عبدالحفیظ ظفر


1569875831826-jpeg.jpg


عبدالحفیظ ظفر


جس شاعر کی غزل میں ہمیں بہت سے رنگ ملیں ، خاص طور پر نغمگی اور رچائو بھی ہوتو اس شاعر کی انفرادیت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا ۔ یہی بات بیسیویں صدی کے ایک اہم شاعر یزدانی جالندھری کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے ۔ ویسے تو وہ فلمی نغمہ نگار ، مکالمہ نگار اور سکرین رائٹر بھی تھے لیکن انہوں نے ایک شاعر کی حیثیت سے بھی اپنے آپ کو منوایا۔ 16جولائی1915 کو جالندھر (بھارت) میں پیدا ہونے والے یزدانی جالندھری کا اصل نام سید عبدالرشید تھا۔ انہوں نے ادیب فاضل تک تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے کئی جریدوں کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دیئے ۔ شاعری میں وہ تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں ہمیں کلاسیکل شاعری کی بڑی خوبصورت جھلکیاں ملتی ہیں ۔ وہ روایت کو ساتھ لے کر چلتے ہیں مگر پھر اپنی قوت متخیلہ سے اپنی شاعری کو ایک دلکش رنگ سے مزین کردیتے ہیں ۔ وہ فنی لحاظ سے بھی بڑے پختہ شاعر تھے ۔ فلم کے حوالے سے بھی ان کی خدمات یادگار ہیں ۔ وہ1938 میں’’ گلستان ‘‘لاہور کے ایڈیٹر تھے ۔پھر وہ سید عطاللہ شاہ ہاشمی کے ہمراہ ممبئی چلے گئے ۔ 1950تک ممبئی اور دہلی میں رہے ۔ وہ ہفت روزہ ’’اداکار‘‘ممبئی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔1945 میں انہیں فلم ’’طلسمی دنیا‘‘ کے نغمات لکھنے کا موقع ملا۔ سید عطا اللہ شاہ ہاشمی نے فلم ’’کنیز ‘‘ شروع کی تو اس کے مکالمے یزدانی جالندھری نے تحریر کئے ۔ وہ اس فلم کے معاون ہدایتکار بھی تھے جبکہ اس فلم کی ہدایات کے خورشید نے دی تھیں ۔ اس کے بعد انہوں نے فلم ’’خوفناک آنکھیں‘‘ اور طلسمی خنجر‘‘ کے مکالمے لکھے۔ قیام پاکستان کے بعد ساحر لدھیانوی لاہور سے ممبئی چلے گئے ۔ یزدانی جالندھری پہلے ہی وہاں موجود تھے ۔ انہوں نے ہی ساحر لدھیانوی کو ممبئی کے فلمی حلقوں میں متعارف کرایا۔ یزدانی جالندھری اس وقت انجمن ترقی پسند مصنفین کے صدر تھے جس میں ان کے ساتھ کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری اور جانثاراختربھی تھے۔ ساحر لدھیانوی بہت جلد ممبئی کے فلمی حلقوں میں مقبول ہوگئے او انہوں نے اس پر ہمیشہ یزدانی جالندھری کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد یزدانی جالندھری ممبئی سے پاکستان آگئے اور پھر واپس نہ گئے ۔ ساحر لدھیانوی نے ممبئی سے ان کو بہت خطوط لکھے اور کہا کہ وہ ممبئی واپس آجائیں کیونکہ یہاں ان کی بہت ضرورت ہے لیکن وہ واپس نہ گئے ۔ یہ یزدانی جالندھری ہی تھے جنہوں نے ریاض شاہد ، رزاق قیصر اور سعید ساحلی کو فلمی صنعت میں متعارف کرایا۔ یزدانی جالندھری نے ایک بار بتایا تھا کہ بھارت میں ان کی ایک فلم کی موسیقی علائوالدین نے دی تھی ۔ ممبئی میں ان کی آغا طالش کے ساتھ بھی گہری دوستی رہی ۔ یزدانی صاحب1956 کو آغا طالش کے ساتھ ہی پاکستان آئے تھے ۔ انہوں نے جالندھری نے سرت چند چیٹر جی کے مشہور ناول ’’دیوداس‘‘ کا پہلی بار بنگالی سے اردو میں ترجمہ کیا تھا جس پر بھارت میں 1935میں فلم دیوداس بنائی گئی۔پھر 1955 میں بھی دیوداس بنی جس کے ہدایت کاربمل رائے تھے ۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے بنگالی ناول ’’گورا ‘‘کا ترجمہ بھی انہوں نے کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے لیوٹالسٹائی کے افسانوں کا بھی ترجمہ کیا۔ بقول ڈاکٹر انور سدید مرحوم بنگالی مصنفین کو اردو ادب میں یزدانی جالندھری نے متعارف کرایا۔یزدانی صاحب کی کتابوں میں ’’توصیف ، صبح سعادت، یاران نو، الجھن، دیہاتی سماج، حسن پرست اور آوارہ‘‘ شامل ہیں ۔ یزدانی جالندھری نے جن فلموں کے سکرین پلے اور مکالمے لکھے ان میں مذکورہ بالا فلموں کے علاوہ ’’یہ ہے دنیا ، کسان، آزادی، الزام، شکار، بارہ بجے اور نتیجہ‘‘ شامل ہیں۔ان کی شاعری میں سادگی اور سلاست کا عنصر بہت نمایاں ہے ۔ انہوں نے زندگی بھر کام کیا۔ وہ ایک درد مند دل رکھنے والے انسان تھے جنہوں نے ہمیشہ اعلیٰ انسانی قدار کا پرچار کیا۔ ذیل میں ہم ان کی غزلوں کے چند اشعار قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔ خواب میں کیا کیا مجھے دکھائے منظر کھلی کتاب سوجائوں میں سینے پر جب رکھ کر کھلی کتاب چہرہ ہے انسان کا اس کے اندر کی تفسیر اندر ہے اک بند کتاب تو باہر کھلی کتاب ہر چند کہ ہم پیکرتسلیم و رضا ہیں لیکن کبھی آجاتا ہے ہونٹوں پہ گلا بھی ہر دست دعا بن گیا کشکول گدائی رسوا ہوئی اس دور میں تقدیس دعا بھی جہاں کچھ لوگ دیوانے بنے ہیں بڑے دلچسپ افسانے بنے ہیں سورج کے ساتھ ساتھ ابھارے گئے ہیں ہم تاریکیوں میں پھر بھی اتارے گئے ہیں ہم راس آسکی نہ ہم کو ہوا تیرے شہر کی یوں تو قدم قدم پہ سنوارے گئے ہیں ہم 22مارچ1990 کو یزدانی جالندھری عالم جاوداں کو سدھار گئے ۔ ان کی خوبصورت شاعری ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہے گی۔ ٭…٭…٭

@Recently Active Users
 

Back
Top