Ghar Rahein Mehfooz Rahein By Fatima Khan Article

’’گھر رہیں‘ محفوظ رہیں‘‘ ہدایت پر عمل کریں....... فاطمہ خان

وزیراعظم عمران خان نے اتوار کی دوپہر کہا تھا کہ لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں ‘لیکن ان کے الفاظ کی باز گشت ابھی فضا میں موجود تھی کہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پنجاب میں دو ہفتوں کیلئے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا‘جو ابھی کل تک وزیراعظم سے متفق تھے کہ لاک ڈاؤن ضروری نہیں ۔بہرحال اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے تو ممکن ہے وائرس کے پھیلنے کے حوالے سے ان کے پاس کچھ نئی معلومات آئی ہوں‘جن کے تناظر میں لاک ڈاؤن ناگزیر ہو گیا ہو۔ان کے اس فیصلے کو سراہا جا رہا ہے‘لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ فیصلہ پہلے ہو جاتا تو زیادہ اچھا ہوتا اور اب تک ایسے فیصلے کے مثبت اثرات نظر بھی آ رہے ہوتے۔عین ممکن ہے لاک ڈاؤن کے معاملے میں وزیراعظم کی رائے اب بھی وہی ہو جو قوم کے نام ان کے خطاب میں سنی گئی‘لیکن عملاً اب ‘پورا ملک ہی لاک ڈاؤن ہے۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ’’گھر رہیں‘ محفوظ رہیں‘‘ مہم کا افتتاح کر کے لوگوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے کی تلقین کی ہے‘ تاہم یہ وضاحت بھی کر دی گئی ہے کہ لاک ڈاؤن کا مطلب کرفیو نہیں‘ درست کہا گیا ہے‘لیکن اگر لوگ اپنی آزاد مرضی سے گھروں سے باہر نہ نکلیں‘ یا حکومت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے گھروں میں رہیں‘ دونوں صورتوں میں جوہری طور پر تو کوئی فرق نہیں‘ویسے بھی مقصود تو یہ ہے کہ لوگوں کا میل میلاپ ختم ہو جائے تاکہ وائرس سے محفوظ رہیں‘جو ایک انسان سے دوسرے انسان کو متاثر کرتا ہے۔ملک میں امراضِ خون کے ممتاز ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کی وبا اب ایسے مرحلے پر پہنچ گئی ہے‘جہاں وائرس کی شدت میں تیزی آ جائے گی اور اس کا رخ ایشیائی ممالک بشمول پاکستان کی طرف ہو گا۔صوبہ سندھ میں وائرس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ان مشکل حالات میں قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے اور ہر قسم کے سیاسی اور دوسرے اختلافات بھلا کر وسعت ِ قلبی اور کشادہ نگاہی کا رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ہر قسم کی تنگ دِلی اور تنگ نظری کو بالائے طاق رکھ کر اب‘آگے بڑھنا وقت کا تقاضا ہے۔آزمائش کی اس گھڑی میں وسیع تر قومی مشاورت کا اہتمام خوش آئند ہے‘ویسے بہتر ہوتا کہ آل پارٹیز کانفرنس کی تحریک حکومت کرتی اور وزیراعظم اس میں قائدانہ کردار ادا کرتے اور کھلے دِل کے ساتھ اپنے مخالف رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کرتے‘جنہوں نے حکومت کو ہر طرح کے تعاون کی پیشکش کر رکھی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری تو اس موقع پر سیاسی مخالفت سے دستبردار ہو چکے ہیں اور شہباز شریف نے وطن واپس آتے ہی شریف گروپ کے تمام ہسپتال اور دوسرے طبی ادارے حکومت کو دینے کی پیشکش کی ہے۔حکومت کو اس سے فائدہ اٹھانے میں کسی ہچکچاہٹ سے کام نہیں لینا چاہیے اور سکولوں وغیرہ کی عمارتوں میں آئسولیشن سنٹر بنانے کی بجائے جہاں تمام انتظامات نئے سرے سے کرنے پڑیں گے‘ ان ہسپتالوں میں ایسے مراکز بنانے چاہئیں ‘جہاں تمام تر سہولتیں پہلے سے موجود ہیں‘ مریضوں کیلئے بستر بھی ہیں اور ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی موجود ہے۔موجودہ حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے اپوزیشن جماعتوں کا غیر مشروط تعاون بغیر مانگے مل رہا ہے‘جہاں تک میری یاد داشت کام کرتی ہے‘ حکومت نے اس سلسلے میں اپوزیشن جماعتوں سے کسی رابطے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور مخالف جماعتیں جو بھی کر رہی ہیں‘یکطرفہ طور پر کر رہی ہیں‘حکومت شاید ان جماعتوں سے کسی مشورے کی ضرورت محسوس نہ کرتی ہو اور اپنے تئیں یہ سمجھتی ہو کہ وہ اکیلے ہی درپیش حالات کو سنبھالنے کی طاقت رکھتی ہے‘لیکن نظر یہی آتا ہے کہ اس مرحلے پر اگر قومی اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو صورتِ حال کی سنگینی پر قابو پانا مشکل ہو گا۔​
 
@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
@Maria-Noor
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 

Back
Top