Fikar e Iqbal Aur Naujawan Nasal Ke Masail By Dr Javed Iqbal Nadeem

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
فکر اقبال اور نوجوان نسل کے مسائل ..... تحریر : ڈاکٹر جاوید اقبال ندیم

iqbal.jpg

علامہ اقبالؒ نے اپنے فکر و فلسفہ، شاعری، خطوط، خطاب اور گفتگو میں نوجوانوں کو فکر و تدبر سے اپنے مسائل حل کرنے کی ترغیب دی ہے قوم کے غیور نوجوان ہی مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن اور جسم تازہ دم ہوتے ہیں

تاریخِ نسلِ انسانی مسائل و مصائب سے بھری پڑی ہے لیکن ہر دور میں ان مسائل کا حل بھی عالی دماغ خود ہی تلاش کرتے ہیں اور بہتر مستقبل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ موجودہ نوجوان نسل بھی کئی ایک مسائل کا شکار ہے۔ دنیا میں ہزاروں انقلاب آئے، ہولناک مظالم ڈھائے گئے، کئی سلطنتیں بنیں اور تباہ ہوئیں، تہذیبوں کا ٹکرائو ہوا اور فطری انقلاب رونما ہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں نوجوانوں نے ہی بہتر مستقبل کا بیڑہ اٹھایا۔ ہم آج ایسی صورتحال سے نبرد آزما ہیں کہ نوجوان نسل علمی، فکری، ثقافتی اور اخلاقی بحران کا شکار ہے۔ یہ ہمارا اپنا ہی کیا دھرا ہے۔ ایسی گھمبیر صورت حال درپیش ہے کہ اہل زمین تو اپنی جگہ آسمان بھی حیرا ن و ششدر ہے کہ اشرف المخلوقات کے نوجوان کس ڈگر پر چل رہے ہیں۔ ہر آنکھ آٹھ آٹھ آنسو رو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان نوجوانوں نے اپنی حقیقت جاننے کی کوشش بھی کی ہے ۔ بقول علامہ اقبالؒ
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردُوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پائوں میں تاجِ سرِ دار
فی زمانہ نوجوان نسل کا سب سے بڑا مسئلہ جمود کا شکار ہونا ہے۔ انسانی خودی جب جمود کا شکار ہو جاتی ہے تو وہ زنگ آلود ہو جاتی ہے۔ حرکت و عمل ہی سے ترقی و نشوونما ہوتی ہے لیکن جمود و سکون کا شکار فرد دورِ جدید کے حقائق سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ مسائل میں گھرا ہوا نوجوان اپنی حقیقت جاننے کے بجائے راہ فرار اختیار کرتا ہے جس سے نیکی میں کمی اور برائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انسانی شخصیت کشمکش اور الجھائو میں پھنس جاتی ہے۔ اگر شخصیت کی نگہداشت نہ کی جائے تو اس پر سکون یعنی جمود کی حالت طاری ہو جاتی ہے جس سے ایک کے بعد دوسرا مسئلہ جنم لیتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کے خیال میں عمل کرنا خیر ہے اور جمود کا شکار ہونا شر ہے۔ ان کا نقطۂ نظر ہے کہ اگر کوئی فرد نیکی کرتا ہے تو وہ یقینا نیکی ہے اور اگر برائی کرتا ہے تو برائی ہے لیکن اگر وہ کچھ بھی نہیں کرتا یعنی اس پر جمود طاری ہے تو یہ بھی برائی ہے جس سے خودی کی آزادی سلب ہو جاتی ہے، اس حالت میں اس کی زندگی کے سمندر کی موجوں میں اضطراب پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے اسے جھنجھوڑا جائے تاکہ وہ باعمل ہو جائے ۔
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
مسائل زیست کا جائزہ لیں تو موجودہ نوجوان نسل کو درپیش معاشی مسئلہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ نوجوانوں کو بیروز گاری جیسے سنگین مسئلے نے ہر سو گھیرا ہوا ہے جس سے ہر مسئلے کی ابتدا ہوتی ہے۔ دیگر تمام مسائل کو سوچ و بچار سے کسی حد تک حل کیا جاسکتا ہے لیکن روزگار نہ ہونے کی وجہ سے انسان کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ روپیہ پیسہ کے بغیر زندگی اتنی اجیرن ہو جاتی ہے کہ نوجوان خواہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ، تکلیف دہ حالت میں شب و روز مایوسیوں کے اندھیروں میں گھرا رہتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان اپنی ڈگریوں کا کشکول بنا کر روزگار کی بھیک مانگتا ہے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد معمولی ملازمت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
عالمی بنکوں، معاشی تنظیموں اور حکومتی اہلکاروں کی تقاریر سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ نوجوان محنت مزدوری کرکے رزق حلال کمانا چاہتا ہے لیکن ملکی وسائل ایسے نہیں ہیں کہ وہ روزگار حاصل کر ے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر نوجوان مایوسیوں کا شکار ہو کر منفی قوتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں، بے راہ روی میں نجات پاتے ہیں نشہ، چوری، ڈاکہ اور دیگر خرافات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اس طرح حقیقی اور حسین و جمیل زندگی سے نکل کر جرائم کی دنیا کا رخ کرتے ہیں۔
بیروزگاری نہایت پیچیدہ مسئلہ ہے حکومت اور نجی اداروں کو نوجوانوں کے اس سنگین مسئلہ کو حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے، اپنے ملک میں اگر ممکن نہ ہو سکے تو افرادی قوت کو تربیت دے کر دوسرے ممالک میں رزق حلال کمانے کے لئے بھیجا جا سکتا ہے ۔ نوجوانوں کو خود بھی کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اگر کسی وجہ سے مناسب روزگار نہیں ملتا تو جیسی بھی ملازمت یا کام ملتا ہے شروع کر دیں۔ خوب سے خوب تر کی تلاش جاری رکھیں خود روزگار کی بھی کوشش کی جائے۔ حضرت محمدﷺ کا وہ فرمان بھی سامنے رکھیں جس کے مطابق اگر گھر میں رسی اور کلہاڑی ہے تو جنگل سے لکڑی کاٹ کر بستی میں فروخت کریں۔ اب وہ زمانہ تو نہیں لیکن اس پاک مشورے سے فائدہ تو اٹھایا جاسکتا ہے۔ سستی اور کاہلی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ محنت اور کوشش بھی کامیابی کی دلیل ہے۔ دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ گزرے ہیں ان کا تعلق غریب یا متوسط طبقہ سے تھا لیکن صرف اور صرف شبانہ روز محنت و کاوش سے وہ اوج ثریا تک جاپہنچے اور ان کا نام آج تک مشعل راہ ہے۔ تلاش اور جستجو انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک لے جاتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ تن آسانی، آرام پسندی اور بے فکری کی زندگی چھوڑ کر تگ و دو جاری رکھیں۔ یقیناً ایک روز کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ خدا کی مدد بھی اسی وقت کارگر ہوتی ہے کہ جب کوئی خود احساس ذمہ داری سے خون پسینہ ایک کردے۔ منزل کی تلاش کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے لیکن کوشش تو کی جائے اور اپنے آپ کو اس قابل تو بنایا جائے کہ نئی منزل حاصل کرنی ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی انہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
علامہ اقبالؒ نے اپنے فکر و فلسفہ، شاعری، خطوط، خطاب اور گفتگو میں نوجوانوں کو فکر و تدبر سے اپنے مسائل حل کرنے کی ترغیب دی ہے۔ ہمت، کوشش اور مسلسل جرأت سے جینے کا صحیح حق ادا کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ نوجوان نسل کا ایک اور اہم مسئلہ صحیح اور مؤثر تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ تعلیم کاغذ کی ڈگریوں کی صورت میں موجود ہے لیکن عملی، علمی اور فکری طور پر کچھ نظر نہیں آتا۔ اس طرح نوجوان تربیت کا بھی خاطر خواہ اثر نہیں لیتے۔ تعلیم عمومی طور پر دو انداز کی ہوتی ہے، رسمی تعلیم اور غیر رسمی تعلیم۔ رسمی تعلیم مخصوص نصاب کے تحت اساتذہ کی نگرانی میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حاصل کی جاتی ہے جبکہ غیر رسمی تعلیم والدین، اخبارات، میگزین، ٹی وی اور دیگر ذرائع سے ملتی ہے۔ موجودہ نوجوان نسل پر غیر رسمی تعلیم کا زیادہ اثر ہوتا ہے کیونکہ سمسٹر سسٹم نے ہماری اپنی ثقافت اور تہذیب کا گلا گھونٹ دیا ہے، نوجوان مخصوص رسمی تعلیم سے بیزار ہو کر اپنی مرضی اور اپنے انداز سے سیکھنے میں دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ فیس بک اور انٹرنیٹ کی سہولت نے استاد اور کتاب سے دوری پیدا کر دی ہے حتیٰ کہ کئی مرتبہ قرآن پاک سے بھی استفادہ نہیں کیا جاتا۔ اس سے علمی، ادبی، فکری اور اخلاقی مسائل جنم لیتے ہیں اور نوجوان نسل بھٹک جاتی ہے۔ یہ بے راہ روی ایک ایسا سرطان ہے جس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنی جڑیں مضبوط کر لیتا ہے۔ بدیسی تہذیب و ثقافت کی تعلیم و تربیت، ''کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھو ل گیا‘‘ کے مصداق ہوتی ہے۔ کیونکہ مانگے ہوئے سورج سے سویرا نہیں ہوتا۔ یہ طریق نوجوان میں اتنا رچ بس گیا ہے کہ وہ تحریک پاکستان، تاریخ پاکستان، مشاہیر و دیگر اکابرین سے شناسا نہیں ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت کو علامہ اقبالؒ کے تصور پاکستان اور تصور ملت ِاسلامیہ، قائداعظم محمد علی جناحؒ کی کاوشوں، سر سید احمد خان کا فکر و تدبر، شاہ ولی اللہؒ کی علمی و فکری خدمات، مولانامحمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد، الطاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، چودھری رحمت علی، مولانا ظفر علی خان، فضل حق، سردار عبدالرب نشتر، لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح جیسی عظیم ہستیوں کا علم نہیں ہے۔ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ۔
اس سراب رنگ و بو کو گلستان سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
متعدد ممالک میں تقریباً 2 سو سے زیادہ علوم پڑھائے جاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں صرف میڈیکل، انجینئرنگ اور کمپیوٹر کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔ جو نوجوان ہزار ہا جتن کے باوجود بھی ان شعبوں میں ترقی و کامیابی حاصل نہیں کر سکتا وہ دلبرداشتہ ہو کر مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے۔ تصوریت کا شکار ہو کر ملت کے مقدر کا ستارہ بننے کے بجائے ناکارہ پرزہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس کے باوجود مایوسی کی بات نہیں ہے۔ اصلاح تو ہر ممکن ہو سکتی ہے، ان کو احساس ذمہ داری احساس خودی سے جگایا جاسکتا ہے۔ انسان بے حد صلاحیتوں کا مالک ہے۔ اگر اس مایوس، لا پروا اور غافل نوجوان نسل کو اپنی قابلیتوں، صلاحیتوں اور ہنر کا صحیح اندازہ ہو جائے تو وہ صحیح معنوں میں اپنے مقصد تخلیق کو پا سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ کی فکر میں فرد کو اپنی حقیقت اور اصلیت جاننے کی تلقین کی گئی ہے۔
تو راز کن فکاں ہے، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجمان ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
کسی قوم کے غیور نوجوان ہی مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن اور جسم تازہ دم ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کی صحیح اور مثبت تربیت کرکے راہ راست پر ڈالا جائے۔ یہ کام حکومتی اور نجی ادارے اپنی اپنی بساط کے مطابق کر سکتے ہیں۔ نوجوانوں کی نشوونما اور بالیدگی کی عمر اگر گزر جائے تو پھر تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔ اس لئے ضروری ہے کہ بروقت ان ناپختہ ذہنوں کو صحیح نہج پر ڈالا جائے۔
تعلیمی میدان میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نصاب میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی جائے۔ ایک زمانہ میں روس اور امریکہ کا سائنسی تحقیقی میدان میں مقابلہ ہوا کرتا تھا۔ ایک نے اپنے تعلیمی نصاب میں جدید سائنسی نظریات کا اضافہ کیا تو ترقی میں آگے نکل گیا پھر دوسرے نے یہی عمل دہرا یا تو وہ مقابلہ کرتے ہوئے زمین سے چاند پر قدم رکھنے کے قابل ہو گیا۔
ہمیں اپنی ثقافتی و مذہبی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے جدید علوم کے نظریات کو اپنے نصاب میں شامل کرنا چاہئے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں وہ کچھ پڑھایا جا رہا ہے جو ترقی پذیر ممالک میں بھی متروک ہو چکا ہے۔ اساتذہ کی تربیت کے لئے خصوصی ورکشاپس منعقد کی جائیں جن میں ان کے اپنے مضامین اور انتظامی امور سمجھائے جائیں۔ حکومتی نظم و نسق چلانے والے کے لئے تو سول سروس اکیڈمی میں بہترین تربیت دی جاتی ہے اور ملازمت کے دوران میں بھی کئی ایک کورسز کرائے جاتے ہیں۔ اس لئے اساتذہ کی تربیت پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ سکول اساتذہ کے لئے تو بی ایڈ، ایم ایڈ کی تعلیم لازمی ہے لیکن کالج اور یونیورسٹی اساتذہ کے لئے ایسا کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا جاتا۔ جس کی جو مرضی ہوتی ہے اپنی دانست کے مطابق تدریسی کام سرانجام دیتا رہتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ ذہنی پختگی نہ ہونے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتا۔
اپنی ملازمت کو تحفظ دینے کے لئے اساتذہ تنظیموں میں حصہ لینا شروع کر دیتے ہیں۔ آئے روز اجلاس اور ہڑتالوں کا سہارا لے کر حکومت کے تنظیمی امور پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں، جس سے تعلیم و تحقیق کا کام رک جاتا ہے۔ طلبا و طالبات ان تمام معاملات کا بے حد اثر لیتے ہیں اور وہ ان کی نقل کرتے ہوئے اپنی طلبا تنظیمیں قائم کر کے سیاسی ماحول گرماتے رہتے ہیں۔ نوجوان کا تعلیمی و تحقیقی کام چھوڑ کر سیاست میں حصہ لینا بھی ایک بڑا باعث تشویش مسئلہ ہے جس سے انہیں ترقی کرنے اور آگے بڑھنے میں کوئی مدد نہیں ملتی بلکہ طلبا سیاسی جماعتوں کے آلۂ کار بن کر اپنا مستقبل خراب کر لیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے احترام اساتذہ اور طلبا و طالبات کی تعلیم و تربیت پر بے حد زور دیا ہے ۔
ملائیشیا میں سرکاری یونیورسٹی ملایا ایشیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ وہاں کوئی سیاست یا دیگر فضولیات نہیں ہیں۔ پوری توجہ تحقیق پر دی جاتی ہے۔ پاکستان کی کوئی یونیورسٹی ایسی نہیں ہے جس کا نمبر دنیا بھر میں 5 سو میں بھی آتا ہو۔ کسی ایک شعبہ میں معمولی تحقیق پراتنے شادیانے بجائے جاتے ہیں کہ اصل کام بھول کر نشرواشاعت اور تشہیر کی طرف لگ جاتے ہیں۔
سنگا پور چھوٹا سا ملک ہے ۔ 1962ء میں ملائیشیا سے الگ ہوا تھا۔ اب ترقی کرتے کرتے دنیا بھر میں صف اول یا دوم کے ممالک کی صف میں کھڑا ہے حالانکہ دوسری جنگ عظیم 1945ء میں سنگاپور کا زیادہ تر حصہ تباہ ہو گیا تھا۔ جاپان بھی 1945ء میں ایٹم بم کی تباہ کاریوں سے بالکل مر چکا تھا لیکن باشعور، عقلمند اور عالی دماغ افراد نے عالمی سیاست میں حصہ لینا چھوڑ دیا۔ تعلیمی اداروں میں نصاب تبدیل کیا اور نوجوانوں کو صنعتی تعلیم کی طرف راغب کیا۔ اب جاپان دنیا بھر میں اپنی کامیاب تعلیمی پالیسی کی وجہ سے محنتی انقلاب لے آیا اور اس کی مصنوعات پوری دنیا میں قابل اعتماد سمجھی جاتی ہیں اور ترقی کرتے کرتے خوشحالی کے آسمان کو چھو رہا ہے۔ چین ہمارے 1949ء میں عظیم رہنما مائو زے تنگ کی سرپرستی میں آزاد ہوا تھا۔ زیادہ تر چینی، نشہ اور سستی و کاہلی کے عادی تھے لیکن محنت و کاوش سے حالات بدلنے لگے اور اب برتر طاقت امریکہ بھی بعض امور میں چین سے مشورہ لیتا ہے۔ چین سمال انڈسٹری میں بہت آگے نکل چکا ہے اس کی مصنوعات دنیا کے تقریباً ہر ملک میں فروخت ہو رہی ہیں۔ جس ملک کی جیسی طلب ہو چین اس کے معیار کے مطابق اشیا تیار کر دیتا ہے۔ سنگاپور انڈین بازار میں بھارتی اشیا کم قیمت اور نسبتاً کم معیار کی ہیں جبکہ چین بازار میں مہنگی اور اعلیٰ کوالٹی کی چینی اشیا فروخت ہو رہی ہیں۔ ایران تمام صنعتی شعبوں میں ہم سے کئی گنا بہتر اور معیاری پیداوار دے رہا ہے۔ ہمارے یہاں نوجوانوں کا ایک یہ بھی مسئلہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں انہیں اپنی منزل پتا نہیں ہے، وہ بے یقینی کی کیفیت میں تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ کام یا ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے اپنا شعبہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ جان جوکھوں میں ڈال کر شب و روز محنت کرکے میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی جاتی ہے لیکن کام یا ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے بعض نوجوان مقابلہ کا امتحان پاس کرکے حکومتی انتظامی امور سنبھال لیتے ہیں۔ بعض کوشش کرکے دیگر ممالک کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہاں جیسا کام بھی ملے بہتر معاوضہ کی وجہ سے شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تمام تر نوجوان نسل کے مسائل ہیں، جس کے پاس طاقت ہو مسائل کا حل بھی اسی کے پاس ہوتا ہے، طاقت سے مراد حکومت ہے۔
حکومت وقت کو چاہئے کہ ماضی کی تلخیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ پانچ سالہ منصوبہ میں نوجوان نسل کے بہتر مستقبل کی طرف عمل توجہ دے نہ کہ صرف کاغذی کارروائی کی جائے۔ فکر ِ اقبال اور کلام اقبال میں زیادہ تر نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا درس دیا ہے کیونکہ کسی ملک کی ترقی و نشوونما میں نوجوان نسل کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اسلامی انقلاب ہو، فرانس کا انقلاب ہو، انقلابِ روس ہو، جاپان، چین یا دنیا کا کوئی انقلاب ہو،اس میں نوجوان نسل کی علمی، اخلاقی، معاشی اور فکری تربیت ہی کام آئی ہے۔ زندگی میں کون سا پیشہ اختیار کرنا ہے کہ سکول اور کالج کے زمانہ طالب علمی میں ہی طے ہو جاتا ہے۔ اس لئے مضامین کے انتخاب اور پیشہ اختیار کرنے میں نوجوان نسل کی صحیح رہنمائی و مشاورت کی جائے۔ وطن عزیز پاکستان میں خواتین کی تعداد مردوں کے تقریباً برابر ہے۔ اس لئے طلبا کے ساتھ ساتھ طالبات کی تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہترین تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ شعبہ تعلیم، میڈیکل انجینئرنگ، فوج اور دیگر تمام شعبوں میں طالبات بڑی محنت و کاوش سے ترقی کے زینے عبور کر رہی ہیں۔ اس لئے تعلیمی میدان میں آسانیاں پیدا کرکے ان کا مستقبل سنوارا جائے تاکہ وہ بھی ملکی ترقی و نشوونما میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔ فکر ِ اقبال کی روشنی میں بحیثیت قوم ہمیں ہمیشہ مثبت سوچنا چاہئے اور بہتری کی طرف قدم اٹھانا چاہئے پھر ایک وقت آئے گا یقینا مسائل میں کمی اور کامیابی و خوشحالی میں اضافہ ہوگا۔ امید فردا کی بنیاد پر علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا ۔
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

 

Back
Top