Quran Hadith Esaar o Hamdardi aur Muhabbat Islami Muashray ka Husan By Ilyas Ghuman

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231

ایثار و ہمدردی اور محبت اسلامی معاشرے کا حسن
تحریر : مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ تعالیٰ کی محبت، معرفت، خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی ضروریات کو اپنی ذاتی ضروریات و حاجات پر ترجیح دینا ’’ایثار‘‘ کہلاتا ہے۔ ویسے تو یہ سخاوت ہی کی ایک قسم ہے لیکن عام طور پر سخاوت اور ایثار میں یہ فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ سخاوت تب کی جاتی ہے جب اپنے پاس مال و زر خاطر خواہ مقدار میں موجود ہو جبکہ ایثار خود بھوکے پیاسے اور شدید حاجت مند ہونے کے باوجود اپنے مسلمان بھائی کی ضروریات کو پورا کرنے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ جود و سخاء ، فیاضی و دریا دلی کا اعلیٰ ترین درجہ ہے۔یہ عمل اسلامی معاشرت کا وہ روشن باب ہے جس کی تابانیوں سے اقوامِ عالم میں اہلِ اسلام کے چہرے چمک رہے ہیں، دیگر اوصاف حمیدہ اور صفات حسنہ کی طرح ایثار بھی اہلِ ایمان کی خاص پہچان ہے، تبلیغ دین کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ اب انسان میں جہاں تعاون کے مثبت جذبات ہیں جیسے ہمدردی، محبت، بھائی چارہ، ایثار و قربانی وغیرہ، اسی طرح انسان میں منفی جذبات بھی ہیں جیسے نفرت، خود غرضی، حسد ، کینہ و بغض اور دشمنی وغیرہ۔ ان آپس میں ٹکرانے والے جذبات کے نتیجہ میں انسانوں کو ایسے اصولوں پر عمل کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی جس سے انسانوں کو سماجی تحفظ حاصل ہو۔ اس کی بدولت معاشرہ بدحالی سے خوشحالی، بدامنی سے امن، تنزلی سے ترقی، بے سکونی سے راحت اور بے حسی سے احساس کی طرف گامزن ہوتا ہے یعنی غم مٹتے اور خوشیاں جنم لیتی ہیں۔ آج کی جدید دنیا باہمی محبت کے لیے ہزار جتن کر رہی ہے لیکن اسلامی طرز معاشرت اور اسلامی تعلیمات پر عمل کیے بغیر یہ خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا کیونکہ دین اسلام بقائے باہمی کا نہ صرف یہ کہ نظریہ پیش کرتا ہے بلکہ اس نظریہ کو اپنانے کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں ایک اہم سبق محبت اور ایثار و ہمدردی کا بھی ہے۔ اس کی معاشرتی اہمیت وضرورت کے پیشِ نظر قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت تلقین کی گئی ہے۔مسلمانوں نے ہر شہر میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا گھر یعنی مسجدیں تعمیر کیں۔ مسجد میں اسلامی معاشرت نشوونما پاتی ہے۔ علم دین کی اشاعت کا بہترین مرکز ہمیشہ مسجد ہی رہی ہے۔ عبادات کے علاوہ مسلمان مساجد میں اخوت، مساوات، ایثار و ہمدردی کے قیمتی جوہر حاصل کرتے ہیں۔ آداب مجلس اور آداب معاشرت کے اصولوں کی عملی تربیت بھی مساجد میں سرانجام پاتی ہے اس لیے اسلامی معاشرت کی تعمیر و ترقی کے لیے مساجد کا وجود نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر عامۃ المسلمین کی تربیت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ نماز کے متعلق ارشادِ نبویﷺ ہے فرض نماز مسجد کے بغیر ہوتی ہی نہیں۔ بعض جگہ ارشاد ہے جو شخص مسجد کی اذان سنے اور مسجد میں نہ آئے وہ منافق ہے۔ نیز مسلمانوں کی تنظیم اور اصلاح کے لیے مساجد نہایت ضروری ہیں۔

۔1:قرآن کریم نے اہلِ ایمان (انصار ِمدینہ) کے دیگر اوصاف کے تذکرے کے ساتھ جذبہ ایثار و ہمدردی کو سراہتے ہوئے اس کی خوب تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے کہ ’’وہ خود بھوکے پیاسے اور شدید حاجت مند ہونے کے باوجود اپنے آپ پر اپنے مسلمان بھائیوں(کی ضروریات پورا کرنے) کو تر جیح دیتے ہیں‘‘۔ سورۂ حشر میں اللہ تعالیٰ نے ایثار کرنے والوں کا تذکرہ فرمایا کہ بہترین انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو خسارے میں رکھ کر دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دے۔ ایک معالج کو اپنا آرام و راحت قربان کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کرنا پڑتی ہے۔ معالج کلینک یا ہسپتال سے آیا ابھی آرام سے بیٹھا بھی نہ تھا کہ کسی سنجیدہ کیس کی اطلاع آجاتی ہے، یہ لمحہ معالج کے لیے انتہائی صبر آزما ہوتا ہے اور یہی ایثار کا موقع ہوتا ہے۔ کسی انجینئر کو خبر ملتی ہے کہیں زلزلے کے بعد اس کی ضرورت ہے اور وہ اپنا سب کچھ، حتیٰ کہ آرام بھی چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتا ہے، اپنا وقت دیتا ہے اور ان کے لئے کام کرتا ہے، تو یہ بھی ایثاروہمدردی کی ایک نشانی ہے۔اخوت اسلامی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی مشکلات میں کام آئے اور دنیاوی پریشانیوں اور دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ پوری کوشش کرے کہ کسی مسلمان کو اس سے تکلیف نہ پہنچے۔ روزہ ایثار اور قربانی کا سبق دیتا ہے اسے اپنے معاشرہ میں ہر فرد کے ساتھ استعمال کرنے کی کوشش کرے اگر تاجر ہے تو ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کرنے یا ماپ تول کی کمی کر کے مسلمان بھائیوں کی مشکلات میں اضافہ کا سبب نہ بنے۔ سورۃ الحشر کی آیت نمبر 9 اگرچہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی، لیکن احکامات قرآنیہ کا اسلوب یہ ہے کہ اس سے مقصود پوری امت کو تعلیم دینا ہوتا ہے

۔2:اس آیت کے شان نزول کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، جس میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ!مجھے بھوک نے ستایا ہوا ہے۔ آپﷺ نے اپنے تمام گھروں سے معلوم کرایا، وہاں سے کچھ نہ ملا تو آپﷺ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا کہ کوئی ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ میں مہمانی کروں گا۔ ان کو گھر لے گئے اور بیوی سے فرمایا کہ یہ حضورﷺ کے مہمان ہیں ان کی مہمان نوازی میں کمی نہ ہونے پائے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا خدا کی قسم بچوں کے لیے کچھ تھوڑا سا رکھا ہے اور کچھ بھی گھر میں نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور جب وہ سو جائیں تو کھانا لے کر مہمان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور تو چراغ درست کرنے کے بہانے سے اٹھ کر اس کو بجھا دینا۔ چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور دونوں میاں بیوی اور بچوں نے فاقہ سے رات گزاری۔ اور قرآن کریم کی آیت یْؤثِرْونَ عَلٰی اَنفْسِہِم نازل فرمائی۔
(صحیح بخاری )

فائدہ:۔اسی آیت کے ذیل میں امام نسفی رحمہ اللہ نے تفسیر مدارک التنزیل میں ایک واقعہ نقل فرمایا ہے کہ ابو زید کہتے ہیں مجھے اہل بلخ کے ایک نوجوان نے پوچھا کہ آپ کے لیے زہد کیا ہے ؟ تو میں نے جواب دیا کہ اذا وجدنا اکلنا جب مل جاتا ہے تو کھا لیتے ہیں واذا فقدنا صبرنا اور جب نہیں ملتا تو صبر کرتے ہیں۔ تو وہ مجھے کہنے لگا کہ یہ تو ہمارے ہاں بلخ میں بھی پایا جاتا ہے، پھر اس نے کہا کہ زہد یہ ہے کہ اذا فقدنا صبرنا جب ہمیں نہیں ملتا تو ہم صبر کرتے ہیں واذا وجدنا اثارنا اور جب ہمیں ملتا ہے تو ہم ایثار کرتے ہیں

۔3:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپﷺ نے ایک شخص کو دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ عنایت فرمایا۔ دوسرا شخص آپﷺکی اس دریا دلی فیاضی سخاوت اور ایثار وہمدردی سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا : ’’اے لوگو! اسلام لے آؤ کیونکہ اس دین کی طرف بلانے والے حضرت محمدﷺ (اس قدر سخی ہیں اور) اتنا دیتے ہیں کہ وہ اپنا سب کچھ دینے کی بھی پروا نہیں کرتے۔ (صحیح مسلم )حضرت رسول اللہﷺ کی ایثار و ہمدردی صرف اپنی ذات کی حد تک محدود نہ تھی۔ آپﷺ نے اپنے اہل و عیال اور قریبی متعلقین کو بھی اس کا سختی سے پابندکرکے ساری دنیا کے لیے تاقیام قیامت یہ واضح پیغام دیا کہ ایثار و ہمدردی جیسی انسانی خدمت کو محض سیاسی مفادات اور بیان بازی کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے بلکہ یہ وہ پھول ہیں جن کی بدولت اپنی عملی زندگی کے چمن میں بہاریں لائی جاتی ہیں

۔4: رب کریم نے سورۂ آل عمران میں ارشاد فرمایا،’’تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں کو الفت اور محبت سے جوڑ دیا اور پھر تم اس نعمت کی وجہ سے بھائی بھائی ہو گئے‘‘۔ آپس میں بھائی چارے کا اعلیٰ ترین معیار اس وقت نظر آتا ہے جب ہجرت مدینہ کے بعد رسول اللہﷺ نے مہاجرین اور انصار میں سے ایک دوسرے کو بھائی بنایا، پھر ہر انصاری نے اپنے مہاجر بھائی کو اپنے مال میں شریک کیا، اپنے گھر کا ایک فرد بنا لیا اور پھر ان بھائیوں کے لیے ہر مرحلہ پر ایثار سے کام لیا۔ جب انسان کسی دوسرے کے بچوں کو پالتا ہے، جس کے ماں باپ اس دنیا میں نہ ہوں، تو ان بچوں کے ساتھ بھی اپنے بچوں جیسا ہی پیار ہو جاتا ہے، محبت کے جذبات اس قدر شدید ہوتے ہیں کہ انسان ان پرائے بچوں کے لئے بھی اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے اور ایک آنچ نہیں آنے دیتا۔اگر ہم محبت پر بات کریں تو محبت کے جذبات کسی تشریح کے محتاج نہیں،ارشاد باری تعالیٰ ہے،

{ وَ مِنْ اٰ یٰتِہٖٓ اَ نْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَ نْفُسِکُمْ اَ زْوَاجًا لِّتَسْکُنُوآ اِ لَــیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَ دَّ ۃً وَّ رَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَـــکَّرُوْنَ } (پارہ ۲۱ ، سورئہ روم، آیت : ۲۱)

ترجمہ : ’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان سے آرام پاؤ، اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی ، یقینا غورو فکر کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔

تشریح: {مَوَدَّۃً} سے مراد یہ ہے کہ مرد بیوی سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ ایثار اور محبت کے بغیر زندگی کی گاڑی چل ہی نہیں سکتی۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے، ایثار اور محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیںہوتی ۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد، بیوی بچوں کو ہر طرح کی سہولت اور آسائشیں بہم پہنچاتا ہے۔ ان کے لئے خود مشکل میں رہتا ہے لیکن انہیں آرام پہنچانے کی کوشش کرتا ہے جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔ تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہیں جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے جو قانونِ شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کا جوڑا قرار دیتا ہے۔

شادی گھر بسانے کے لیے کی جاتی ہے۔ اگر میاں بیوی ایک دوسرے سے زیادہ تو قعات وابستہ کرنے اور ضد پر اڑ جانے کے بجائے در گزر کا رویہ اپنائیں تو گھر خوشیوں کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ یوں سمجھئے پُرسکون گھر اور معاشرہ پُرسکون ازدواجی زندگی سے مشروط ہے۔ بظاہر تو کوئی بھی لڑکی نئے گھر کی بنیاد اس لیے نہیں رکھتی کہ اسے آباد نہ کیا جائے، گھر کا ماحول خوشگوار نہ ہو، مگر بعض اوقات حالات موافقت نہیں رکھتے۔ بہت کچھ توقعات کے خلاف ہو جاتا ہے تو زندگی کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ ایسا ہونا درست نہیں، یہ طے ہے کہ مردوں کی بہ نسبت خوا تین کو زیادہ قربانیاں اور خدمات پیش کرنی پڑتی ہیں لیکن عورت کی قربانی اور ایثار سے ایک خوبصورت گھر اور معا شرہ تخلیق پاتا ہے تو اس سے بڑھ کر اعزاز کیا ہو گا۔ غور فرمائیے۔

ایثار و ہمدردی کے چند مواقع

دن رات میں ہمیں کئی بار ایسے لمحات میسر آتے ہیں جن میں ہم اس اسلامی حکم پر آسانی کے ساتھ عمل پیرا ہو سکتے ہیں لیکن معمولی سی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے ہم ان لمحات سے فائدہ حاصل نہیں کرتے ۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے شب و روز پر نگاہ ڈالیے تو بیسیوں ایسے مواقع مل جائیں گے۔ چند ایک پیش خدمت ہیں۔

کسی غریب ہمسائے کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی مدد کی جائے۔

کسی طالب کے پاس فیس یا کتاب کے پیسے نہ ہوں تو اس کی مدد کرنے سے بھی انمول خوشی ملتی ہے۔

بلوں کی ادائیگی کے لیے قطار بناتے وقت کمزور فرد کو جگہ دی جائے، اسے کسی مشکل میں دیکھ کر مدد کی جا سکتی ہے۔

کسی مقام پر لوگ جمع ہوتے ہوں تو وہاں پینے کے پانی کا کولر یا کوئی مشین لگائی جا سکتی ہے۔

دکان وغیرہ سے سودا سلف لیتے وقت دیکھو کہ آس پاس موجود کسی شخص کے پاس کوئی چیز خریدنے کے لئے پیسے کم پڑ رہے ہیں تو اس کی مدد کرنے سے بھی رب راضی ہوتا ہے۔

کسی تقریب وغیرہ میں شرکت کے وقت کوئی ضرورت مند نظر آئے تو اس کی مدد کرنے سے بھی سکون ملتا ہے۔

سفر کے دوران بس /ویگن/ ٹرین وغیرہ میں کمزور کے لئے جگہ چھوڑ دی جائے اور اگر کوئی مفلس تو اس کی دامے درمے مدد کی جائے ۔

ہسپتال وغیرہ میں پرچی یا دوائی لیتے وقت دوائوں سے محروم مریض یا اس کے تیمار داروں سے مالی تعاون کرنا بھی اسلام کا اہم سبق ہے۔

الغرض روزمرہ کی زندگی میں ہر ایسے موقع پر جہاں آپ اور کوئی دوسرا مسلمان بھائی دونوں برابر کے شریک ہوں تو وہاں اپنے بھائی کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے اسے ترجیح دیں اس سے دلوں میں محبت بھی پیدا ہوگی اور انسانی معاشرہ اسلامی طرز کے مطابق بھی ڈھلے گا۔ یہ مواقع ہم سے تھوڑا سا ایثار چاہتے ہیں۔ معمولی سی قربانی چاہتے ہیں اگر ہم سب بالخصوص دیندار طبقہ یہ تہیہ کر لیں کہ ہم ایثار و ہمدردی کی صفت کو اپنائیں گے تو یقین مانیے کہ دنیا اس کا یقین کر لے گی کہ اسلام صرف عبادات کا ہی دین نہیں بلکہ حسن معاشرت بھی اس کی روشن قندیل ہے۔
 

Back
Top