Fateh Makkah, Tareekhi Khutba aur Ramzan ki Barkaat

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
فتح مکہ اور رمضان کی برکات ۔۔۔۔۔ حافظ محمد ادریس

fatah-e-makkah-ramadan.jpg


ماہِ رمضان ہمیشہ امت مسلمہ کے لیے روحانی برکات وثمرات کے ساتھ مادی زندگی میں بھی بے شمار کامیابیوںکی بشارت لے کرآیا۔ کفر کے مقابلے پر عسکری کامرانی فتح کا آغاز میدان بدر سے2ھ میں ہوا۔ 8ھ میں فتح مکہ پر ایک لحاظ سے اس کی تکمیل ہوگئی۔ جزیرہ نمائے عرب پورے کا پورا اسلام میں داخل ہوگیا۔ اس کے بعد صحابہ کرام‘ رمضان المبارک کے مہینے میں سپر طاقتوں کے مقابلے پر کئی بڑے معرکوںمیں سرخرو ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق‘ طارق بن زیادؒ اور صلاح الدین ایوبیؒ کو بھی اندلس اور یروشلم کے معرکوں میں اللہ نے ماہِ صیام میں کامیابی سے سرفراز فرمایا۔ ریاست ِمدینہ کے بعد وجود میں آنے والی دوسری ریاست پاکستان بھی اسی ماہِ مبارک کا تحفہ ہے۔ فتح مکہ‘ سیرت طیبہ کا عظیم ترین اور یادگار واقعہ ہے۔ ہم یہاں چند چیدہ چیدہ اور ایمان افروز واقعات کا تذکرہ کررہے ہیں:

فتح مکہ کے وقت جب نبی اکرمؐ کے حکم کے مطابق‘ فوجی دستوں نے مکے میں داخل ہونے کیلئے پیش قدمی کی توقریش کا سردار ابو سفیان‘ اسلام قبول کر کے اسلامی لشکر میں موجود تھا ۔ سب سے پہلے حضرت خالد بن ولیدؓ کا دستہ حرکت میں آیا۔ حضرت خالدؓ کے ساتھ بنو سُلَیْم کے جنگ جو تھے۔ ابو سفیان نے حضرت عباسؓ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ‘جو زرہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فرمایا یہ بنو سُلَیم ہیں۔ ابوسفیان نے کہا بنو سُلَیْم سے مجھے کیا دلچسپی؟ حضرت عباسؓ نے فرمایا ان کا سالار خالد بن ولیدؓ ہے۔ ابو سفیان نے کہا :اچھا وہ سجیلا‘ بہادر نوجوان‘ جس پر ہمیں فخر تھا‘ مگر وہ ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ انہوں نے جواب دیا :ہاں۔ حضرت خالدؓ نے وہاں سے گزرتے ہوئے تین مرتبہ تکبیر کا نعرہ بلند کیا۔ اس کے بعد حضرت زبیر بن عوامؓ کا دستہ گزرا۔ ان کے پاس سیاہ عَلَم تھا۔ حضرت خالد ؓکی طرح ابو سفیان کو دیکھ کر انہوں نے بھی تکبیر کے نعرے لگائے۔ تیسرے سپہ سالار امین الامت حضرت ابو عبیدہ ابن الجراحؓ اپنے دستے کے ساتھ پیش قدمی کرتے نظر آئے۔ انہوں نے بھی تکبیر کے نعرے بلند کیے اور پر وقار انداز میں آگے بڑھ گئے۔

قریشی کمانڈر صحابہ کے بعد حضرت ابو ذر غفاریؓ جھنڈا اٹھائے‘ بنو غفار کے ساتھ گزرے‘ پھر بنو اسلم حضرت بریدہ بن الحصیب ؓکی سربراہی میں مارچ کرتے ہوئے آگے بڑھے اور یوں ترتیب وار بنوخزاعہ‘ بنو مزینہ اور دیگر قبائل گزرے۔ اس دوران میں وہ نوجوان بھی گزرے‘ جن کا تعلق بنو بکر سے تھا اور کافی پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ جب حضرت عباسؓ نے ان کے بارے میں بتایا تو ابوسفیان نے حسرت کے ساتھ کہا :بنو بکر ہی منحوس لوگ ہیں‘ جنہوں نے خیانت کرکے حدیبیہ کا معاہدہ توڑ دیا اور مصیبت ہم پر آن پڑی۔ غرض دس ہزار کا لشکر دیکھ کر ابو سفیان پر کپکپی طاری ہوگئی تھی‘ مگر اسے یہ اطمینان ضرور تھا کہ آنحضورؐ کے صحابہ آپؐ کے حکم کے مطابق‘ مکے میں قتل و غارت نہیں کریں گے۔ آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ‘ حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کو مشاورت کے لیے اپنے قریب رہنے کا حکم دیا۔
فوجی دستوں کے تذکرے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ انصار کے دستوں کی کمان سید الخزرج حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں تھی۔ جب انہوں نے ابو سفیان کو دیکھا تو پہچان لیا اور جوش میں آکر انہوں نے کہا ''اے ابوسفیان! آج جنگ کا میدان گرم ہے۔ آج خون کی ندیاں بہیں گی اور حرمت‘ حلت میں بدل دی جائے گی۔ قریش کو اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر کی وجہ سے ذلیل و رسوا کر دیا ہے۔‘‘ کمانڈر کے ان الفاظ پر ابو سفیان‘ پھر خوفزدہ ہوگیا اور فوراً آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہاکہ سعد نے یہ اور یہ الفاظ کہے ہیں۔

حضرت سعدؓ کے یہ الفاظ خاص طور پر ابو سفیان کو پریشان کر گئے ''اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَہ۔‘‘ یعنی آج کا دن خون کی ندیاں بہانے کا دن ہے۔ آپؐ نے فرمایا:اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَرْحَمَہآج خون کی ندیاں نہیں رحمت کا دریا بہے گا‘ پھر آپؐ نے حضرت سعد بن عبادہ ؓسے منصب واپس لے لیا اور ان کے بیٹے قیس بن سعدؓ کو بھیجا کہ وہ جا کر کمان سنبھال لیں۔ جب انہیں ان کے بیٹے نے جا کر یہ پیغام دیا تو انہوں نے کہا کہ جب تک آنحضورؐ کی طرف سے کوئی نشانی مجھ تک نہ پہنچے‘ میں یہ منصب کیسے چھوڑ دوں؟ چنانچہ آپؐ نے اپنا عمامہ مبارک بھیجا تو حضرت سعدؓ نے اسے پہچان لیا اور بلا تردد عَلَم اور کمان اپنے بیٹے قیس بن سعدؓ کے حوالے کر دئیے۔نبی اکرم ﷺ نے بہت سخت ہدایات دی تھیں کہ مکہ میں داخل ہوتے ہوئے ہتھیار استعمال نہ کیے جائیں الا یہ کہ ناگزیر ہوجائے۔ آپؐ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ کے دستے کے پیچھے پیچھے مکے میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ آپؐ نے حجون کے مقام پر اپنا خیمہ نصب کروایا۔ تھوڑی دیر کے لیے وہاں استراحت فرمائی اور پھر اسی جانب سے مکہ میں داخل ہو کر مسجد میں پہنچے۔ آنحضور ﷺ کے حکم کے مطابق‘ تمام کمانڈر بڑی احتیاط سے مکے میں داخل ہوئے۔ تین دستوں کے سامنے تو کوئی مزاحمت نہ ہوئی‘ اس لیے وہ بغیر کسی خون ریزی کے پرامن طریقے سے مکے میں داخل ہوگئے؛ البتہ جس راستے سے حضرت خالدؓ کو داخل ہونا تھا‘ اس میں سوئے اتفاق سے قریش کے دو سردار عکرمہ بن ابی جہل اور صفوان بن امیہ کچھ قریشی نوجوانوں کے ساتھ مزاحمت کا فیصلہ کرچکے تھے۔ حضرت خالدؓ کو اندازہ ہوگیا کہ ان کے مقابلے پر مزاحمت کیلئے دشمن نے مورچہ بندی کر رکھی ہے۔

حضرت خالدؓ نے ان لوگوں کو اپنی طرف سے وارننگ دی کہ وہ ہتھیار نہ اٹھائیں تو ان کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کیے جائیں گے۔ حضرت خالدؓ نے اپنے ساتھیوں کو بھی صبر و تحمل کی تلقین کی۔ اس دوران دشمنوں نے چٹانوں کے پیچھے چھپ کر اسلامی فوج پر تیر اندازی شروع کر دی۔ اس موقع پر بھی حضرت خالدؓ نے اپنے ساتھیوں کو ہاتھ روکنے کا حکم دیا اور بلند آواز سے تین سرداروں کو نام لے کر پکارا‘ جن میں صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابی جہل کے علاوہ سہیل بن عمرو کا نام بھی پکارا۔ انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ عقل سے کام لو۔ مدینہ سے آنے والی اس فوج کے سپہ سالار کوئی عام آدمی نہیں ‘خود اللہ کے رسول ﷺ ہیں اور وہ اتنے رحم دل اور امن پسند ہیں کہ انہوں نے ہمیں مکہ میں ہتھیار استعمال نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ہاں ہمیں اس شخص پر ہتھیار اٹھانے کی اجازت ہے‘ جو ہم پر حملہ کرکے ہمارا راستہ روکے۔حضرت خالدؓ کا یہ مطالبہ انتہائی معقول اور نرمی پر مشتمل تھا‘ مگر یہ لوگ حماقت پر تلے بیٹھے تھے۔ حضرت خالدؓ جیسا بہادر جنگ جو آنحضورؐ کی ہدایات کے تحت ہتھیار روکے ہوئے تھا۔ دشمن اس بردباری سے غلط فہمی کا شکار ہوگئے؛ حالانکہ حضرت خالد اور ان کے دستے کی قوت کے سامنے کسی لشکر کا بس نہ چل سکتا تھا۔ حضرت خالدؓ کی حکیمانہ تنبیہات کے علی الرغم ان لوگوں نے جواب میں کہا کہ ہم کسی صورت تمہیں مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ اب‘ حضرت خالدؓ کو بہ امر مجبوری ہتھیار استعمال کرنے پڑے۔ جب مجاہدین نے جوابی کارروائی کی تو مزاحم قوت بری طرح شکست کھا کر بھاگ گئی۔ اس معرکے میں بنو ہذیل‘ بنو بکر اور قریش کے اٹھائیس جنگ جو قتل ہوئے ‘جبکہ کوئی مسلمان شہید نہیں ہوا۔ دو صحابہ حضرت کُرز بن جابرؓ اور حُنیش بن خالد بن احرمؓ اس مہم کے دوران شہید ہوئے‘ مگر وہ مزاحم فوجوں کے مقابلے پر نہیں‘ بلکہ راستہ بھٹک جانے کی وجہ سے بنو بکر کے بدووں کے ایک گروہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
(البدایۃ والنھایۃ ج۴‘ ص ۲۹۶)

واقدی کے بقول آنحضور ﷺ نے اذاخر کی گھاٹی سے دیکھا کہ ایک جانب تلواروں کی چمک دکھائی دے رہی ہے۔ آپؐ نے پوچھا کہ یہ چمک کیسی ہے ‘جبکہ ہم نے مقابلے سے منع فرما دیا تھا۔ اس پر آپؐ کو بتایا گیا کہ یہ خالدؓ اور ان کے ساتھیوں کی تلواریں ہیں۔ قریش نے ان کی وارننگ کے باوجود جب جنگ شروع کر دی‘ تو انہوں نے بھی ہتھیار اٹھالیے‘ اگر قریش مزاحمت نہ کرتے تو خالدؓ کبھی ہتھیار نہ اٹھاتے۔ اس سے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا قضی اللّٰہ خیرا ‘یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ بھی فرمایا وہ بہتر ہے۔ (مغازی للواقدی ج۲‘ ص ۸۲۶)مکہ فتح ہونے کے بعد نبیٔ رحمت ﷺ نے تمام لوگوں کو معاف فرمادیا اور کہا: '' آج تم میں سے کسی سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا‘ جاؤ تم سب کے سب آزاد ہو‘‘۔اس موقع پر نبی ٔاکرمؐ نے یہ بھی فرمایا کہ میں آج تم سے وہی بات کہوں گا‘ جو میرے بھائی یوسف ؑ نے اپنے برادران سے فرمائی تھی‘ جب وہ ان کے سامنے ایسی حالت میں حاضر ہوئے کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی اور یوسف ؑ مصر کے تخت پر فائز تھے۔ نہ تو کسی سے انتقام لیا جائے گا اور نہ کسی کو غلام بنایا جائے گا۔ اللہ سے میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرتا ہوں!​
 

فتح مکہ کا تاریخی خطبہ
:
رسولؐ اللہ نے فرمایا:’’ آج تمام مفاخر، تمام انتقامِ قدیم،تمام خوں بہا سب میرے قدموں کے نیچے ہیں‘‘********فتحِ مکّہ کے پس منظر میں بنو بکر کا بنو خزاعہ پر وہ حملہ تھا، جو بہت عرصے سے صلح حدیبیہ کی وجہ سے رُکا ہوا تھا۔جب بنو بکر نے حملہ کیا تو رؤسائے قریش نے اُن کی اعلانیہ مدد کی۔لڑائی میں بنو خزاعہ نے خانہ ٔ کعبہ میں پناہ لینا چاہی لیکن قریش نے خانۂ کعبہ کا احترام نظر انداز کر کے حدود ِکعبہ میں خون بہایا۔بنو خزاعہ کی جانب سے چالیس سوار فریاد لے کر حضوراکرمؐ کے پاس آئے۔ آپ نے واقعات سُنے اور جواب میں تین شرائط لکھ کر قریش کی جانب بھیجیں جو یہ تھیں:مقتولوں کا خوں بہا دیا جائے،قریش بنو بکر کی حمایت سے الگ ہو جائیںیااعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔قریش نے جواب دیا کہ تیسری شرط منظور ہے، لیکن ایلچی کے جانے کے بعد اُنہیں ندامت ہوئی۔آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مکّے کی تیاریاں کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی اتحادیوں کی طرف قاصد بھیجے، اِس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ تمام کام خاموشی سے انجام پائیں۔صحابی حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ نے ایک خط خفیہ طور پراہلِ قریش کو لکھا کہ رسولؐ اللہ مکّے کی تیاریاں کرتے ہیں۔ رسولؐ اللہ کو خبر ہو گئی۔ آپؐ نے صحابہ کرامؐ کو بھیجا کہ خط لے کر آئیں، خط چھین لیا گیا اور حضرت حاطبؓ کے خط کے بارے میں سُن کر دیگر صحابہ ٔ کرامؓ کو حیرت ہوئی ۔ حضرت عمرفاروق ؓنے فرمایا:’’ یارسولؐ اللہ آپ حُکم دیں ،تو اس کا سر اُڑا دوں۔‘‘ لیکن نبی کریم ؐ کی پیشانی مبارک پر ایک شکن نہ تھی، آپ ؐ نے فرمایا: ’’عمرؓ! تمہیں کیا خبر کہ اللہ نے اہلِ بدر کو مخاطب کر کے کہہ دیا ہو کہ تم سے کوئی مواخذہ نہیں۔‘‘لشکرِ اسلام جو دس ہزار افراد پر مشتمل تھا ایک شان کے ساتھ مکّہ مکرّمہ کی جانب بڑھا۔مرا الظہران پہنچ کر لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں پہنچنے تک راستے کے بہت سے قبائل بھی لشکر کا حصّہ بنتے گئے تھے۔یہ مقام مکّہ سے ایک منزل کے فاصلے پر تھا۔رسولؐ اللہ نے فوج کو دور تک پھیل جانے کا حکم دیا، فوج نے الگ الگ آگ روشن کی تو تمام صحرا یک دم سے وادیٔ ایمن بن گیا۔قریش کو خبر ہوئی کہ لشکرِ اسلام مکّہ مکرّمہ کی طرف آرہاہے۔ انہوں نے ابو سفیان ، حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقا کو بھیجا۔خیمۂ نبویؐ پر موجود دَستے نے ابو سفیان کو آتے دیکھ لیا تھا۔حضرت عمر فاروق ؓنے رسولؐ اللہ سے عرض کی کہ کفار کے استیصال(جڑ سے اُکھاڑ دینے) کا وقت آگیا لیکن حضرت عباسؓ نے جاں بخشی کی گزارش کی( بعض روایات کے مطابق اس وقت ابو سفیان اسلام قبول کر چکے تھے) لشکر ِ اسلام کعبے کی طرف روانہ ہوا، حکمِ نبوی ؐ کے مطابق ابو سفیان کو ایک پہاڑی پر کھڑا کر دیا گیا کہ وہ لشکرِ اسلام کے جلال کانظارہ کر سکیں۔لشکر آگے بڑھا،عرب کے مسلم قبائل سمندری موجوں کی طرح آگے بڑھے۔ سب سے آگے قبیلۂ غفار تھا،پھر سعد بن ہذیم تکبیر کے نعرے مارتے ہوئے نکل گئے۔ ابو سفیان ہر بار مرعوب ہو جاتے تھے اور پھر جب اُن کی نگاہ انصار پر پڑی ،تو بے اختیار پکاراُٹھے :’’یہ لشکر کس کا ہے؟‘‘اسی وقت انصار کی فوج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ پاس سے گزرے اور انہوں نے فرمایا: ‘‘آج گھمسان کا دن ہے، آج کعبہ حلال کر دیا جائے گا۔‘‘سب سے آخر میں لشکرِ نبوی ؐتھا، علَمِ نبویؐ حضرت زبیرؓ بن العوام کے ہاتھ میں تھا۔ حضور اکرمؐ نے جب سُنا کہ سعد بن عبادہ نے یہ کہا تو فرمایا:’’ آج کعبے کی عظمت کا دن ہے اور ساتھ ہی حکم دیا کہ انصار کا علم سعد بن عبادہ سے لے کر اُن کے بیٹے کو دے دیا جائے۔‘‘مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے،شہنشاہِ دو جہاں ؐ کا سرِ اقدس قدرے جُھکا ہوا تھا اور چشمانِ مبارک نم تھیں، حکم ہُوا کہ علَمِ نبویؐ ، مقامِ حجون پر نصب کر دیا جائے۔حضرت خالد ؓ کو حکمِ نبوی ؐہوا کہ فوج کو لے کر بالائی حصّے کی طرف آئیں۔رسولؐ اللہ کی جانب سے اعلان کر دیا گیا:’’ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا، ابو سفیان کے گھرمیں پناہ لے گا یا خانۂ کعبہ میں پناہ لے گا، اُسے امن دیا جائے گا۔‘‘ اس کے باوجود بھی کفار کے ایک گروہ نے حملہ کیا۔ تین صحابۂ کرامؓ شہید ہوئے، حضرت خالدؓنے مجبوراً حملہ کیا اور دشمن 13 لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ نبی کریم ؐ کو خبر ہوئی تو حضرت خالدؓ سے باز پرس کی، حقیقت معلوم ہوئی تو فرمایا:’’ یہ قضائے الٰہی تھی۔‘‘اِس کے بعد خانہ کعبہ سے تمام تر بُتوں کو نکلوایا گیا، پھر کعبے کی کنجیاں طلب کی گئیں اور رسول ؐاللہ نے وہاں نماز ادا کی، بعض روایات میں آتاہے کہ صرف تکبیر کہی۔اُس کے بعد فتح کا خطبہ دیا:’’ایک اللہ کے سوا اور کوئی خُدا نہیں، اُس کا کوئی شریک نہیں، اُس نے اپنا وعدہ سچّا کیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور تمام جتھوں کو تنہا توڑ دیا،ہاں، تمام مفاخر، تمام انتقامِ قدیم،تمام خوں بہا سب میرے قدموں کے نیچے ہیں، صرف حرمِ کعبہ کی توّلیت اور حجاج کی آب رسانی اس سے مستثنیٰ ہیں۔اے قریش! اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار اللہ تعالیٰ نے مٹا دیا۔‘‘اس کے بعد قرآن کی یہ آیت تلاوت کی:’’لوگو میں نے تم تمہیںمرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تاکہ آپس میں ایک دوسرے سے پہچان لیے جاؤلیکن اللہ کے نزدیک شریف وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہو۔اللہ تعالیٰ دانا اور واقف کار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شراب کی خرید و فروخت حرام کر دی۔‘‘​
 
@intelligent086
آپ یہاں تک نہیں آئے
@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ
کچھ تشنگی محسوس ہو رہی ہے مزید شامل کیا ہے کوئی کتاب نا بتانا😅 یہاں شامل ہو جائے بہت اچھا
مجھے دونوں کی بات سمجھ نہیں آئی تھوڑی وضاحت کر دیں تاکہ جواب دیا جا سکے
 
Back
Top