1567285245824-jpeg.jpg



عبدالحفیظ ظفر

کچھ لوگوں کو قدرت نے بہت سی خوبیاں عطا کی ہوتی ہیں۔ ان کے فن کی بہت سی جہتیں ہوتی ہیں اور وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں ایسے بے شمار نام لیے جا سکتے ہیں جن میں سے ایک نام ہے ریاض الرحمان ساغر۔ یکم دسمبر 1941ء کو بٹھنڈا (بھارت) میں پیدا ہونے والے ریاض الرحمان ساغر شاعر بھی تھے اور فلمی گیت نگار بھی۔ انہوں نے صحافت بھی کی اور کالم نویسی میں بھی نام کمایا۔ اس کے علاوہ ساغر صاحب نے مکالمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کا سکہ جمایا۔ انہوں نے پاکستانی فلموں، ریڈیو اور ٹی وی کیلئے 2000 سے زیادہ نغمات تخلیق کیے۔ اسی طرح انہوں نے 75 فلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے۔ ریاض الرحمان ساغر کے فلمی گیتوں کی کتاب شائع ہوئی جس کا نام تھا ’’میں نے جو گیت لکھے‘‘۔ اس طرح ان کی نثری تصنیفات میں ’’وہ بھی کیا دن تھے (خود نوشت) کیمرہ، قلم اور دنیا (سات ملکوں کے سفر نامے) لاہور تا ممبئی براستہ دہلی (بھارت کا سفرنامہ)، سرکاری مہمان خانہ (جیل میں بیتے لمحات پر کتاب)‘‘ شامل ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری کی بھی کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ ان میں ’’چاند سُر ستارے، آنگن آنگن تارے (اس کتاب میں شائع ہونے والی بچوں کی نظمیں سرکاری ٹی وی پر پیش کی گئیں) سورج کب نکلے گا ‘‘(نامکمل خود نوشت) شامل ہیں۔ ساغر صاحب نے غزلیں بھی لکھیں اور نظمیں بھی۔ خاص طور پر ان کی سیاسی نظمیں بہت مقبول ہوئیں۔ ان سب حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ساغر صاحب نے بہت کام کیا اور وہ کثیر الجہات شخصیت تھے۔ گیت نگاری کے میدان میں اپنے نام کا سکہ جمانا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن انہوں نے یہ بھی کر دکھایا۔ ساغر صاحب نے سب سے پہلے ہفت روزہ ’’لیل و نہار‘‘ میں کام کیا۔ لیکن انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہاں وہ لگن سے کام نہیں کر سکتے۔ وہ لاہور کے ایک اُردو روزنامے سے منسلک ہو گئے۔ انہوں نے پہلے انٹرمیڈیٹ کیا اور پھر پنجابی فاضل میں بی اے کیا۔ انہوں نے لاہور کے ایک روزنامے میں فلم ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں اور 1996 تک اسی ادارے کے ہفت روزہ جریدے میں بھی کام کیا۔ انہوں نے کالم نویسی کے فن کو ایک نیا روپ دیا۔ وہ پہلے کالم نویس تھے جنہوں نے نظم یا گیت کی شکل میں کالم لکھے۔ 1996 میں ان کا پہلا کالم ’’عرض کیا ہے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کالم میں سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ان کے آخری کالم کا عنوان تھا ’’صبح کا ستارہ چھپ گیا ہے‘‘۔ ریاض الرحمان ساغر نے 1958 میں پہلا فلمی گیت لکھا لیکن جس فلم کے لیے لکھا وہ ریلیز نہ ہو سکی۔ گیتوں کے حوالے سے ان کی جو پہلی فلم ریلیز ہوئی، اس کا نام تھا ’’عالیہ‘‘۔ لیکن انہیں اصل شہرت فلم ’’شریکِ حیات‘‘ کے اس گیت سے ملی ’’مرے دل کے صنم خانے میں اک تصویر ایسی ہے‘‘۔ انہوں نے ایک پنجابی فلم ’’عشق خدا‘‘ کے لیے بھی گیت لکھے جو ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی۔ انہوں نے جن مشہور فلموں کے مکالمے اور سکرپٹ لکھے ان میں ’’شمع، نوکر، سسرال، شبانہ، نذرانہ، عورت ایک پہیلی، آواز، بھروسہ، ترانہ اور مور‘‘ شامل ہیں۔ انہوں نے شباب کیرانوی کے ساتھ بہت کام کیا۔ وہ اپنے آپ کو قتیل شفائی کا شاگرد کہتے تھے۔ ریاض الرحمان ساغر کو کئی ایوارڈ دیے گئے جن میں نیشنل فلم ایوارڈ، کلچرل گریجویٹ ایوارڈ، نگار ایوارڈ اور بولان ایوارڈ شامل ہیں۔ہم ذیل میں ساغر صاحب کے کچھ مشہور فلمی نغمات کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ چلو کہیں دور یہ سماج چھوڑ دیں (سماج)، آنکھیں غزل ہیں آپ کی (سہیلی)، دیکھا جو چہرہ تیرا (گھونگھٹ)، مجھ کو بھی کوئی لفٹ کرا دے (گلوکار عدنان سمیع)، کل شب دیکھا میں نے چاند جھروکے میں (مجھے چاند چاہیے)، میری وفا، میرے وعدے پہ (بے قرار)، مرے دل کے صنم خانے میں (شریکِ حیات) ،دل لگی میں ایسی دل کو لگی (دل لگی)،اچھا اچھا لاگو رے (بندش)، ذرا ڈھولکی بجاؤ گوریو (سرگم)، پیار ہے، یہی تو پیار ہے (سرگم)، لکھ دی ہم نے آج کی شام (نیک پروین)، تیرے سنگ رہنے کی (ایک چہرہ دو روپ)، کچھ دیر تو رُک جاؤ۔ ساغر صاحب کی غزلوں کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں کہیں سکوں نہ ملا اور نہ کچھ قرار ملا مرے نصیب میں غم تھا وہ بار بار ملا سامنے میرے تیری صورت ہے چاند کی آج کیا ضرورت ہے کبھی میں سوچتا ہوں کیا عجب سا آدمی ہوں میں مگر ساغر بساط اپنی بتانا کیا ضروری ہے نہ کر فردوس کا دربند رضواں اسے میرے لیے کھلنا پڑے گا کانٹوں سے بھر گئے ہیں جو پھولوں کے راستے اپنا لیے ہیں ہم نے اصولوں کے راستے ترتیب پا چکی ہے جو فہرستِ عاشقاں اس میں کہاں پہ آئے مرا نام دیکھئے کسی کو کیا پرکھنا ہے بھرم یاروں کا رکھنا ہے ضرورت جس کو جتنی ہو ہم اتنا پیار کرتے ہیں یہ کیا کہ آدمی اک عشق میں بدنام ہو جائے ریاض الرحمان ساغر نے کئی سیاسی نظمیں لکھیں۔ ان میں ایک نظم واجپائی… شادی؟ ملاحظہ فرمائیں آپ نے گر شادی کی ہوتی اور کوئی بیٹی بھی ہوتی ہوتے آپ اگر کشمیری وہ کشمیر میں جلتی ہوتی آپ کے سینے میں دل ہوتا جو انصاف کا قائل ہوتا وادی کو برباد نہ کرتے اُس کی رد فریاد نہ کرتے دیتے وادی کو آزادی اور کرتے بیٹی کی شادی یکم جون 2013کو ریاض الرحمان ساغر اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اُن کی ادبی خدمات کون فراموش کر سکتا ہے؟ یقینا کوئی نہیں۔

@Recently Active Users
 

23486_83738453.jpg


عبدالحفیظ ظفر

جدید طرز احساس کا ذکر ہو تو کئی شعرا کے نام سامنے آجاتے ہیں۔ اس قسم کی شاعری کا آغاز 60 کی دہائی میں ہوا۔ بہت سے شعرا نے روایت سے بغاوت کر کے ایک نئی طرز کی شاعری کو اپنایا۔ اس میں ایک تو زبان کے حوالے سے نئے تجربے تھے اور دوسرے نفسِ مضمون کو بھی نئے رنگ اور اسلوب میں ڈھالا گیا۔ جدید خیالات‘ محاوروں اور تراکیب سے مزین شاعری کا ذائقہ سب سے جدا تھا۔ وہ شعرا جنہوں نے غزل کو نیا لہجہ اور نیا مزاج عطا کیا ان میں ظفر اقبال‘ مجید امجد‘ صابر ظفر‘ عبیداللہ علیم‘ خالد احمد‘ عدیم ہاشمی‘ اقبال ساجد اور محسن نقوی کے نام سرفہرست ہیں۔ محسن نقوی کا شعری اسلوب جداگانہ بھی ہے اور اس میں تخیل کی اڑان بھی ہے۔ وہ ایک مقبول شاعر تھے اور ان کے غزل پڑھنے کا انداز بھی دلکش تھا۔ ان کی غزلوں کے بعض اشعار تو اتنے اچھوتے ہیں کہ قاری پر سحر طاری ہو جاتا ہے۔ محسن نقوی کا پورا نام سید غلام عباس نقوی تھا۔ وہ 5مئی 1947کو ڈیرہ غازیخان میں پیدا ہوئے۔ وہ چھ بہن بھائی تھے۔ محسن نقوی نے گورنمنٹ کالج ملتان سے گریجوایشن کی اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انہیں ’’شاعر اہل بیت‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ان کی شاعری کی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔ نقوی کی شاعری میں رومانس بھی ملتا ہے اور معروضی صورتحال کا بھی بڑا جامع ذکر ملتا ہے۔ انہوں نے ایک فلم کیلئے گیت لکھا ’’لہروں کی طرح تجھ کو مرنے نہیں دیں گے‘‘ اس گیت کے لئے انہیں ایوارڈ بھی ملا۔ انہوں نے ایک دعا بھی لکھی جو بڑی مشہور ہوئی۔ اس دعا کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے۔ اے رب جہاں پنجتن پاک کا صدقہ اس قوم کا دامن غم شبیر سے بھر دے محسن نقوی نے اپنی خوبصورت شاعری سے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ا پنے خیالات کو ایک نئے جذبے میں پرو کر وہ عجیب سماں باندھ دیتے تھے۔ ان کاشاعری کا ایک اور وصف ان کی صاف گوئی اور بے باکی ہے۔ انہوں نے جو کہنا ہوتا وہ لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیتے۔ محسن نقوی نے طبقاتی تضادات سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی اپنے خوبصورت شعری اسلوب میں بیان کیا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ محسن نقوی جدید طرز احساس کے ساتھ شعری طرز احساس کا بھی بھرپور خیال رکھتے تھے۔ اس حوالے سے وہ جمالیاتی طرز احساس کو بھی شاعری کا لازمی جزو سمجھتے ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’عذاب دید‘ خیمہ جاں‘ برگ صحرا‘ بند قبا‘ موج ادراک‘ طلوع اشک‘ فرات فکر‘ ریزہ حرف‘ رخت شب‘ ردائے خواب اور حق ایلیا‘‘ شامل ہیں۔ اگر زندگی نے ان سے وفا کی ہوتی تو ان شعری کلیات کی تعداد اور بھی زیادہ ہوتی۔ محسن نقوی ایک حساس آدمی تھے اس لئے ان کی شاعری میں جابجا عصری کرب کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ وہ خود کہا کرتے تھے کہ عصری کرب ہر شاعر محسوس کرتا ہے اور اگر وہ اپنی شاعری میں اسے ارادتاً نظر انداز کرتا ہے تو یہ بددیانتی ہے۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر وہ فلمی نغمہ نگاری کی طرف آتے تو اس میدان میں بھی اپنے فن کے جھنڈے گاڑ دیتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے جس قسم کی رومانوی شاعری کی‘ اس کی کئی پرتیں تھیں۔ وہ رومانوی موضوعات میں بھی یکسانیت کا شکار نہیں تھے اور اس حوالے سے ان کی فکر اپنے زاویے بدلتی رہتی تھی۔ ایسے اوصاف رکھنے والا شاعر ایک عمدہ گیت نگار بن سکتا ہے۔ لیکن شاید انہوں نے اس طرف کبھی توجہ نہیں دی۔ انہوں نے بڑی متاثر کن نظمیں بھی تخلیق کیں لیکن ان کی اصل شہرت غزلوں کی وجہ سے ہے۔ محسن نقوی بیتے ہوئے واقعات کو یہ کہہ کر رد نہیں کرتے تھے کہ ایسا تو ہوتا رہتا ہے بلکہ وہ ان واقعات کے منطقی نتائج سے بھی باخبر رہتے ہیں۔ وہ مصلحت کوش نہیں اور نہ ہی سمجھوتے کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک سچے کھرے اور صاف آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو نعرے بازی بھی نہیں بننے دیا لیکن ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بھی بنے رہے۔ ہم ذیل میںمحسن نقوی کی لاجواب شاعری قارئین کی نذر کرتے ہیں۔ جن کے آنگن میں غریبی کا شجر ہو محسنؔ ان کی ہر بات زمانے کو بری لگتی ہے تڑپتا ہے‘سسکتاہے‘ ترستا ہے مگر محسنؔ اسے کہہ دو کسی کے ہجر میں مرتا نہیں کوئی مجھ سے ٹکراتے تھے دنیا کے حوادث لیکن میں تیری زلف نہیں تھا کہ پریشاں ہوتا اُس شخص سے ملنا میرا ممکن ہی نہیں ہے میں پیاس کا صحرا ہوں وہ برسات کی مانند راس آ ہی گیا ترک تعلق اسے آخر آنکھوں میں وہ پہلی سی ندامت نہیں رکھتا وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے گا‘ چھوڑ جائے گا مجھے خبر تھی اسے یہ ہنر بھی آتا ہے اسے خراج محبت ادا کروں گا ضرور ذرا میں یاد تو کر لوں کوئی وفا اس کی شرم آتی ہے کہ دشمن کسے سمجھیں محسنؔ دشمنی کے بھی تو معیار ہوا کرتے ہیں 15جنوری 1996کو محسن نقوی کو لاہور میں قتل کر دیا گیا۔ ان کی میت کو ڈیرہ غازیخان پہنچایا گیا اور کربلا شریف ڈیرہ غازیخان میں ان کی تدفین ہوئی۔ وہ ایک نادر روزگار شاعر تھے اور کمال کے انسان تھے۔ وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ محسن نقوی کے کلام سے چند انتخاب ملاحظہ کیجئے کہ اے فکر کم نشاں مری عظمت کو داد دے تسلیم کر رہا ہوں میں تیرے وجود کو اے شور حرف و صوت مجھے بھی سلام کر توڑا ہے میں نے شہرِ غزل کے جمود کو اے وسعت جنوں مری جرأت پہ ناز کر میں نے بھلا دیا ہے رسوم و قیود کو ۔۔۔۔۔ سایۂ گُل سے بہر طور جُدا ہو جانا راس آیا نہ مجھے موجِ صبا ہو جانا اپنا ہی جسم مجھے تیشۂ فرہاد لگا میں نے چاہا تھا پہاڑوں کی صدا ہو جانا موسمِ گُل کے تقاضوں سے بغاوت ٹھہرا قفسِ غنچہ سے خوشبو کا رہا ہو جانا پہلے دیکھو تو سہی اپنے کرم کی وسعت پھر بڑے شوق سے تُم میرے خدا ہو جانا ۔۔۔۔۔ ہر شاخِ سربُریدہ نقیبِ بہار تھی فصلِ خزاں بھی اب کے بڑی با وقار تھی ہر سنگ میل پر تھیں صلیبیں گڑی ہوئی شاید وہ رہ گذار تری راہ گذار تھی میں تیری آہٹوں پہ توجہ نہ کر سکا میری حیات وقفِ غمِ انتظار تھی آخر سکوں ملا اُسے دشتِ نگاہ میں وہ آرزو جو دل میں غریب الدیار تھی مجھ کو تری قسم ، تری خوشبو کے ساتھ ساتھ میری صدا بھی دوشِ ہوا پر سوار تھی ۔۔۔۔۔ میں چُپ رہا کہ زہر یہی مجھ کو راس تھا وہ سنگِ لفظ پھینک کے کتنا اُداس تھا اکثر مری قبا پہ ہنسی آ گئی جسے کل مل گیا تو وہ بھی دریدہ لباس تھا میں ڈھونڈتا تھا دُور خلائوں میں ایک جسم چہروں کا اِک ہجوم مرے آس پاس تھا تم خوش تھے پتھروں کو خدا جان کے مگر مجھ کو یقین ہے وہ تمہارا قیاس تھا بخشا
ہے جس نے روح کو زخموں کا پیرہن محسن وہ شخص کتنا طبیعت شناس تھا


@Recently Active Users
 
1566329705226-jpeg.jpg



عبدالحفیظ ظفر
بیسویں صدی میں اردو کے بڑے عظیم شعرا پیدا ہوئے۔ اگر ان کا ذکر کیا جائے تو یہ فہرست بہت طویل ہو جائے گی۔ ایک شاعر ایسے بھی گزرے ہیں جن کو اتنی زیادہ شہرت نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ ان کے مقام اور مرتبے کو درست طور پر شناخت نہیں کیا گیا۔ یہ تھے ڈاکٹر محمد دین تاثیر (ایم ڈی تاثیر)۔ ایم ڈی تاثیر 28فروری 1902 کو ضلع امرتسر کے علاقے اجنالہ میں پیدا ہوئے۔ وہ کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد جو ایک کسان تھے اُس وقت انتقال کر گئے جب ایم ڈی تاثیر ابھی کم سن تھے۔ ان کی پرورش لاہور میں ان کے ماموں نظام الدین نے کی۔ ایم ڈی تاثیر بچپن سے ہی علامہ اقبالؒ کے دوست تھے۔ 1933میں ڈاکٹر تاثیر نے ایک ادبی جریدہ ’’کارواں‘‘ کا اجرا کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر ملازم ہو گئے۔ اس کے بعد وہ انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کرنے کیلئے کیمرج یونیورسٹی چلے گئے۔ ان کو علامہ اقبالؒ نے سفارشی خط بھی دیا تھا۔ وہ 1933میں لندن پہنچے اور پیم بروک یونیورسٹی کیمرج سے ایم لِٹ کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ ان کے پی ایچ ڈی کا مقالہ تھا ’’شروع کے دنوں سے لے کر 1924تک انگریزی ادب میں ہندوستان اور مشرقِ قریب کا حصہ‘‘۔ ان کے ریسرچ سپروائزر آرتھر کوئلر کاؤچ نے یونیورسٹی سینٹ سے کہا تھا کہ وہ تاثیر کو ایم لِٹ کی ڈگری حاصل کرنے سے پہلے پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاثیر صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انگریزی ادب میں انگلینڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والے وہ برصغیر کے پہلے آدمی تھے۔ 1935 کے آخر میں ایم ڈی تاثیر ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل بن گئے۔ فیض احمد فیض کے ساتھ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ 1941 میں ڈاکٹر تاثیر سری نگر کے پرتاپ کالج کے پرنسپل مقرر کر دیئے گئے۔ 1942 میں وہ امر سنگھ کالج کے بانی پرنسپل بن گئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور اسلامیہ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے۔ اکتوبر 1947 کے پہلے ہفتے میں حکومتِ پاکستان نے انہیں فیض احمد فیض کے ساتھ شیخ عبداللہ کے پاس بھیجا جو اس وقت جموں اور کشمیر نیشنل کانفرنس کے رہنما تھے۔ انہیں اس لئے بھیجا گیا کہ وہ شیخ عبداللہ کو پاکستان میں شامل ہونے کی ترغیب دیں۔ شیخ عبداللہ کو اس وقت مہاراجہ کی حکومت نے قید سے رہا کیا تھا۔ شیخ عبداللہ قائل نہ ہوئے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا تو ان کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو کپور تھلہ کے ساتھ ہوا۔ یعنی وہ یہ سمجھتے تھے کہ مذہبی اقلیتوں کو ہلاک کر دیا جائے گا یا انہیں بھگا دیا جائے گا۔ شیخ عبداللہ کے مطابق ڈاکٹر تاثیر نے انہیں بتایا اگر کشمیر پاکستان میں شامل نہ ہوا پھر انہیں ’’دوسرے راستوں‘‘ پر غور کرنا ہوگا۔ 1937 میں ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر ایک برطانوی خاتون کرسٹوبل جارج کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ وہ بھی کیمرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر چکی تھیں۔ 1938 میں دونوں کی شادی ہو گئی۔ علامہ اقبالؒ نے خود نکاح نامہ تیار کیا اور اس میں کرسٹو بل جارج کو طلاق کا حق بھی دیا گیا۔ کرسٹو بل نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلامی نام بلقیس تاثیر رکھا گیا۔ کرسٹو بل کی بہن ایلس نے فیض احمد فیض سے شادی کی۔ ایم ڈی تاثیر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے والد تھے۔ان کی مشہور کتابوں میں ’’آتش کدہ اور مقالاتِ تاثیر‘‘ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر تاثیر نے رومانوی شاعری کو نئی جہتوں سے روشناس کیا۔ ان کی غزل کا اپنا ایک آہنگ ہے۔ چھوٹی بحر میں انہوں نے کمال کی غزلیں تخلیق کیں۔ ان کی شاعری کا دوسرا اہم وصف سادگی اور سلاست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ان کے نام کی طرح پُرتاثیر ہے جو فوری طور پر قاری کو متاثر کرتی ہے۔ پھر ان کی شاعری میں لطافت بھی ہے۔ سہلِ ممتنع کی شاعری بھی ملتی ہے۔ ذیل میں ہم اپنے قارئین کیلئے ڈاکٹر تاثیر کی غزلوں کے کچھ اشعار پیش کر رہے ہیں۔ میری وفائیں یاد کرو گے روؤ گے فریاد کرو گے مجھ کو تو برباد کیا ہے اور کسے برباد کرو گے دشمن تک کو بھول گئے ہو مجھ کو تم کیا یاد کرو گے غیر کے خط میں مجھے اُن کے پیام آتے ہیں کوئی مانے یا نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنہیں منزل سمجھیں عشق کی راہ میں ایسے بھی مقام آتے ہیں ہزار ہم سخنی، ہزار ہم نظری مقامِ جنبشِ ابرو نکل ہی آتے ہیں متاعِ عشق وہ آنسو جو دل میں ڈوب گئے زمیں کا رزق جو آنسو نکل ہی آتے ہیں وہ ملے تو بے تکلف، نہ ملے تو بے ارادہ نہ طریقِ آشنائی، نہ رسومِ جام و بادہ وہ کچھ اس طرح سے آئے، مجھے اس طرح سے دیکھا میری آرزو سے کم تر، میری تاب سے زیادہ داغ سینے پہ جو ہمارے ہیں گل کھلائے ہوئے تمہارے ہیں ربط ہے حسن و عشق کا باہم ایک دریا کے دو کنارے ہیں کوئی جدت نہیں حسنیوں میں سب نے نقشے ترے اتارے ہیں ایم ڈی تاثیر کی بیٹی سلمیٰ محمود نے اپنے والد کی یادداشتیں ’’دی ونگز آف ٹائم‘‘ کے عنوان سے شائع کیں۔ 1953ء میں اس نادرِ روزگار شخص کا لاہور میں انتقال ہو گیا۔

@Recently Active Users
 
Back
Top