Ertugrul Service Station By Sohail Ahmad Qaisar

ارطغرل سروس سٹیشن ۔۔۔۔۔۔ سہیل احمد قیصر

خدا کے فضل و کرم سے ان دنوں پوری قوم ارطغرل سروس سٹیشن پر نہا دھوکر ذہنی اور جسمانی کثافتوں کو ختم کررہی ہے۔ہیروز کی کمی کے شکار ہم ‘ بڑھ چڑھ کر ارطغرل صاحب کی مدح و سرا میں مگن ہیں۔ ڈراما دیکھنے والوں کو لبھانے کے لیے وہی حربے استعمال کیے جارہے ہیں‘ جو ایسے کسی بھی ڈرامے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ وہ مشہور عالم طریقے کہ تاریخ کو سیاق و اسباق سے ہٹ کر پیش کرنا اور اس کے ساتھ ہر وہ مصالحہ ڈالنا‘ جس سے دیکھنے والوں کو لطف آجائے۔ وجہ بہت سیدھی اور صاف ہے کہ قلم لکھنے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے‘ جواب دہی کا کوئی ڈر ہوتا نہیں ‘ تو پھر جو جی چاہے لکھ ڈالیں ‘ دیکھنے والوں نے کون سی تصدیق کرناہوتی ہے کہ ڈرامے میں کیا دکھایا جارہا ہے؟ تاریخ کا کیا ہے؟ وہ تو بس ایسے ہی موم کی ناک ہوتی ہے‘ جس طرف چاہے مروڑ لی جائے۔ بس‘ اس حوالے سے دوچار مزید باتیں کرنا ہی مقصود ہیں کہ ہم ٹھہرے زمانے بھر کے جذباتی‘ جس کیخلاف ہوئے تو جی جان سے خلاف ہوگئے اور جو ہمیں پسند آگیا‘ اسے سرآنکھوں پر بٹھا لیا‘ وہ تو بہت بعد میں معلوم پڑتا ہے کہ ہم کس کو اپنے سروں پر سوار کربیٹھے ہیں اور یہی کچھ ہم اس وقت بھی سوچ رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ آخر ہمارے ساتھ ہوکیا رہا ہے؟ اسی طرح اب ہماری جانے بلا کہ ''ارطغرل ‘‘کون تھا اور اسے کیا بنا کر پیش کیا جارہاہے۔اس ضمن میں بس ‘چند ایک حقائق پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں:
بلاشبہ ترکی ایک شاندار تاریخ کا حامل ملک ہے‘ جہاں قائم عثمانی سلطنت صدیوں تک دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھوں کا تارا رہی ۔ اس ملک کی تاریخ کو اگر صحیح سے جاننا ہو تو اس کے لیےCambridge History of Turkey کی چار جلدیں کافی بہتر ذریعہ ہیں۔ پڑھنے کا موقع ملے تو ترک مورخین کی لکھی ہوئی اس کتاب کی پہلی جلد کے صفحہ 118کا مطالعہ ہی کرلیجئے گا۔ بہت کچھ سمجھ میں آجائے گا ۔ مختصراً ہم بھی آپ کو بتا دیتے ہیں کہ لکھنے والے کیا لکھتے ہیں:''ارطغرل کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے ‘لیکن اس کی موجودگی کا پتہ اس کے بیٹے عثمان کے جاری کردہ ایک سکے سے چلتا ہے۔ ‘‘اب‘ ظاہر ہے کہ جب کسی شخص کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہوگا تو پھر اُس کے بارے میں تفصیل کیا دی جاسکتی ہے۔ یہ وجہ رہی کہ چار جلدوں پر مشتمل اس شاندار کتاب میں ارطغرل نامی شخص کا مزید کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔ دوسری طرف ‘اگر ترکی پر لکھی جانے والی اُردو کی کتابوں پر نظر دوڑائی جائے تو ڈاکٹر محمد عزیز کی لکھی ہوئی کتاب دولت ِعثمانیہ بہت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ کتاب لکھے جانے کا مقصد مسلمانان برصغیر کو ترکوں کے کارناموں سے روشناس کرانا تھا۔ ڈاکٹر عزیز اپنی تحریر میں تسلیم کرتے ہیں کہ قبیلے میں سے جس پہلے شخص نے اسلام قبول کیا تھا‘ اُس کا نام عثمان تھا۔ تاریخ میں دوسری بہت سی شہادتیں بھی ملتی ہیں ‘جو ڈرامے میں دکھائی جانے والے بہت سے مناظر کی نفی کرتی ہیں۔ خود ترکی کے ایک مورخ نشری کی تحریر بھی بہت کچھ واضح کرتی ہے ۔ سو‘ کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ فکشن کے طور پر تو ڈراما بہت شاندار ہے‘ لیکن خدارا تاریخ کو تو نہ مسخ کیجئے۔ اس میں اسلامی تاریخ کے سنہری دور کی تلاش میں تو ٹامک ٹوئیاں مت مارئیے یا پھر تصورِ جہادکو ڈھونڈنے کی کوشش بھی ایک طرف ہی رکھی جائے تو عین کرمفرمائی ہوگی۔ بقول امریکن یونیورسٹی ‘بیروت کے ماہر بشریات جوش کارنی کے؛ارطغرل پر سیریز بنانا ایسے ہی تھا‘ جیسے خالی سلیٹ پر اپنی مرضی کے رنگ بھرنا۔۔۔‘‘ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہیروز کی کمی کا شکار ایسی قوم ہیں کہ جس میں بھی ہمارے تصورات کی ہلکی سی جھلک دکھائی دے جائے ‘تو بس پھر ہم اُسی کے ہورہتے ہیں۔
ویسے ہمارے ہاں یہ سب کچھ ہونے میں کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ ہروقت ہنڈیا میں کچھ نہ کچھ اُبلتا ہی رہتا ہے‘ جس میں سے شوگر مافیا کی صورت کچھ مال تازہ برآمد ہوچکا ۔ ان کے لیے پریشانی کی بات اِس لیے نہیں کہ ہمارے ہاں ارطغرل سروس سٹیشن جیسی سہولیات ہر دور میں ہی دستیاب رہتی ہیں ‘جہاں یہ مافیا زنہا دھو کر پھر سے تازہ دم ہوجاتے ہیں ۔کسی بڑی جماعت کا کوئی رہنما پیسہ کمانے میں پیچھے رہ گیا ہوتو ہمیں بھی ضرور آگاہ کیجئے گا۔ جٹے ‘مرزے‘ زردار‘ شریف ‘ چوہدری اور کمی سب کے سب اس حمام میں ننگے دکھائی دیتے ہیں۔ بس‘ اب توجیہات اور وضاحتیں ہیں‘ جو پیسہ کمانے والوں کی طرف سے پیش کی جارہی ہیں۔ کسی کو اس بات پر حیرت ہورہی ہے کہ اُس کا نام کیسے رپورٹ میں آگیا؟ کوئی اس پر انگلی دانتوں میں دبائے بیٹھا ہے کہ اُس نے سب کچھ بہت خفیہ طور پر انجام دیا تھا تو پھرکیوں کر سب کچھ طشت از بام ہوگیا؟بس ‘یہ غلط فہمی ہی ہوتی ہے‘ جو دوسروں کے سروں پر چڑھ کر ناچنے والوں کو اندھیرے میں رکھتی ہے کہ کسی کو کچھ معلوم نہیں پڑتا۔ اسی غلط فہمی میں کوئی ایک چھوٹی سی غلطی بھی پورے ملک میں غلغلہ برپا کردیتی ہے۔ شور تو ایک عرصے سے مچ رہا تھا کہ جنوبی پنجاب میں کپاس کے رقبے پر گنا اُگائے جانے کا رحجان بڑھ رہا ہے‘ لیکن جب سب ملے ہوں تو کون ایسے شور پر کان دھرتا؟ رپورٹ کو بغور پڑھیں تو آسانی سے اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے کہ شوگر مافیا کے ارکان تہہ در تہہ پرا ٹھے کی مانند فراڈ کے مرتکب ہورہے تھے۔ چینی برآمد کیے جانے پر فراڈ‘ چینی پیداوار پر اُٹھنے والے اخراجات کے غلط اعدادوشمار اور پھر بھاری سبسڈی کا بھی حصول۔ پچھلی حکومتوں میں وزرا ء کرام کی فہرستیں اُٹھا کر دیکھ لیجئے ‘ بیشتر حکومتوں میں شوگر مافیا کے اراکین نمایاں وزارتوں پر براجمان دکھائی دیں گے۔ موجودہ حکومت جب برسراقتدار آئی تو ان کی بڑی تعداد اس حکومت میں بھی اثرورسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اب نتیجہ ان کی کی گئی 150ارب روپے کمائی کی صورت سب کے سامنے ہے۔
رپورٹ سامنے لانے والے رپورٹ سامنے لانے کا کریڈٹ لینے کی بھرپور سعی کررہے ہیں۔ یہ تک کہا جارہا ہے کہ حکومت کوجٹے ‘مرزے‘ زردار‘ شریف ‘ چوہدری اور کمی تک کی ناراضگی کا صدمہ بھی جھیلنا پڑ سکتا ہے ‘لیکن حکومت نے تمام تر خدشات کے باوجود بڑارسک لیا ہے۔ یہ سب اپنی جگہ ‘ لیکن اس بات پر کان نہیں دھرا جارہا ہے کہ شوگر مافیا کو کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کرنے والے کون تھے؟رپورٹ میں اسد عمر کی طرف سے دئیے جانے والے بیان کو غیرتسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔کمیشن نے چینی کی برآمد کے حوالے سے وزیراعظم کے مشیر عبدالرزاق داؤدکے دلائل سے بھی اتفاق نہیں کیا ۔اسی طرح سبسڈی دئیے جانے کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بیان کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اس تمام چاک چکر میں مسابقتی کمیشن کا کردار بھی سوالیہ نشان بنا دکھائی دیتا ہے ۔ ان حالات میں‘ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ اب قانون کا پہیہ حرکت میں آئے گا تو فی الحال ایسی اُمیدوں کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے ۔ وجہ بہت سیدھی اور صاف ہے کہ اگر پیسہ کمانے والے زد میں آئیں گے ‘تو پھر یہ مواقع فراہم کرنے والوں پر بھی چھینٹے پڑیں گے۔ سلسلہ مزید آگے بڑھا تو کوئی بھی نہیں بچے گا ۔ ان حالات میں کہ جب حکومت پہلے ہی لعن طعن کا نشانہ بنی ہے ‘ کون کیوں کر یہ رسک لے گا ؟ یوں بھی ہمارے ہاں ہردور میں ہی ارطغرل سروس سٹیشن جیسی سہولت دستیاب رہی ہے ‘جہاں نہا دھو کر سب پاک صاف ہوجاتے ہیں۔ ماضی کا کیا ہوتا ہے‘ اُسے تو جس طرح چاہے ‘پیش کیا جاسکتا ہے ۔بس‘ کچھ وقت گزرنے کی بات ہوتی ہے۔
اس مرتبہ تو ماہ رمضان کی رونقیں نہ دکھائی دینے سے دل پہلے ہی بجھا ہواتھا کہ اس کے اختتام پر پیش آنے والے طیارہ حادثے نے پوری قوم کو افسردہ کردیا۔ کورونا نے کیا کم ستم ڈھایا ہوا تھا‘ جو عین عید کے موقع پر متعدد پیارے دنیا سے منہ موڑ گئے۔ عید تو پہلے ہی پھیکی پھیکی سے گزرنی تھی‘ لیکن طیارہ حادثے کے بعد تو تمام رنگ ہی پھیکے پڑ گئے ۔ جانے والے جا چکے اور اپنے پیچھے وہی روایتی سی بحث چھوڑ گئے ہیں کہ اس میں کس کا قصور تھا؟ بحث کا بھی کیا نتیجہ نکلنا ہے‘ وہی جو اس سے پہلے ایسے واقعات میں نکلتا رہا ہے۔ یقین نہیں آتا تو ملک میں اس سے پہلے پیش آنے طیاروں کے حادثات یا پھرپے درپے پیش آنے والے ٹرین حادثات کی تحقیقات کے نتائج دیکھ لیں۔ تمام صورتِ احوال واضح ہوجائے گی۔ انسان کو کچھ تو اپنی بات کا پاس ہوتا ہے ‘لیکن افسوس کہ کسی طرف سے بھی ٹھنڈی ہوا نہیں آرہی۔ بس‘ جھوٹ ہی جھوٹ ہے اور تو کچھ سنائی نہیں دے رہا۔
 
Columnist
Sohail Ahmed Qaisar
@intelligent086
ان کے پاس یہی موضوع رہ گیا ہے ان کی روزانہ کی بک بک یہاں شامل نا کیا کرو ڈرامہ سیریل ہے ہر عقل مند کو پتا ہے
 

Back
Top