Ghazal Aur Allama Muhammad Iqbal (R.A) By Abdul Hafeez Zafar

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231
غزل اور علامہ اقبالؒ ۔۔۔۔۔۔ تحریر : عبدالحفیظ ظفر

Ghazal Aur Allama Iqbal.jpg

انہوں نے کلاسیکل غزل کا اسلوب تبدیل کر کے رکھ دیا

ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری کے بارے میں جب بھی کبھی بات کی جائے یا خامہ فرسائی کی جائے تو عام طور پر ان کی نظموں کا محاکمہ کیا جاتا ہے یا پھر ان کے فلسفہ خودی کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ بہت کم دیکھا گیا ہے کہ علامہ اقبالؒ کو ایک غزل گو کے طور پر بھی دیکھا جائے۔ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ علامہ مرحوم کی غزل گوئی روایت سے بالکل ہٹ کر ہے اور ان کے اکثراشعار فلسفیانہ رنگ لئے ہوئے ہیں۔ ان کی غزلوں میں ہجر و وصال ، عارض و خسارا اور خم کا کل کے قصے نہیں ملتے۔ اس لحاظ سے یہ کہنا درست ہو گا کہ علامہ اقبال ؒنے غزل کے کلاسیکل اسلوب کو تبدیل کر دیا ۔ غزل کا وہ لہجہ جس سے قاری مانوس تھے ، ان کی غزلوں میں نہیں ملتا۔ ان کی غزل اپنے نفس مضمون اور اسلوب کے حوالے سے ہمیں غیر مانوس لہجے سے متعارف کراتی ہے۔ وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے اور داغ دہلوی کا اندازِ بیان بالکل مختلف ہے ان کی مضمون آفرینی کا بھی اپناایک رنگ ہے۔
علامہ اقبالؒ نے دراصل غزل کے روایتی مضامین کو ایک طرف رکھ کر ایک نئے جہاں کو دریافت کیا ہے۔
غزل چاہے کلاسیکل ہو یا جدید ان کی غزل ان سب سے جدا ہے۔ یوں کہنا چاہئے کہ ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے غزل کو نئی شناخت سے ہمکنار کیا ہے۔یہ نہیں کہ ان کی غزلیات میں رومانوی موضوعات بالکل ہی نہیں ملتے ہیں۔ ذرامندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
کوئی رم کا مہمان ہوں اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
کبھی ان غزلوں میں نوجوانوں کے لئے پیغام ملتا ہے۔ کبھی انہیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ اپنی عظمت رفتہ کو تلاش کریں۔
یہ شعر کیا کہتا ہے
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
اور اس غزل میں تو انہوں نے اپنے معیارات کی کھل کر وضاحت کر دی ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسمان اور بھی ہیں
یہ تمام اشعار کا مفہوم یہ ہے کہ نوجوانوں کو خوب سے خوب تر کی جستجو میں اپنی صلاحیتوں کو وقف کرانا چاہئے۔ ایک کارنامہ سر انجام دینے کے بعد انہیں مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جانا چاہئے۔ اس غزل کا رنگ نظم جیسا ہے لیکن تکنیکی لحاظ سے بہر حال یہ غزل ہے۔ بس انداز بیان اور مضمون آفرینی بالکل مختلف ہے۔ غزل کا عام قاری ایسے مضامین سے آشنانہیں اس لئے وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ انہوں نے غزل میں مقصدیت کو اولیت دی ہے۔ ''شاہین‘‘ ، ''مردِمومن‘‘ اور ''خودی‘‘ اقبالؒ کی شاعری کی وہ علامتیں ہیں جن پر انہوں نے اپنے سارے فلسفے کی عمارت تعمیر کی ہے ۔یہ علامتیں ان کی نظموں کے علاوہ اُن کی غزلوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ ذیل میں اُن کی جس غزل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اُس نے تو عروجہ غزل کے مزاج پر ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں میری جبین نیاز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی تو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو تیرے عفو بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہی گرمیاں نہ وہ حسن میں رہی شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
تیسرے شعر کا پہلا مصرعہ رمانوی لہجے کا غماز ہے لیکن جب دوسرا مصرعہ پڑھنے کو ملتا ہے تو اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ رومانس مسلمانوں کے عروج سے ہے اور شاعر انہیں بہادر اور شجاعت کے پیکر مسلمانوں کے زوال اور زبوں حالی پر ماتم کناں ہے۔ اُسے دکھ ہے، ملال ہے اور غم کی شدت اسے نڈھال کیے جا رہی ہے کہ کہاں گیا وہ مرد مومن ،کہاں ڈھونڈیں شاہیں کو اور کہاں گئی وہ حمیت اور خودی۔
اب ایسی مضمون آفرینی کسی اور غزل گو کے ہاں ملتی ہے؟ جو اب نفی میں ہے۔ اقبالؒ نے غزل کو نئی جہتیں اور نئے معانی دیئے ہیں۔ غزل کا قاری اُن کے اس ''انقلاب‘‘ کو مانے یا نہ مانے غزل کے حوالے سے وہ اپنے قائم کئے گئے معیارات پر قائم ہیں۔
اس سلسلے کو بڑھا کر آگے چلتے ہیں
گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کر
ہوش و خرد شکار کر، قلب و نظر شکار کر
تو ہے محیط بے کراں میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہم کنار کر، یا مجھے بے کنار کر
باغِ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
اس تیسرے شعر میں تلمیع کا بہت خوبصورت استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی آدم کو بہشت سے نکالا گیا اور اب وہی آدم اللہ تعالیٰ سے کہہ رہا ہے کہ اسے اس کا انتظار کرنا چاہئے دنیا کے کام بہت لمبے ہیں۔ کیا تخیل ہے۔ علامہ صاحب نے ایسے ہی انوکھے موضوعات کو اپنی غزلوں میں سمویا ہے سادگی، سلامت دلکش تراکیب اور ندرتِ خیال علامہ اقبالؒ کی غزلوں کا خاص وصف ہے۔یہ اشعار دیکھئے
نقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
اس شعر میں انہوں نے تقلید کو نا پسندیدہ عمل قرار دیا ہے اورحضرت خضرؑ کے حوالے سے تلمیع کا استعمال بھی کیا ہے۔ اقبال مرد کو اہم جدوجہد کا سبق دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اپنے لئے راستہ خود ڈھونڈے۔اور اس شعر میں ان کی فکر انگیزی اوج کمال کو سینچتی نظر آتی ہے۔
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہابھی چھوڑ دے
ایسے لگتا ہے کہ ڈاکٹر اقبال ؒنے غزل کے روایتی ڈھانچے کو قبول ہی نہیں کیا۔ انہوں نے غزل کا فریم ورک خود ہی تیار کیا اور اپنی فکر کو اس میں سمودیا۔ انہوں نے اپنی فکر کی آتش میں غزل کی روایات کو بھسم کر کے رکھ دیا۔ اب ذرا مندرجہ زیل اشعار پر غور کیجئے۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوق سفر کے سوا اورنہیں
رگوں میں گردش خوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوزِ جگر کے سوا کچھ اور نہیں
یہ تمام اشعار فلسفیانہ رنگ لیے ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں کہ علامہ اقبال ؒنے اپنی غزل کو بھی اپنے نظریات اور فلسفے کا لباس پہنایا ہے۔ اگر قاری اُن کی غزل کے لہجے اور مضمون آفرینی سے مانوس ہو جائے تو اس کا شعری مزاج ہی یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ علامہ اقبالؒ نے غزل کے حوالے سے جو تجربات کیے اُن کا واقعی کوئی ثانی نہیں۔ اپنے اشعار میں وہ ایک نہیں بے شمار پیغامات دیتے نظر آتے ہیں۔ اُن کے احساس کا کینوس بہت وسیع ہے اور وہ قاری کو مسلسل سوچنے پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ کی غزل کا موڈ جب بدلتا ہے تو پھر وہ ایسے اشعار بھی کہتے ہیں
لا پھر اِک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آجائے مجھے میرا مقام اے ساقی
تومری رات کو مہتاب سے محروم نہ رکھ
تیرے پیمانے میں ہے ماہِ تمام اے ساقی
اب ان کا احساس کیا کروٹ لیتا ہے ذرا یہ اشعار ملاحظہ کریں
مسلمان کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
مروت حُسن عالمگیر ہے مردانِ غازی کا
شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
علامہ اقبال نے اپنی غزل کو جس مزاج سے آشنا کیا اور جس ستم کی مضمون آفرینی کی وہ انہی کا حصہ ہے۔
اس مضمون میں اُن کی کچھ غزلیات کے کچھ اشعار کا حوالہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے بہت سی غزلیں تخلیق کیں اور اُن کی غزل گوئی کے حوالے سے ایک مکمل کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ راقم یہ سمجھتا ہے کہ علامہ اقبالؒ جیسی غزل اب شاید ہی کوئی اور شاعر تخلیق کرسکے ۔
 

@intelligent086
ماشاءاللہ
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
 
Back
Top