی تاریخ سے زیادہ برصغیر کی تاریخ کا پیچھا کرنا چاہیے‘ اگر ڈراما پورا چل گیا تو ہماری پاکستانیت ترکی کے جھنڈے میں لپٹ کر لال ہو جائے گی ۔ یہ عقلی دلائل ہیں یا غیر منطقی ؟ فیصلہ آپ خود کر لیں‘ مگر خدارا یاد رکھیں ہمارا کلچر اتنا بوسیدہ نہیں کہ ایک ڈرامے سے لیرولیر ہو جائے گا ۔ یہاں افغانی حملہ آور آئے‘ منگولوں نے حکومت کی ‘ ترک اور عرب حکمران رہے ‘ یونانی اور انگریز حاکم بنے‘ کیا ہمارے آباؤاجداد نے شلوار قمیص پہننا چھوڑ دی ؟ کیا آلو گوشت‘ مکئی کی روٹی اور ساگ ہمارے دسترخوانوں کا حصہ نہیں رہے؟ کیا شادیوں میں ڈھول اور بھنگڑا اب نہیں ہوتا ؟ کیا ہیر رانجھا اور سوہنی ماہیوال کی داستان اگلی نسلوں کو منتقل نہیں ہوئی ؟ کیا بلھے شاہ گور تلے جا سویا ہے ؟یاد رکھیں لوگ مذہب بدل لیتے ہیں‘ مگر کلچر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتا ‘ پنجابی لندن میں بھی پنجابی ہی ہوتا ہے اور سندھی‘ سندھی !

''ا رطغرل غازی‘‘ پر تنقید کرنے والے Roman Empire دیکھتے ہیں تو پاکستانی روایات اورثقافت کو کیوں یاد نہیں رکھتے ؟ علاوہ ازیں امریکی ویب سیریز Marco Polo ‘ The Last Kingdom اور Spartacus کو دیکھتے وقت انہیں پاکستانی ہونا کیوں بھول جاتا ہے؟ یہی نہیں ‘ بلکہ بھارتی فلمساز سنجے لیلا بھنسالی نے ''پدماوت‘‘ میں علاؤالدین خلجی کو عیاش دکھایا‘ تو پاکستان میں کن لوگوں نے تالیاں بجائی تھیں ؟ (جاری)​
 
Columnist
Anjum Farooq
Part-2

ارطغرل غازی ‘‘اور’’عشقِ ممنوع‘‘
(آخری حصہ)

ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ جب سے ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے‘ ایسی فلمیں تواتر سے بنائی جا رہی ہیں‘ جن میں مسلمانوں کی تاریخ کو بری طرح مسخ کیا گیا ہے ۔سنجے لیلا بھنسالی نے '' پدماوت‘‘ اور'' باجی راؤمستانی‘‘میں مسلمان حکمرانوں کو عیاش اور ہندوؤں کو مہان دکھایاہے ۔ کیا آج ڈراما سیریل ''ارطغرل غازی‘‘ پر تنقید کرنے والے پاکستانیوں نے فلم'' پدماوت‘‘ میں حسن کے لیے لڑی جانے والی جنگ کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر سراہا نہیں تھا ؟یہ سچ ہے کہ پاکستان کی فلم مارکیٹ اتنی بڑی نہیں کہ ہم ایسی فلمیں بنا سکیں اور بھارت کا مقابلہ کرسکیں ۔فلم دشمن سماج اور وسائل کی بیڑیاں ہمیں ایسا کرنے سے روکتی ہیں۔ویسے بھی فلم اور ڈرامے کے حوالے سے ہمارے ذہنوں نے ابھی بلوغت کی دہلیز پار نہیں کی‘ اس لیے ہمیں ''ارطغرل غازی‘‘ پر ہی گزارا کرنا پڑے گا ۔

انسانی نفسیات کی تطہیر اور پاکیزگی کے لیے جدید تعلیم نہایت ضروری ہے‘ تاکہ معلوم ہوسکے کہ مذہب کی بنیادی روح اخلاق ِ عالیہ کا حصول ہے‘ نہ کہ بے جا تنقید اور گالی کو کار ثواب سمجھنا ۔میرے جذباتی پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ'' ارطغرل غازی‘‘ کو ضرور پسند کریں اور ترکوں کو بھی سراہیں‘ مگر مذہبی جذبات کو آرٹ سے اوپر مت ابھرنے دیں ۔ یہ تاریخ ہے‘ جو گزر چکی۔ اب‘ مسلم اُمہ ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ہر کوئی اپنے معاشی مفادات کو دیکھ کر فیصلے کرتا ہے ۔ ارطغرل اور حلیمہ سلطان آپ کے آئیڈیل ہو سکتے ہیں اور دوسرے ہیروز کی طرح آپ کے خوابوں میں آسکتے ہیں ‘مگر وہ پاکستانی نہیں ۔ خدارا‘ ایک ترک ڈرامے کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ مت اچھالیں اور اپنی شناخت کو مٹی میں مت ملائیں۔

ویسے یہ کوئی پہلا موقعہ نہیں کہ جب پاکستانیوں نے دوچہرے دنیا کو دکھائے ہوں ۔آپ 2012ء میں چلنے والے ترک ڈرامے ''عشق ممنوع ‘‘کو یاد کریں‘ یہی شکلیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی نظر آئیں گی‘ مگر مختلف نظریات کے ساتھ ۔ آج جو پاکستانی ترک ڈرامے ''ارطغرل غازی‘‘ کو اسلام کی شمشیر قرار دے رہے ہیں‘ کل یہی لوگ ترک ڈرامے ''عشق ِممنوع‘‘ کو پاکستانی کلچر کے لیے تباہی تصور کرتے تھے اور کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ترکی یورپ میں شامل ہونے کیلئے فحاشی پھیلا رہا ہے ۔ اس ڈرامے کا موضوع تھوڑا لبرل تھا‘ اس لیے ہمارے کچھ پاکستانی بھی دل دے بیٹھے تھے ۔ یہ وہی لوگ تھے‘ جوآج ''ارطغرل غازی‘‘ کو پاکستانی شناخت کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔ کیسے لوگ ہیں‘ جن کے خیالات گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ 2012ء میں ترکی کا ڈراما ٹھیک تھا‘ مگر 2020ء میں ترکی کا ڈراما غلط ہو گیا۔ شاید یہ لوگ فن نہیں‘ نظریات دیکھتے ہیں ‘ پروڈکشن نہیں‘ موضوع ان کا مسئلہ ہوتا ہے ۔انہیں معلوم ہو کہ اتنی تنگ نظری فلم نگری میں ممنوع ہوتی ہے ۔ آپ نے ڈراما نہیں دیکھنا‘ مت دیکھیں ‘ مگر تنقید کو سلا دیں ‘تھوڑا معاشرے کا بھلا ہو جائے گا۔

عقائداور نظریات کا دفاع ہمیشہ استدلال سے ہو تا ہے‘ نہ کہ جذباتی تقریروں سے۔ محمد بن قاسم اور راجہ داہر کے معاملے میں بھی ایساہی ہوا۔ جذبات حاوی رہے‘ دلیل پر اور پھر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا ۔ میرے خیال میں یہ موضوع'' ارطغرل غازی‘‘ سے زیادہ حساس نوعیت کا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راجہ داہرسندھ دھرتی کا رہنے والا تھا اورمحمد بن قاسم عرب ۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ نسیم حجازی کا ناول تاریخ سے زیادہ فکشن ہے‘ مگر آپ کو پڑھنے پر مجبور کون کر رہا ہے ؟ آپ قلم اٹھائیں اور صحیح تاریخ لکھ دیں‘کس نے آپ کو روکا ہے ؟ تنقید کرنا جتنا آسان ہے ‘تاریخ کے کڑوے سچ کو بیان کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔

آپ راجہ داہر کو اپنا ہیرومانتے ہیں تو ضرور مانیں‘ مگر یاد رکھیں آپ یہ کرتے ہوئے دوقومی نظریے کی نفی کر یں گے اور پاکستان کے قومی بیانیے کو رد ۔ قائداعظمؒ نے 13 جنوری8 194ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں کہا تھا ''ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا ‘بلکہ ہم ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے ‘جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں‘‘۔

اگر ہم بطورِ مسلمان اور پاکستانی راجہ داہر کو اپنا ہیرو مان لیں تو انڈیا کے خلاف ہمارا نعرہ کمزور پڑ جائے گا ۔ ہمیں یہ ماننے میں آر محسوس نہیں کرنی چاہیے کہ ہندو راجپوتوں‘ مراٹھوں اور سکھوں کیخلاف برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ اتنی روشن نہیں کہ اس پر فخر کیا جاسکے۔ دلی کا تخت حاصل کرنے کے لیے جب جب ہندوحکمرانوں کو مات دی‘ باہرسے آنے والے مسلمانو ں نے دی ۔ نہ مغلوں کا تعلق برصغیر سے تھا ‘ نہ احمد شاہ ابدالی ‘ نہ شہاب الدین غوری اور نہ محمود غزنوی ‘مگر پاکستان انہیں اپنا ہیرو مانتا ہے‘ اسی لیے ہمارے میزائلوں کے نام تک ان کے ناموں پر رکھے گئے ہیں ۔میری نظر میں محمد بن قاسم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے‘ راجہ داہر ہندوؤں کا ہیرو ہے اور محمد بن قاسم مسلمانوں کا ہیرو ہے ۔ کوئی اس حقیقت کو نہیں مانتا تو دو قومی نظریے کو پڑھے‘ جس پر ان کے اجداد نے لبیک کہا تھا ۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ معروف مذہبی سکالر مولانا محمود الحسن جو تحریک ِ پاکستان کے اہم رکن تھے‘ ان سے کسی نے پوچھا '' یہ مسلمان عجیب قوم ہے‘ رسول پاکﷺ کی کوئی سنت بتائیں یا نماز کے لیے کہیں تو آمادہ نہیں ہوتے ‘ اخلاقی معاملات جیسے جھوٹ ‘ ملاوٹ اورفریب نہ دینے کی تلقین کریں ‘تو عمل نہیں کرتے‘ مگران سے اپنے اسلاف کی توہین برداشت نہیں ہوتی‘ جان دینے اور لینے کو تیار ہو جاتے ہیں‘‘ ۔ مولانا محمود الحسن صاحب کا جواب نہایت دلچسپ تھا۔ انہوں نے کہا ''یہ ِمذہبی نہیں‘ بلکہ قومی جذبے سے ہوتا ہے ‘‘۔اس حوالے سے میرا سوال ہے کہ میرے پاکستانیوں کا قومی جذبہ کہاں چلا گیا ہے‘ ہم کیوں اپنے روشن باب کو اپنے ہاتھوں سے بند کررہے ہیں؟

جن کے لیے اپنے موروثی نظریات اور گروہی مفادات سے جان چھڑانا مشکل ہے ‘ وہ ''ارطغرل غازی ‘‘کی تلوار کو بھول کر ابن ِعربی کے کردارسے سیکھیں ‘جس سے ذہنوں پر لگے تالے کھلنے لگیں گے۔ان کے افکار ‘ خیالات اور طرزِعمل میں شدت کم ہو جائے گی !

@Recently Active Users
 
@intelligent086
یہ رات دو بجے کے بعد کی کارکردگی ہے 😅آپ دل اور دماغ کی حالت جنگ میں اسوقت پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں کسی کو پھڑکا نا دینا 🤔 ماریہ محرومہ 😂 کامشورہ مان لینا تھا صرف قرآن پاک تسلی سے مکمل کر لیں لیکن نشہ پورا نہیں ہوتا...!!! ماشاءاللہ اچھا کام ہے جاری رکھیں اگر کوئی جونیئر آپ کا ہاتھ بٹاتا ہے تو پروف ریڈنگ خود کر لیا کریں وجہ کافی سقم پایا جاتا ہے
اول اور دوم دونوں حصے پڑھے ہیں کالم نگار کے تجزیے سے کسی حد اتفاق ہے سمجھانے کی کوشش میں کافی دائیں بائیں ہوئے ہیں، آخر میں ابن عربی کا مشورہ دے دیا، حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور ابن عربی پر آپ سے پہلے بھی بات ہو چکی ہے. اس میں ایک اور فرد
@Saad Sheikh
بھی ملوث ہیں کیونکہ عشق ممنوع اور ارطغرل جیسا امیج آپ کا کام نہیں.. چپ چاپ ڈرامہ دیکھو صرف ڈرامہ سمجھ کر، رہی بات کالم نگاروں کی تو چینی سکینڈل کی رپورٹ شائع ہو گئی ہے🤣 تین سو پیج ہیں ان کا وقت اچھا گزر جائے گا
 

@intelligent086
یہ رات دو بجے کے بعد کی کارکردگی ہے 😅آپ دل اور دماغ کی حالت جنگ میں اسوقت پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں کسی کو پھڑکا نا دینا 🤔 ماریہ محرومہ 😂 کامشورہ مان لینا تھا صرف قرآن پاک تسلی سے مکمل کر لیں لیکن نشہ پورا نہیں ہوتا...!!! ماشاءاللہ اچھا کام ہے جاری رکھیں اگر کوئی جونیئر آپ کا ہاتھ بٹاتا ہے تو پروف ریڈنگ خود کر لیا کریں وجہ کافی سقم پایا جاتا ہے
اول اور دوم دونوں حصے پڑھے ہیں کالم نگار کے تجزیے سے کسی حد اتفاق ہے سمجھانے کی کوشش میں کافی دائیں بائیں ہوئے ہیں، آخر میں ابن عربی کا مشورہ دے دیا، حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور ابن عربی پر آپ سے پہلے بھی بات ہو چکی ہے. اس میں ایک اور فرد
@Saad Sheikh
بھی ملوث ہیں کیونکہ عشق ممنوع اور ارطغرل جیسا امیج آپ کا کام نہیں.. چپ چاپ ڈرامہ دیکھو صرف ڈرامہ سمجھ کر، رہی بات کالم نگاروں کی تو چینی سکینڈل کی رپورٹ شائع ہو گئی ہے🤣 تین سو پیج ہیں ان کا وقت اچھا گزر جائے گا
جی ٹیم ورک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو ان دنوں ہے ہی حالت جنگ میں جھوٹ کتنا لکھنا ہے یہی سوچتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اللہ معاف کرے
طنزیہ حوصلہ افزائی کا شکریہ
اگر کمی بیشی ہو جائے تو ایڈمن درست کر دیتے ہیں اس لیئے زیادہ محتاط نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اس نے ’’ محرومہ ‘‘ کی مرحومہ پڑھ لیا تو سختی آ جائے گی
ڈرامہ دیھنے کی فرصت نہیں آپ لوگ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا علمی اختلاف ہے یہ سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
جی ٹیم ورک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو ان دنوں ہے ہی حالت جنگ میں جھوٹ کتنا لکھنا ہے یہی سوچتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اللہ معاف کرے
طنزیہ حوصلہ افزائی کا شکریہ
اگر کمی بیشی ہو جائے تو ایڈمن درست کر دیتے ہیں اس لیئے زیادہ محتاط نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اس نے ’’ محرومہ ‘‘ کی مرحومہ پڑھ لیا تو سختی آ جائے گی
ڈرامہ دیھنے کی فرصت نہیں آپ لوگ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا علمی اختلاف ہے یہ سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
@intelligent086
سمجھا کرو مزاق کا جواب اتنا سنجیدہ
چھوڑیں آرام کر لیا کریں
 
@intelligent086
یہ رات دو بجے کے بعد کی کارکردگی ہے 😅آپ دل اور دماغ کی حالت جنگ میں اسوقت پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں کسی کو پھڑکا نا دینا 🤔 ماریہ محرومہ 😂 کامشورہ مان لینا تھا صرف قرآن پاک تسلی سے مکمل کر لیں لیکن نشہ پورا نہیں ہوتا...!!! ماشاءاللہ اچھا کام ہے جاری رکھیں اگر کوئی جونیئر آپ کا ہاتھ بٹاتا ہے تو پروف ریڈنگ خود کر لیا کریں وجہ کافی سقم پایا جاتا ہے
اول اور دوم دونوں حصے پڑھے ہیں کالم نگار کے تجزیے سے کسی حد اتفاق ہے سمجھانے کی کوشش میں کافی دائیں بائیں ہوئے ہیں، آخر میں ابن عربی کا مشورہ دے دیا، حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اور ابن عربی پر آپ سے پہلے بھی بات ہو چکی ہے. اس میں ایک اور فرد
@Saad Sheikh
بھی ملوث ہیں کیونکہ عشق ممنوع اور ارطغرل جیسا امیج آپ کا کام نہیں.. چپ چاپ ڈرامہ دیکھو صرف ڈرامہ سمجھ کر، رہی بات کالم نگاروں کی تو چینی سکینڈل کی رپورٹ شائع ہو گئی ہے🤣 تین سو پیج ہیں ان کا وقت اچھا گزر جائے گا
چیونٹی کے پر 🤔🤫
 
جی ٹیم ورک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو ان دنوں ہے ہی حالت جنگ میں جھوٹ کتنا لکھنا ہے یہی سوچتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اللہ معاف کرے
طنزیہ حوصلہ افزائی کا شکریہ
اگر کمی بیشی ہو جائے تو ایڈمن درست کر دیتے ہیں اس لیئے زیادہ محتاط نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر اس نے ’’ محرومہ ‘‘ کی مرحومہ پڑھ لیا تو سختی آ جائے گی
ڈرامہ دیھنے کی فرصت نہیں آپ لوگ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا علمی اختلاف ہے یہ سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
قابل غور اصطلاح باز آ جا ئے تو اچھا ہے
@Mem00na
 
Back
Top