Safar Nama Goron Kay Dais Mein by Atta ul Haq Qasmi

Status
Not open for further replies.
پيارے بھائي

عجيب بے ہودہ آدمي ہے

حسن رضوي کي آنکھوں ميں اب نيند اتر رہي تھي اور وہ سونا چاہتا تھا چنانچہ عاشور اور بھابي خدا حافط کہہ کر کمرے سے چلے گئے ۔ خوشبو اور بتول کے سو جانے اور اب عاشور اور بھابي کے چلے جانے سے مجھے ايک عجيب سي فيلنگ ہوئي۔ تھوڑي دير پھلے ہم گھر ميں تھے اب ہاسٹل ميں ہيں ۔ ميں نے سوچا اور اس کے ساتھ ہي کمبل تان کر بستر پر ليٹ گيا۔ ميں ابھي غنودگي کے عالم ميں تھا کہ حسن بستر سے اٹھا اسنے کمرے کي بتي جلائي اور آئينے کے سامنے کھڑا ہو کر آنکھوں کے پپوٹے اٹھا کر ديکھنے لگا۔ گولي کا اثر شايد ختم ہو گيا تھا۔ ميں بستر سے باہر نکلا اور کہا تمہاري آنکھيں تو واقعي ہلدي کي طرح زرد ہو رہي ہيں ۔ ہو رہيں ہيں نا؟ بخار بھي ہے ميں نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ہے نا؟ لگتا ہے جسم بھي ٹوٹ رہا ہے ٹوٹ رہا ہے نا؟ ماليخوليا بھي ہے ۔ يار پھر وھي بکواس تم عجيب دوست ہو ميريحالت کا مزاق اڑاتے ہو ميں سامان باندھنے لگا ہوں صبح پاکستان جانا ہے ۔ تمہاري تشويش ناک حالت کے پيش نظر لگتا ہے سامان بعد ميں ہي آئے گا۔ يار آدمي کي شکل بري ہو تو بات تو اچھي کرےمجھے اب تريلياں بھي آرھي ہيں۔ تمہاري ايسي تبسي ميں دونوں ہاتھوں سے اس کي گردن دبوچ لي "انسان بن جائو ورنہ گلا دبا دوں گا۔ يار مجھے چھوڑ دو مجھ سے چھڑايا نہيں جا رہا ۔ حسن نے ہولے سے کہا ميں نے اس کي طرف ديکھا وہ بہت کمزور لگ رہا تھا۔ اب ميں فکر مند ہوا پھر صبح کے چار بجے جتني نفسيات ميں نے پڑھي تھي اسے حوصلہ دينے کے لئے سب اس پر آزما ڈالي کہ ميں جانتا تھا اسے کوئي جسماني تکليف نہيں۔ ميں نے اسے ايک واليم دي گرم دودہ کا ايک کپ پلايا اور پھر اسے کوئي ساڑھے چار کے قريب ميں نے ديکھا کہ وہ نارمل محسوس کر رہا ہے پھر تھوڑي دير بعد وہ گہري نيدن سو گيا اس کے چہرے پر سکون کيفيت تھي عجيب بيہودہ آدمي ہے۔ صبح گيارہ بجے کے قريب آنکھ کھلي تو ہم دونوں ہاسٹل سے گھر ميں منتقل ہو گئے کہ بھابي ناشتہ بنا کر کمرے ميں ہي لے آئي تھي عاشور ہمارے لئے چائے بنا رہے تھے ۔"خوشبو اور بتول کہا ہيں" گھر کے لوازمات پورے ہونا چائييں تھے ۔ وہ تو اسکول گئي ہيں ۔بھابي نے کہا ويسے وہ حسن بھائي سے بہت مانوس ہيں۔ "اصل ميں بچے بچوں ہي ميں خوش رہتے ہيں" عاشور نے حسن پر فقرہ اچھالا حسن مسکرا کر خاموش ہو گيا موصوف رات والي صورت حال پر کچھ شرمسار سے لگتےتھے ۔ حسن بھائي آپ نے تو ڈرا ہي ديا تھا۔ بھابي نے کہا ۔ڈرايا تو اس نے مجھے آپ لوگوں کے جانے کے بعد ہے ،ميں نے بتايا ۔ کيا مطلب ؟ عتيقہ بھابي نے پوچھا۔ ايسے ہي جھوٹ بول رہا ہے ميں تو آپ لوگوں کے جاتے ہي سو گيا تھا اس وقت کا سويا ہوا اب اٹھا ہوں ۔ حسن نے آنکھوں ہي انکھوں ميں التجا کي کہ ميں خاموش رہوں۔تم ٹھيک کہتے ہو ميں نے کہا مگر يہ بتائوں آج کا کيا پروگرام ہے برمنگھم جانا ہے کہ پاکستان جانا ہے؟ برمنگھم وہاں کيا ہے؟ حسن نے پوچھا واليم کا اثر زيادہ ہي ہو گيا تھا۔ وہاں وہ مشاعرہ ہے جس کے لئے امجد اسلام امجد ، خالد احمد اور تمہيں خاص طور پر پاکستان سے بلايا گيا ہے۔ يار ميں تو بھول ہي گيا تھا اعجاز تو گھر پر انتظار کر رہا ہوگا۔ تو کيا ارادے ہيں۔ عاشور بھائي سے کہتے ہيں وہ ہميں اعجاز کي طرف چھوڑ ديں۔
 
برمنگھم براستہ آکسفورڈ

تھوڑي دير بعد ہم اعجاز کي طرح تھے وہاں ابرار ترمزي ، ارشد لطيف اور اطہر راز ہمارے منتظر تھے ۔ اعجاز کي اسٹيشن ويگن ميں ہم "اہل خانہ" يعني اعجاز طارق طور حسن رضوي اور ميرے سميت سات آدمي با آساني سما گئے۔ باقر نقوي کي کار ميں عاشور کاظمي اور رشيد منظر سوار تھے افتجار عارف اور ظہور نيازي دوسري کار ميں تھے ۔ہمارا ارادہ رستے ميں پکنک کا تھا چنانچہ ہم ہائي وے کي بجائے مختلف قصبوں اور شہروں ميں سے ہوتے ہوئے برمنگہم پہنچے آکسفورڈ مين ہم نے دور تک پھيلے ہوئےکھيتوں کے کنارے بيٹھ کر لنچ کيا اور متفقہ طور پر اسي کو پکنک قرار ديا۔ ہمراہيوں ميں سے اطہر راز کا بيان تفصيل طلب ہے تاہم يہاں ان کا مختصر احوال بيان کرنا ضروري ہے۔ ہمارا يہ ہم سفر حضرت عمر رضي اللہ تعالي عنہ کے اس قول کي روشني ميں بہترين انسان قرار پايا ہے کہ کسي شخص کي اصل پہچان سفر ميں ہوتي ہے ۔ اطہر راز الحيم سثحيم انسان ہيں ميرے خيال ميں ان کا دل ان کے جثے کے مطابق ہے يعني خاصا بڑا ہے ۔دوستوں کے لئے ہر تکليف وہ خندہ پيشاني سے برداشت کرتے ہيں ان کے تندو تيز جملوں کو مسکرا کر ٹال ديتے ہيں اور ان کي اس عادت کي وجہ سے ہر کوئي ان پر چڑہائي کي کوشش کرتا ہے ۔ انتہائي ايثار پيشہ ہيں خود کو تکليف ميں ڈال کر دوسروں کے لئے آسانياں پيدا کرتے ہيں کھانے پينے کے بے حد شوقين ہيں چنانچہ دوران سفر ايک جيب ميں ہاتھ ڈالتے تو بسکٹ نکال ليتے۔ دوسري جيب ميں ہاتھ ڈالتے تو خشک ميوہ بر آمد ہوتا خود کھانے کي نوبت کم آتي دوسروں کو کھلاتے اور خوش ہوتے سچي بات کہنے سے نہيں ٹلتے ليکن جب اس کا نتيجہ بھگتنا پڑتا ہے تو پريشان ہو جاتےہيں ۔ تاہم اگلي مرتبہ پھر وہي کہتے ہيں جسے وہ حق سمجھتے ہو،سنجيدہ غزل بھي کہتے ہيں اور طنز و مزاح پر بھي ہاتھ صاف کرتے رہتے ہيں۔ ابرار ترمزي نے اپني نوکيلي باتوں سے ان کو اتنا زچ کيا کہ کوئي اور ہوتا تو گھتم گھتا ہو جاتا بلکہ اطہر راز ايسا لحيم سثحيم انسان تو ابرار ترمزي ايسے دانشورانہ جسم کے مالک شخص کو با آساني ايک ہاتھ ميں اٹھا کر کھڑکي سے باہر پھينک سکتا تھا مگر وہ ابرار کو بھي اپني مسکراہٹوں کي مار ہي مارتے رے ويسے ابرار نے اطہر راز کے حوالے سے ايک مزيد ار بات کہي کي مين نے تو ان سے تو دوستي اس لئے کي تھي کہ کبھي لڑائي وڑائي ميں کام آئيں گے مگر جب کبھي ايسا موقع آتا ہے يہ موقع پاتے ہي ميدان سے فرار ہو جاتے ہيں۔ برمنگھم يونيورسٹي کي حدود ميں داخل ہوتے ہي شلواريں ، ساڑھياں اور شيروانياں نظر آنا شروع ہو گئيں يہ مشاعرےکے سامعين تھے جق درجوق مشاعرہ سننے کے لئے چلے آرہے تھے ۔دوسرے لفظوں مين يہ وہ ٹربيونل تھا جس کے سامنے ہم پيش ہونے کے لئے جا رھے تھے۔ اعجاز نے يونيورسٹي کے پارکنگ ايريا مين کار پارک کي تو ڈاکڑ صفي حسن سفيد پاجامے گيروي رنگ کے سلکي کرتے ميں ملبوس اسٹائلس انداز ميں چارد اوڑھے اور ڈارک شيشوں کي عينک پہنے بے تابي سے ہماري طرف بڑھے ۔ ارے بھائي بہت دير کردي۔ انہوں نے سب سے جلدي جلدي ادھا کچا معانقہ کرتےہوے کہا۔ ہال ميں لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہيں ۔ باقي باتيں مشاعرے کے بعد ہوں گي۔ آئيں چليں۔ ہال ميں امجد اسلام ايک گوشے ميں خالد احمد مکرم اور بھابي کے ساتھ بيٹھا آنکھيں نکال کر مجھے ديکھ رہا تھا ۔کہا مر گئے تھے پريشان کر ديا چار دفعہ لندن فون کر چکا ہوں ہسپتالوں سے بھي پتہ کيا ہے۔ نرسو ں سے بھي پوچھا ، خالد احمد نے لقمہ ديا۔ امجد ، بھابي اور خالد احمد ڈاکٹر صفي حسن کے ساتھ سيدھا برمنگھم آگيا تھا۔ تم لوگوں کو ايک ہفتے کے بعد ديکھ کر بہت خوشي ہوئي ، ميں نے محبت سے مغلوب لھجے ميں کہا۔ تمہارا مطلب يہ ہے کہ آئندہ ہميں متواتر ديکھ کر تمہي خوشي نہيں ہوگي۔ تار تم ہمين ديکھ کر خوشي ہونے کے لئے ہفتے کا وقفہ کچھ کم نہيں کر سکتے ؟ خالد احمد کو ميرے مھمل جملے سے موقع مل گيا تھا۔ تھوڑي دير بعد مشاعرہ شروع ہو گيا ورنہ خالد کو چپ کرانا مشکل تھا۔ مشاعرے کي صدارت ممتاز اداکار صداکار اور عمدہ ادبي ذوق کے حامل صياء محي الدين نے کرنا تھي۔ ليکن وہ عين موقع پر پاکستان چلے گئے ۔ ان کي جگہ صدارت کے فرائض افتخار عارف نے انجام ديئے جبکہ عاشور کاظمي کو مہمان خصوصي بنايا گيا۔ تھوڑي دير بعد عاشور کاظمي طبعيت کي خرابي يا صحبت ہم نشين کي وجہ سے اسٹيج سے اتر باہر چلے گئے اور پھر پتہ وہ مشاعرے ميں شرکت سے بچنے کے لئے واپس لندن چلے گئے ہيں۔ لڑائي جھگڑے پاکستان ميں بھي بہت ہيں مگر برطانيہ ميں ان کي نوعيت کچھ ايسي ہے کہ گالي گلوچ اور مار کٹائي تک بھي نوبت پہنچ جاتي ہے۔
 

برمنگھم براستہ آکسفورڈ

"مشاعرہ " تو دل ناتواں نے خوب کيا

ہال سا معين سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ ان ميں سے تين چار باذوق سکھ اور ہندو حضرات کے علاوہ باقي تمام پاکستاني سامعين تھے جن کي بے پناہ داد سے مشاعرہ خوب جما۔ اسٹيج سيکريٹري خوبرو نوجوان عباس ملک تھے ۔ جن سے برس ہا برس پيشتر واہ کينٹ کے ايک مشاعرہ ہي ميں ملاقات ہوئي تھي۔ اور وہ مشاعرہ اپنے طور پر ايک يادگار مشاعرہ تھا۔ واہ اسٹيڈيم ميں منعقد ہونے والے اس مشاعرے ميں شعرائ اور سامعين کے درميان اتنا زيادہ فاصلہ تھا کہ درمياني حصے ميں بيس پچيس کے قريب مزدور حضرات چادريں منہ پر لئے گہري نيند سو رہے تھے۔ اس مشاعرے مين کچھ شاعر بھي ايسے تھے کن ان کے کلام اور سوئے ہوئے لوگوں کے خراٹوں کے مابين يہ فيصلہ مشکل ہو رہا تھا کہ دونوں ميں روم کس ميں زيادہ ہے۔ واہ کينٹ کےاس مشاعرے کے اسٹيج سيکريٹري اس سے قبل صرف کبڈي کے ميچوں کي کمنٹري کرتے رہے تھے ۔ مشاعرے کي نظامت ايمرجنسي حالات ميں ان کے سپرد ہوئي تھي چنانچہ ان کا شاعروں کو بلانے کا اندازہ بھي "ہٹ کو ڈي کوڈي کوڈي" جيسا تھا۔ برمنگھم ميں عباس ملک اور ميں واہ کينٹ کےاس تاريخي مشاعرے کو ياد کرکے کافي دير تک ہنستے رھے۔ اس مشاعرے ميں پاکستان سے بطور خاص مدعو کئے گئے شعراء کے علاوہ برمنگہم اور برطانيہ کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے شاعر وں نے بھي اپنا کلام سنايا۔ڈاکٹر صفي حسن تو خاصے کرانک قسم کے شاعر ہيں کہ ان کا کلام گزشتہ برس ہا برس سے پاکستان کے موقر ترين ادبي جرائد ميں شائع ہو رہا ہے ۔ اب کچھ عرصے سے ان کي بيگم يعني ہماري بھابي طاہرھ بھي شاعري کي طرف مائل ہوئي ہيں ۔ بلکہ اتني مائل ہوئي ہيں کہ لگتا ہے کے لٹيں نکا ل رہيں ہيں ۔ انہوں نے بہت کم عرصے ميں مقدار اور معيار کے لحاظ سے خاصي مقبول غزليں کہي ہيں۔ ان شعراء کے علاوہ يہاں جن شعرائ نے اپنا کلام سنايا ان ميں رشيد منظر ، اکبر حيدر آبادي، باقر نقوي، اطہر راز ، سيد عطا جالندہري ، سرمد بخاري، سعيد اختر دراني ،يوسف مر، جاگير سنگھ چاہان ، متحرمہ ياسمين حبيب ، محترمہ طلعت سليم، اعجاز احمد اعجاز، ارشد لطيف ، صداقت حسين سوز ، نسيم چوہدري ، آدم چغتائي ، محمد عارف اور رشيد احمد ديوانہ شامل تھے ۔ مشاعرے کي "کھڑکي توڑ" کاميابي کو ديکھ کر منتظمين مشاعرہ ڈاکٹر علي حسن ،ڈاکٹر سعيد اختر دراني، جناب تصدق حسني، جناب سليم جاويد اور جناب داور توفيق نہال ہو رھےتھے۔
ايک اداس کر دينے والا خيال
مگر ٹھيک انہي لمحوں ميں ايک انہھائي اداس کر دينے والے خيال نے مجھے اپني لپيٹ ميں لے ليا۔ ميں نے سوچا کہ پچاس برس بعد جب اس مشاعرے کے سامعين ميں سے بيشتر اپني فعال زندگي گزار چکے ہوں گے اور ان کي جگہ اردو سے بے بہرو ان کي آئندہ نسليں لے چکيں ہون گي اس وقت برطانيہ کي فضائيں ہمارے کلچر کے ان خوبصورت مظاہرے سے محروم ہو جائيں گي مجھے يہ اميد بھي کم نظر آتي ہے۔ کہ اس دوران پاکستان سے يورپ اور امريکہ آنے والوں کا سلسلہ يونہي جاري رہے گا۔ ايک توا سلئے کہ ان مملک ميں پہلے ہي "ہائوس فل کا بوڑد" لگايا جا چکا ہے اور غير ملکيوں کي آمد پر پابندياں سخت سے سخت ہوتي جا رہي ہيں ۔ اور دوسرے اس لئے کہ مجھے اس امر کا سو فيصد يقين ہے کہ ہمارا پاکستان آنے والے زمانے ميں ايک بڑے مثبت انقلاب سے دو چار ہوگا جس کے نتيجے ميں ہماري زندگي کے تمام شعبو ں مں انتہائي اہميت کي حامل تبديلياں آئيں گي۔ سلطاني و ملائي و پيري کا خاتمہ ہوگا۔ جاگيرداري نظام سسک سسک کر مرجائے گا۔ اسلامي اصولوں کي روشني ميں ہر فرد بشر کو انصاف ملے گا۔ اس کي زندگي کي تمام ضرورتيں پوري ہوں گي ۔ اور موجود زمانے کي تمام آسائشيں بھي اسے ميسر آئيں گي اور اس کے ساتھ ساتھ ہم انشاء اللہ ايک کمپرومائز کے ساتھ ہي سہي مگر اپني قدريں بھي برقرار رکھيں گے۔ چنانچہ آنے والے دنوں ميں پاکستاني آسائشوں کي تلاش ميں دنيا کے قدروں اور اپني آنے والي نسلوںکے دين ايمان اور کلچر کے تحفظ کے لئے پريشان ہونا نہيں پڑے گا۔ بلکہ جس طرح يورپين سياح ہمارے ملک ميں آتے ہيں اسي طرح ہمارے پاکستاني بطور سياح امريکہ اور يوپ کے ملکوں ميں گھوما کريں گے۔ مگر انہيں يہاں اس اپنائيت کا احساس نہيں ہوگا جو ان دنوں اپنے ڈھيرسارے لوگوں کي پر جوش اور بے پاياں محبت سے ہوتا ہے۔ يہاں سے نکلنے والے اردو کے اخبارات بند ہو چکے ہوں گے شعري محفليں اجڑ چکي ہوں گياور خاکم بدہن بہت سي مسجديں کلب ميں تبديل ہوں جائيں گي۔ يہاں بزرگ نسل کے جن لوگوں سے ملاقات ہوگي وہ اپنے گھروں ميں خاندان کے بزرگ کي حيثيت سے نہيں اولڈ پيپلز ہوم ميں اپني زندگي کے بقيہ دن گزار رہے ہوں گے جہاں انہيں اپنے بيٹے کي طرف سے عيد يا خدانخواستہ کرسمن کے موقع پر تسيتي کارڈ موصول ہوگا۔ پچاس سال بعد کے جن انديشوں کا ميں نے ذکر کيا ہے برطانيہ ميں اسلام اور پاکستان کے لئے بے پناہ کام کرنے والے اداروں کے سرگرم رکن ميري اس کھينچي ہوئي تصوير سے متفق نہيں ہوں گے ۔ کيونکہ ان کے خيال ميں يورپ کا آئندہ مذہب اسلام ہے مگر ميں ان سے متفق نہيں ہوں ۔ آپ يورپ اور امريکہ ميں پلنے والي زيادہ سے زيدہ ايک نسل کو اپنے قومي اور ملي دھارے کے ساتھ وابستہ رکھ سکتے ہيں اس سے اگلي نسل نے منشيات چھوڑ کر اپنے قومي دھارے کے ساتھ وابستہ ہونا ہي ہونا ہے ۔
 
برمنگھم براستہ آکسفورڈ

ہميں تواپنے ماجھے گامے اچھے لگتے ہيں

يہي وہ ڈرائونا خواب تھا جس ١٩٨٧ء ميں امريکہ کے تفصيلي دورے سے واپسي پر مجھ سے ايک غزل لکھوائي تھي۔ ميں نے يہ غزل برمنگھم کے اس مشاعرے مين بھي پڑھي ۔

گھر کو جانے والے رستے اچھے لگتے ھيں جيسے دل کو درد پرانے اچھے لگتے ہيں پھول نگر ميں رہنے والوں آکر ديکھو تو اپنے گھر کے کانٹے کتنے اچھے لگتے ہيں تم جو نہيں ہو راتيں لمبي ہوتيں ہيں آ بھي جائو ساتھ تمہارے اچھے لگتے ہيں آبھي جائو ماں نے ابھي تک کھانا بھي نہيں کھايا آ بھي جائو ماں کو بيٹے اچھے لگتے ہيں وليم ،پيٹر، ڈکسن تھامس ،ھيري سےکيا لين ہميں تو اپنے ماجھے گامے اچھے لگتے ہيں

بعد مں يہي غزل ميں نے مانچسٹر ، برمنگھم ، بريڈ فورڈ ، گلاسگو ، لندن ، کوپن بيگن اور اوسلو کے مشاعروں مين بھي سنائي۔ اور مجھے پاکستاني سامعين کي بے پناہ تحسين سے لگا کہ يہ ان کے دل کي آواز ہے مگر ميں جانتا ہوں کہ اس دل کي آواز پر لبيک کہنے ميں کس قدر دشوارياں ہيں کيونکہ ١٩٧٠ء ميں امريکہ کے گرين کارڈ اور اس ے وابستہ دشواريوں کا ذاتي طور پر اندازہ ہو چکا ہے ۔ بہر حال سنا ہے خوابوں کي تعبير الٹي ہوتي ہے ۔ ميري دعا ہے کہ اوپر کي سطروں ميں جو ڈرائونا خواب ميں نے آپ کو سنايا ہے اس کي تعبير بھي الٹر نکلے۔
 
برمنگھم براستہ آکسفورڈ

دوستوں کے درميان
مشارے کے اختتام پر خواتين نے ابرار ترمزي کو گھير ليا۔ مجھے اندازہ نہيں تھا ابراز ترمزي خواتين ميں اس قدر مقبول ہے ميں نے طارق طور سے کہا۔ مجھے خود اندازہ نہيں تھا۔ طارق طور نے جواب ديا۔ البتہ مشاعے کے دوران اس وقت کچھ احساس ضرور ہوا جب ميں نے خواتين کو ہر پانچ منٹ بعد ابرار ترمذي کو مجاطب کرتے ديکھا ۔ وہ ابرار سے کيا کہتي تھي ؟ ميں نے پوچھا کچھ نہين طارق نے جواب ديا۔ بس يھي کيتي تھيں کہ آپ مہرباني کر کے خاموشي سے نہيں بيٹھ سکتے ؟ طارق سے گفتگو کے دوران اچانک نطر ايک انتہائي مانوس چھرے پر گئي۔ ہيں يہ تو اپنے پروفيسر ايم اے ملک ہيں۔ پاکستان کے ممتاز دست شناس جن کي بعض پيش گوئياں حيرت انگيز بلکہ ناقابل يقين حد تک درست ثابت ہو چکي ہيں۔ ملک شاحب آپ کہا؟ ميں نے ان سے بھر پور معائقہ کرتے ہوئے پوچھا۔ ميں تو دو ماہ سے برطانيہ ميں ہوں۔ آيا تو چند دنوں کيلئے تھا مگر يہاں احاب کي محبت نے پائوں ميں زنجير ڈالي ہوئي ہے۔ اتنے ميں پاکستاني دوستوں کا ھجوم اکٹھا ہو گيا تھا۔ ميں ان سے ملنے کا تمنائي تھا ور وہ مجھ سے ملاقات کے خواہاں تھے ان ميں داور توفيق بھي تھے۔ انجمن ترقي اردو بمرنگھم کے جنرل سيکريٹري ان ميں ايک عجيب طرح کي دوستانہ خوشبوں تھي۔ جب پاکستان جائيں تو شعيب نظامي اور عارف نظامي کو ميرا سلام کھيں شعيب کے ساتھ ميري دوستي بہت پراني ہے۔ يعني داور توفيق کے ساتھ ايک مشترکہ محبت کا رشتہ بھي نکل آيا۔ لمبے تڑنگے عطا جالندھري سے بھي جو قادر الکلام شاعر ہيں مشاعرے کے اختتام پر دوستوں کے اس ھجوم ہي مين ملاقات ہوئي۔ برطانيہ کے اس استاد شاعر سے گزشتہ برس بھي غالبا بريڈفورد ميں ملاقات ہوئي تھي۔ انہوں نے متعدد شعرائ کے ذوق سخن کي آبياري کي ہے۔ ڈاکٹر سعيد اختر دراني اپني خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ اپنے بازو ميرے لئے واکئے کھڑے تھے ۔ ان کا شمار برطانيہ مين مقيم پاکستان کے ممتاز ترين شعراء ميں ہوتا ہے ۔ اور اب کچھ عرصے سے وہ ماہر اقباليات کے طور پر بھي مشہور ہو چکے ہين۔ ڈاکٹر صاحب ماڈل ٹائون لاہور کے حواے سے ميرے گرائيں ہيں ۔ ان کے والد ماجد اور مريے واجد ماجد دوستي اور محبت کے انتائي مضبوط بندھن ميں بندھے ہوئے تھے۔ ابھي احباب سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاري تھا کہ حسن ميرا ہاتھ پکڑ کر ايک طرف لے گيا اور مجھے ايک لم سلمے شخص کے سامنے کھڑا کر ديا۔ جس کے سر کے بال اٹينشن فوجيوں کي رح کھڑے تھے۔ يہ جاگير سنکھ چوھان ہے۔ صحافي ہے۔ شاعر ہے ميرا يار ہے۔ حسن نے تعارف کرايا۔ جاگير سنکھ چوہان نہين جے ايس چوہان کہو ميں کسي مذبب و زبت ميں يقين نہين رکھتا ، جاگير سنگھ سے مذہبي وابستگي کي بو آتي ہے عجيب منہ پھٹ آدمي ہے۔ ميں نے سوچا ۔ميرا يہ اندازہ بعد ميں بھي درست ثابت ہوا کيونکہ اس کھردرے سے شخص سے مسلسل پانچ روز تک پے درپے ملاقاتيں رھيں۔ جو حامل قيام برمنگھم تھيں۔ اور ان سے ملو حسن رضوي نے برابر ميں کھڑي ايک خاتون سے تعارف کراتے ہوئے کہا يہ ياسمين حبيب ہيں ،پاکستان ميں ان کے خاندان سے ہمارے ديرينہ تعلقات ہيں۔ مشاعرے ميں ان کي غزل سے تمہيں اندازہ ہو گيا ہو گا کہ يہ کتني خوبصورت شاعرہ ہيں۔ يہ اندازہ تو مجھے واقعي ہو گيا تھا ۔مگر حسن رضوي کے بارے ميں مجھے گمان نہيں تھا کہ وہ مشاعروں ہي ميں نہيں تعارف کرانے کے ضمن ميں بھي تقديم و تاخير کي نزاکتوں سے بے خبر ہے۔
 
جون کے فليٹ پر

مشاعرہ گاہ ميں پاکستاني احباب سے گپ شپ کے بعد ايک اسي طرح کا "سيشن " صفي حسن کے گھر پر ہوا۔ اس کے بعد برمنگھم کے ايک ريستوران ميں شعرائ اور ديگر معززين شہر کے اعزاز ميں ايک ڈنر کا اہتمام کيا گيا تھا۔ مگر اس سے پہلے شعراء کو ان کے ٹہکانوں پر پہنچانا ضروري تھا بلکہ ٹھکانے لگانا ضروري تھا۔ برمنگھم يونيورسٹي ہي کے ايک خوبصورت ترين گوشے ميں ايک امريکي مسٹر جون جو مکرم سيد کا دوست ہے کا زندگي کي تمام سہولتوں بلکہ آسائشوں سے مزين نہايت نفيس فليٹ ہمارا منتظر تھا ۔ جان شہر سےباہر تھا۔ اور خالد ، حسن ، طارق اور ميں فليٹ کے اندر تھے۔ اس فليٹ ميں ہم نے جو پانچ روز بسر کئے وہ شايد ہماري زندگي کے ناقابل فراموش دن ہيں۔امجد چھڑوں کي اس منڈلي سے محروم رہا کيونکہ ہماري فردوس بھابي اس کے ساتھ تھيں ۔ چانچہ يہ مياں بيوي ڈاکٹر صفي حسن کے گھر خوشگوار ازدواجي زندگي بسر کرتے رہے۔ صفي حسن پانچ روز کےلئے "اناج " کا ذخيرہ چھوڑ گيا تھا۔ کيونکہ چھٹے دن ہميں يہاں سے بريڈ فورڈ کے مشاعرے ميں شرکت کے لئے روانہ ہونا تھا۔ لندن سے ساتھ آئے ہوئے دوستوں کو ہم نے صفي حسن کے گھر سے ہي الوداع کہہ ديا تھا انہيں وہاں سے ڈنر ميں جانا تھا۔ اور ہمارا ارادہ ڈنر ميں نہ جانے کا تھا۔

چار کا ٹولہ
اپنے اپنے کمروں پر "قبضہ" مکمل کرنے کے بعد يہ "چار کا ٹولہ" ٹي وي لائونج ميں جمع ہوا۔ اب کيا کيا جائے؟ طارق طور نے سوال کيا۔ صبر کيا جائے ميں نے جواب ديا۔ ويسے في الحال آپ ميں سے چائے کون بنائے گا؟ آپ طارق نے مسرت سے اچھل کر يوں کہا جيسے مجھے کوئي اعزاز ديا جا رہا ہو ۔ منظور ہے ۔ ميں نے کہا مگر اسے پي کر کون دکھائے گا؟ ايک لمحہ "محاذ" پر خاموشي رہي۔ تم بنائوں تو سہي ۔ کچھ دير بعد حسن کي آواز آئي۔ کوڑا گھٹ کر ليں گے ۔ ميں نے باورچي خانے ميں چائے تيار کرتے ہوئے آواز لگائي ۔بھوک لگ رھي ہے کھانا پکانے کي تياري بھي شروع کر دينا چائيے۔ بالکل ٹھيک ہے پنچوں نے ميري رائے پر صاد کيا۔ تھوڑي دير بعد حسن رضوي پياز چھيل رہا تھا۔ اور اس کي آنکھوں سے آنسو جاري تھے ۔ طارق طور مسٹر جان کے برتنوں کو دھو کر مشرف بہ اسلام کرنے ميں مشغول تھا۔ کچھ دير بعد چائے تيار ہو گئي۔ ميں نے ٹي وي لائونج ميں برتن ميز پر سجائے اور آواز دي ۔ چائے تيار ہے نوش فرمائيے۔ ابھي طارق طور نے ايک گھونٹ ليا تھا کہ اسے اچھو آگيا۔ قاسمي صاحب يہ آپ نے کيا چيز بنائي ہے؟ طارق نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔ کيو کيا ہوا؟ آپ پي کر تو ديکھيں۔ ميں نے کپ منہ کو لگايا تو يوں لگا جيسے کونين کي دو گوليا منہ ميں آگئي ہوں۔ لگتا ہے تم نے چائے کي پتي کي بجائے کوئي اور چيز ڈال دي ہے ايک گھونٹ حسن نے بھي چکھ ليا تھا اور اب وہ خيال آرائي کر رہا تھا۔ ميں باورچي خانے ميں گيا اور چائے کي پتي کا ڈبہ اٹھا لايا ۔ طارق نے ڈھکنا کھولا اور پريشان سا ہو گيا۔ آپ نے يہي چيز ڈالي تھي؟ ہاں۔ يہ چائے نہيں ہے ۔ طارق نے کہا ۔سونگھ کر ديکھيں ۔ ميں سونگھا تو ہرمل جيسي کوئي چيز تھي۔ يہ اگر چائے نہيں تو پھر کيا ہے؟ ميں نے طارق سے پوچھا۔ يہ تو مجھے بھي پتا نہيں۔ اتنے ميں کمرے ميں کچھ دھواں سا پھيل گيا۔ ڈبہ بند کريں حسن نے چيخ کر کہا ڈبے ميں سے جن نکل رہا ہے۔ حسن کے اس "مخول" پر کسي نے توجہ نہ دي مگر تھوڑي دير بعد کسي چيز کے جلنے کي بو اور دھواں کمرے ميں پوري طرح پھيل گيا۔ طارق طور نے باورچي خانے ميں چھلانگ لگا دي اور پھر "شوں" کي آواز آئي جيسے کسي گرم برتن ميں ٹھنڈا پاني پھينکا گيا ہو۔ خيريت تو تھي۔ طارق سے اس کي باورچي خانے سے بحفاظت واپسي پر ميں نے پوچھا۔ بس يہي سمجھيں۔ طارق نے کہا۔ آپ نے چائے کيتلي ميں ڈال دي تھي۔ اور چائے والا خالي برتن چولھے پر چھوڑ آئے تھے ۔ بس اس برتن کا پيندھ جل گيا ہے۔ اب چائے بنانے کے لئے کل کوئي برتن خريدنا پڑے گا۔ بلکہ چائے بھي خريدنا ہوگي۔ جو چيز ہمارے سامنے دھري ہے ،اسے چائے تو تسليم نہيں کيا جا سکتا۔ حسن نے کہا۔
 
جون کے فليٹ پر

قہقہے لگاتا ہوا جن

يہ خالد کہاں چلا گيا ہے؟ اچانک مجھے ياد آيا کہ وہ تو گذشتہ ڈيڑہ گھنٹے سے غائب ہے۔ لاحول ولا قوہ طارق نے کہا ، تھکن سے اتنا برا حال کيا ہوا ہے کہ ہميں اپنے ايک ساتھي کي عدم موجودگي کا احساس ہي نہيں ہوا۔ حسن نے آواز دي خالد ، خالد کوئي جواب نہيں آيا۔ يار يہ شخص کہا چلا گيا ميں نے اٹھ کر اسے کمروں ميں تلاش کيا مگر وہ وہاں موجود نہيں تھا۔ اس کي من پسند ايک ہي جگہ رہ گئي ہے۔ميں اسے وہاں ديکھتا ہوں حسن نے کہا اور اٹھ کر باتھ روم کا دروازہ "ناک" کيا خالد: خالد نے پہلي دستک پر ہي دروازہ کھول ديا اور اس کے ساتھ ہي سگريٹ کے دھوئيں کے ايک گھرے بادل کي معيت ميں قہقہے لگاتا ہوا جن بر آمد ہوا۔ موصوف کے چہرے پر شانتي ہي شانتي تھي۔ يہ تم ڈيڑھ گھنٹے سے باتھ روم ميں کيا کر رہے تھے ۔سگريٹ پي رہے تھے؟ حسن نے پوچھا۔ سگريٹ ہي پي رہا تھا۔ خالد نے جواب ديا ۔تمہاري طرح باتھ روم ميں بيٹھ کر شاعري تو نہيں کرتا۔ حسن خاموش ہوگيا۔ يہ خاموش مجھے نيم رضامندي لگي۔ ميں اندر بيٹھا تمہاري باتيں سن رہا تھا۔ خالد نے اپنا بھر پور مسلسل قسم کا قہقہ لگايا۔ عطا نے چائے بنا کر دي ہے۔ برتن جلا ديا ہے۔ طارق نے کھانا پکايا ہے ۔ کہاں ہے کھانا سخت بھوک لگي ہے۔ اور پھر خالد دونوں ہاتھوں سے پتلون تھامے باورچي خانے ميں داخل ہوگيا۔ طارق نے کھانا اچھا بنايا تھا ۔ کھانا کھانے کے بعد ہم اپنے کمروں ميں جا کر سو گئے ۔ چاروں طرف سے گھنے درختوں اور خوش رنگ پھولوں والے باغات ميں گھرے اس فليٹ کي کھڑکي ميں سے ميں نے صبح طلوع ہوتے ديکھي ۔ برمنگھم کي يہ صبح صبح بنارس سے کم خوبصورت نہ تھي۔برمنگھم يونيورسٹي ميں جون کا فليٹ پانچ روز تک متنوع قسم کي سرگرميوں کا مرکز رہا۔ جے ايس چوہان جتنا کھردرا انسان لگتا تھا۔ اندر سے اتنا ہي ملائم نکلا تہم ميرے اس کے خيالات ميں کہيں بھي ہم آہنگي پيدا نہ ہو سکي ليکن انساني تعلقات ميں يہ چيز اس وقت رکاوٹ نہيں بنتي جب ايک دوسرے کے نظريات کا احترام کيا جائے اور دلا آزاري کي کوشش نہ کي جائے چنانچہ چوہان سے دوستي ہو گئي۔ وہ دن ميں ايک دو دفعہ ضرور ہماري طرف آتا کبھي کبھي اکيلا اور اکثر اپنے کسي دوست کے ساتھ۔ يہ دوست کا لفظ ميں نے انورڈڈ کا ماز ميں اس لئے لکھا ہے کہ چوہان اگرچہ بہت اچھا شاعر اور دانشور ہے مگر علاقے ميں اس کي دھشت بطور صحافي ہے چنانچہ جنھيں وہ دوست قرار ديتا تھا وہ دراصل اس کے مفتوحہ علاقے ہوتے تھے ۔اس کے ان دوستوں ميں بھگووان داس ، بدہم اور مسٹر گابھا بطور خاص شامل تھے ۔ يہ وہ لوگ تھے جن بيچاروں کا ادب سے کوئي تعلق نہيں تھا بلکہ پکے کاروباري قسم کے لوگ تھے مگر چوہان کے تابع تھے۔ چوہان کے دوستوں ميں زيادہ تر ہندو تھے اور ايک دو سکھ بھي تھے۔ چوہان آبادي طور پر سکھ ہونے کے باوجود جب اپنے ان ہندو او سکھ "دوستوں" کو ان کے عقائد اور دوسرے معاملات کے ضمن ميں لتاڑنے پر ٹا تو وہ بہت چين بہ چين ہوتے مگر نجانے ان کي کونسي دکھتي رگ اس ے ہاتھ ميں تھي کہ تھوڑي ير ميں وہ بھيگي بلي بن جاتے ۔ بہر حال چوہان اور اس کے دوستوں کي وجہ سے ہمارا فليٹ بہت آباد رہا۔ خصوصا ننھي منھي داڑھي والا بھگوان داس اور بدھمن بہت دلچسپ کريکٹر تھا۔ شراب نوشي کا بے حد رسيا اور دھيمے دھيمے لھجے ميں بات کرنے والا ۔ اپنے لہجے سے بطاہر لگتا تھا کہ چوہان کي گاليا ں اور جھڑکياں بہت تحمل سے برداشت کر رہا ہے اور يہ درست بھي تھا مگر اپنے دھيمے دھيمے لھجے کے ساتھ وہ سب کچھ کر کے اٹھتا جو وہ کرنا چاھتا ۔ چوہان اگر کسي سے زچ ہوتا تو وہ يہي بھگوان داس بدھن تھا۔ چنانچہ وہ روزانہ اپنے گھر پر "جلسہ" کرتا جس ميں اس کے کاروباري دوست شريک ہوتے ۔ جام کو وہ "گلاسي" کہتا پہلے روز اس نے ہميں بھي اپنے ہاں آنے کي دعوت دي۔ اس کے الفاظ کچھ يوں تھے۔ آج ميرے گھر ميں جلسہ ہے آپ بھي تشريف لائيے۔ ہم نے سوچا کہ پاکستان ميں جلسے بہت سنے ہيں کيوں نہ ديکھا جائے کہ يورپ کے جلسے کيسے ہوتے ہيں۔ مگر بيشتر اس کے کہ ہم حامي بھرتے اس نے اپنا فقرہ مکمل کرتے ہوئے کہا بيٹھ کر ايک گلاسي پيئيں گے اور رانجھا راضي کريں گے ۔ ہم سب صابن کي جھاگ کي طرح بيٹھ گئے کہ رانجھا راضي کرنے کا يہ نسخہ ہم ميں سے کسي کو بھي پسند نہيں تھا۔ برمنگھم ميں چوہان کے بعد دوسرا شخص جس کے ساتھ دوستي ہوئي وہ آدم چغتائي تھا۔ خوش گلو، خوش کلام اور خوش مزاج ، اس نے پانچ روز تک اپني کار ہمارے لئے وقف رکھي اور ہمارے مشاہدے کے لئے ہميں برمنگھم کے وہ گوشے بھي دکھائے جو ديکھنے ميں بکوگوشے سے کم خوش منطر نہ تھے مگر ذائقے ميں نيم سے زيادہ کڑوے تھے ۔ ميرا جي چاھتا ہے کہ برمنگھم ميں اپنے قيام کو بيانہي انداز ميں تحرير کرنے کيبجائے اس کي کچھ جھلکيوں کي ڈرامائي تشکيل آپ کے لئے کروں۔ سوچند جھلکياں ملاحظہ فرمائيں۔
شيکسپيئر اور لگڑ دادا حضور
برمنگھم سے تقريبا ٣٥ ميل کے فاصلے پر شيکسپيئر کا گائوں ہے ۔ شيکسپيئر يہاں سے تلاش روزگار میں کسي دوسرے شہر ھجرت کر گيا تھا۔ اب شيکسپيئر کي وجہ سے پورے گائوں کو سياحو ں کي بدولت روزگار ملا ہوا ہے ۔ گائوں کے بيچ ميں ايک نہر ہے جو ايک جھيل گرتي ہے۔ شيکسپيرئ ميوزيم جہاں شيپيئر کےزمانے کے ملبوسات ، تصاوير ہتھيار اور ديگر نوادرات رکھے ہيں ۔ ميں ، حسن ، طارق طور، آدم چغتائي اور چوہان اس عظيم ڈرامہ نگار اور شاعر کي ذات سے وابستہ چيذوں اور گائوں کے در و ديوار کو محبت اور عقيدت سے ديکھ رہے ہيں ۔ دنيا بھر سے آئے ہوئے سينکڑوں سياح بھي زيارت ميں مشغول ہيں۔ پارک ميں شيکسپيئر کا بہت بڑا مسجمہ ہے لوگ ہياں تصويريں اتروا رہے ہيں ۔ اس مجسمے کے ساتھ ہي ليڈي ميکتھ کا مجسمہ بھي ہے ۔ حسن ليڈي ميکتھ کے ساتھ تصويريں اترواتا ہے۔ میں نے تمہاري تصوير تو اتار دي ہے ليکن اس کي کاپي تمہيں نہيں ملے گي۔ حسن کيوں؟ ميں مجھے ڈر ہے کہ تم اس تصوير کے ذريعے ليڈي ميکتھ کے ساتپ اپنا سکينڈل مشہور کرنے کي کوشش کرو گے۔ پارک سے نکلتے ہوئے ايک بوڑھا انگريز ہمارا راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے کہتا ہے تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟ پاکستان سے ۔ کيوں آئے ہو؟ اس وقت تو شيکسپيئر کو خراج عقيدت پيش کرنے آئے ہيں۔ پوپلے منہ سے بھر پور قہقہ لگاتے ہوئے تمہيں پتہ ہے يہ شخص خود کچھ بھي نہيں تھا؟ واقعي بزرگو؟ ھاں اس کے پيچھے سرسٹفين ليور تھےل ميں وہ کون تھے قبلہ گاھي؟ انگريز وہ ميرے آبائو اجدار ميں سے تھے اور خود بہت بڑے اديب ہونے کے علاوہ اديبوں کے سر پرست تھے۔ شيکسپيئر ان کا خاص مصاحب تھا۔ لگڑ دادا حضور يعني سر سٹيفن ليور اس پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ ايک روز وہ اس اعتماد کا ناجائز فائندہ اٹھاتے ہوئے ان کا سارا تخليقي کام چرا کر لے گيا اور گائوں سے بھاگ گيا۔ تم لوگ سمجھتے ہو کہ اس نے روزگار کي تلاش ميں گائوں چھوڑا تھا؟ زندگي بھر کے لئے روزگار تو وہ ساتھ لے کر گيا تھا وہ چور شاعر تھا۔ ميں نے کہا مگر بابا جي تاريخ ميں تو اس واقعے کا کيں ذکر نہيں؟ انگريز اسي لئے تو تاريخ پر لوگوں کا اعتماد اٹھ گيا ہے ۔ مگر اب تاريخ ميں اس کا ذکر ضرور آئے گا۔ ميں گزشتہ نصف صدي سے اسي جگہ بيٹھا ہوں اور يہاں آنے والے سياحوں کو حقيقت حال بتا تا ہوں شايد ميرے لگڑ دادا حضور کے ساتھ نا انصافي کا ازالہ ہو سکے۔ اچھا اب تم جائو ميں تو اس وليم شيکسپيئر کے بچے سے نپٹ کر ہي يہاں سے جائوں گا۔
 
جون کے فليٹ پر

ٹنا خوان تقديس مغرب

رات کے تقريبا نو بجے کا وقت ہم گاڑي پر برمنگھم کي ايک سڑک کے کنارے پارک کرتےہيں۔ رات کے وقت يہ سڑک نيم آباد ہے۔ ہم رنگ برنگے سوکھے پتوں سے آتے ہوئے فٹ پاتھ پر چل رھے ہيں۔ خالد ابھي تک تو کچھ نظر نہيں آيا۔ آدم ابھي نظر آئے گا حوصلہ رکھيں۔ اتنےميں پوليس کي ايک گاڑي پاس سے گزري ہے۔ حسن چھاپہ مگر گاڑي آگے نکل جاتي ہے۔ آدم جيب پاکٹ سے ہوشيار دشمن سامنے کھڑا ہے۔ طارق نے کہا کہا؟ آدم وہ درختوں کے جھرمٹ ميں۔ درختوں کے جھرمٹ ميں چار خوبصورت ميميں کھڑي ہيں تيرو تفنگ کمانيں کھينچي ہوئي ہم ان کے برابر سے گزرتے ہيں۔ بزنس لو "کاروباري محبت" ايک مترنم آواز آتي ہے۔ بزنس لو دوسري لو۔ بزنس لو تيسري آواز،۔ بزنس لو چوتھي آواز بزنس لو پانچويں آواز حسن کي ہے۔ خالد بھر پور نظروں سے حسن کا جائزہ ليتا ہے۔ ہم ايک لمحے کےلئے رک جاتے ہيں۔ وہ چاروں دو شيزائيں دوڑتي ہوئي ہماري طرف آتي ہيں۔ صرف بيس پائونڈ پر ھيڈ ، پيکج ڈيل ميں خصوصي رعايت ۔ ايسے لگتا ہے جيسے عورت کي عصمت نہيں کار خانے ميں تيار ہونے والي پلاسٹک کي مصنوعات بيچي جا رہي ہيں۔ ميں۔۔بازار سے گزرے ہيں خريدار نہيں ہيں۔ اور پھر ہم تيز تيز چلتے ہوئے واپس اپني کار کي طرف بڑھتے ہيں ۔ ميموں کي فحش گاليا ہمارا پيچھا کر رہي ہيں ۔ ہم نے ان کي "عزت نفس" کو جو ٹھيس پہنچائي ہے اتنے ميں پوليس کي ايک وين ہم سے ذرا فاصلے پر رکتي ہے ۔ حسن کا رنگ زرد ہو جاتا ہے وہ دوڑ کر کار ميں بيٹھنے کے لئے کار کا دروازہ کھولنے کي کوشش کرتا ہے مگر دروازہ اندر سے لاک ہے ۔ وين ميں سے پوليس والے تين چار لڑکيوں کو دھکا دے کر باہر سڑک پر پھينک ديتے ہيں۔ ان کے ساتھ ايک نوجوان بھي ہے جس کي شکل پر لعنت برس رھي ہے ۔ يہ ان لڑکيوں کو دلال ہے۔ پوليس کي وين آگے نکل جاتي ہے اور يہ لڑکياں ور ان کا دلال خوشي سے چيختے ہوئے درختوں کے جھرمٹ کي طرف بڑھتے ہيں جہاں پہلے سے کھڑي لڑکياں پوليس کي وين ديکھ کر ادھر ادھر ہو گئي تھيں اور اب دوبارہ ايک جگہ کھڑي تھيں۔ميں نے کہا يہ کيا تماشا ہے؟ آدم نورا کشتي ہے۔ طارق وہ کيسے؟ آدم طوائفوں پر قانوني طور پر پابندي ہے مگر پوليس کو پتي ملتي ہے وہ لوگوں کي آنکھوں ميں دھول جھونکنے کے لئے کبھي کبھار پکڑ کر لے جاتے ہيں اور پھر ثبوت نہ ہونے کي وجہ سے اسي طرح سڑک پر اتار جاتے ہيں جس طرح ابھي اتار کر گئے ہيں يہاں انہي چند شعبو ں سے پوليس مال بناتي ہے۔
ميزبان اور مہمان
برمنگھم سے تقريبا پچيس کلو ميٹر دور وولر دہمپتن کے قصبے سے اصغر نسيم چوہدري کا محل نما گھر يہاں ہم مہمانوں کے اعزاز ميں شعري نشست ہے جس کي صدارت کے لئے عاشور کاظمي کو لندن سے مدعوں کيا گيا ہے۔باقر نقوي بھي اس مشاعرے ميں شرکت کے لئے آئے ہيں۔ شعري نشست کے بعد کوٹھي کے سوئمنگ پول پر عشائيے کا اھتمام ہے ۔ ايک ہي شہر ميں رہتے ہوئے امجد سے کئي دنوں بعد ملاقات ہوتي ہے کيونکہ وہ بھابي کي ہماہي کي وجہ سے ہمارے فليت سے کافي دور کسي فيملي کے ساتھ رہ رہا ہے ۔ خالد احمد پليٹ ہاتھ ميں پکڑے ميزبان کو ڈھونڈ رہا ہے بالاآخر ميزبان نسيم چوہدري اس کے ہاتھ لگ جاتے ہيں۔ خالد :آپ نے ابھي جو غزل پڑھي وہ بہت اچھي تھي۔ نسيم بہت بہت شکريہ۔ خالد : ميں نے آپ سے يہ غزل بيس برس قبل حلقہ ارباب ذوق لاھور کے اجلاس ميں بھي سني تھي ۔ نسيم :حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس ميں؟ خالد جي جي حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس ميں ۔ نسيم : ليکن ميں تو کبھي حلقے کے اجلاس ميں گيا ہي نہيں۔ خالد : آپ بھول رھے ہيں آپ نے يہ غزل وہاں پڑھي تھي۔ نسيم نہيں برادر ميں نے کبھي حلقے کي شکل نہيں ديکھي اور ويسے بھي ميري يہ غزل بيس برس پراني نہيں ہے۔ خالد تو صحب ميں جھوٹ بول رہا ہوں۔ نسيم توبہ توبہ جناب آپ يہ کا کہہ رہے ہيں ۔ آپ کو صرف غلط فہمي ہوئي ہے۔ خالد تو گويا آپ نے يہ غزل حلقے ميں نہيں پڑھي ہے۔ نسيم :نہيں۔ خالد مگر ميں نے يہ غزل بيس برس قبل حلقے ميں سني ہے آپ نے نہيں تو کسي اور نے پڑھي ہوگي۔ يہ ستم ظريف مہمان پاني سے بھرے ہوئے تالاب کے بالکل کنارے پر کھرا ہے ۔ امجد اس کا ہاتھ پکڑ کر کنارے سے دور اور اہتياطا ميزبان کي رينج سے پرے کر ديتا ہے۔
 
جون کے فليٹ پر
کب ڈوبے گا سرمايہ پرستي کا سفينہ
جون کا فليٹ ۔ چوہان کےس اتھ گپ سب ہو رہي ہے ۔ وہ مشرقي اور مگربي پنجاب کے باسيوں کو پبجابي ہونے کے ناتے ايک قوم قرار دے رہا ہے ار ہم اس کے دلائل کا جواب دلائل سے دے رہے ہيں ۔ فليٹ کي گہنٹي بجتي ہے ۔ ميں نے دروازے کے پاس جا رک انتر کام آن کرتا ہوں اور پوچھتتا ہوں کون ہے ؟ آواز آئي ميں بدھن ہوں دروازہ کھوليں ۔ ميں اوپر سے ايک بٹن دباتا ہوں جس سے نيچے ڈيوڑھي ميں مين گيٹ کھل جاتا ہے ۔ ہمارا فليٹ تيسري منزل پر ہے ۔ بدھن سيڑھياں چڑھنے کے بعد لائونج ميں داخل ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ دو لڑکياں بھي ہيں جو نہ سفيد فام ہيں نہ سياہ فام گھري سونوي رنگت ہے تيکھے نين نقش ہيں۔ چوہان ۔ اوئے يہ تم کن کو پکڑ لائے ہو؟ ہدھن پہلے مري خير خيريت پوچھو۔ پھر ان سے ہاتھ واتھ ملائو يہ کياتم نے آتے ہي پوليس کي طرح تفتيش شروع کر دي ہے لڑکياں سب سے ہاتھ ملاتي ہيں اور پھر صوفے پر بيٹھ جاتي ہيں۔ بدھن انگريزي ميں تعارف کراتا ہے۔ بدھن شوخ، چنچل اور خوبصورت خدوخال والي لڑکي کي طرف اشارہ کر کے يہ نکي ہے ۔ چوہان مجھے تو يہ دوسري سے وڈي لگتي ہے تم نکي کہہ رہے ہو؟ بدھن يار نکي اس کا نام ہے اور دوسري اس کي بہن مکي ہے ۔ پتہ چلتا ہے يہ دونوں کلب ميں اسٹرپيٹريز ڈانسر ہيں اور بدھن کي دوست ہيں ان کا آبائي وطن جميکا ہے ، نکي بے حد خوش طبيع اور زندگي سے بھر پور ہے لگتا ہے اس کے جسم کے خيلئے تک تھر رھے ہيں۔ کچھ دير بعد کمرے ميں خاموشي طاري ہو جاتي ہے کہ گفتگو کے لئے مزيد انگريزي درکا ر ہے۔ ميں اپنے قيام امريکہ کے زمانئے کي پس انداز کي ہوئي انگزيري کو بروئے کار لاتا ہو اور اس سے انٹرويو کرتا ہوں جس کا نچوڑ يہ ہے کے خالص مادہ پرستي پر مبني اخلاقي قدروں کو بے معني قرار دينے والے مغرب کے گلے سڑے بدبو دار نطام کے ہاتھ ميں انسان کي حيثيت محض ايک کٹھ پتلي کي ہے اور اسے کٹھ پتلي بنانے کے لئے صرف يہ کيا گيا ہے ۔ کہ انسان کي فطري خود غرضي ، ہوس اور لالچ کو کنٹرول کرنے کي بجائے اسے مہميز دے دي جاتي ہے اس اس کي خواہشات کا دائرہ وسيع سے وسيع تر کر ديا جاتا ہے ۔ چنانچہ دنيا ميں پاکستان سميت جہاں جہاں سرمايہ پرستي کا نظام نافذ ہے وہاں وہاں نکي ار مکي نئے کپڑے خريدنے کےلئے پہنے ہوئے کپڑے اتار ديتي ہيں۔ يہي نکي اور مکي اس وقت ہمارے سامنے تھيں۔

مکمل تعاون کي پيشکش
جون کا فليٹ چوہان برطانيہ ميں قائم ايشيائي لوگوں کي ايک سماجي تنظيم کے سربراہ ششي بھوشن جوشي سے ہماري ملاقات کا اہتمام کرتا ہے ۔ جوشي ايک معقول اور پڑھے لکھے شخص لگتےہيں ۔ شکل صورت بھي معقول ہے۔ خالد احمد خوشي صاحب آپ کي تنظيم کيا کرتي ہے؟ جوشي ہم نے ايشيائي شادي شدہ اور غير شادي شدہ خواتين کے لئے پناہ گائيں بنائي ہيں۔ خالد کيا مطلب ؟ جوشي مغرب ميں جو ايشيائي خواتين آباد ہيں۔ ان ميں سے کچھ ايسي بھي ہين جنہو نے يہاں کي تہذيب کا اثر کچھ زيادہ قبول کر ليا ہے خصوصا وہ نسل جو يہاں پيدا ہوئي اور جس نے مغرب کے ماحول ميں پرورش پائي ۔ ان کي ايک تعداد اپنے والدين کے ساتھ رہنے کو تيار نہيں ار بد قسمتي سے ہماري بھارتي خواتين ميں يہ لہر زيادہ ابھر کر سامنے آئي ہے ۔ چنانچہ ايک وقت آتا ہے کہ وہ گھر سے بھاگ جاتي ہيں۔ خالد پھر ؟ جوشي پھر ہم پہلے تو کوشش کرتے ہيں کہ انيين سمجھا بجھا کر ان کے والدين کے پاس بھيج ديں ہم والدين کو بھي معتدل رويہ اپناے کي درخواست کرتے ہيں۔ بعض صورتوں ميں ہم کامياب ہو جاتے ہيں اور بعض صورتوں ميں ناکام۔ ناکام ہونے کي صورت ميں ہم انہيں اپني پناہ گاہ ميں لے آتے ہيں تا کہ وہ زمانے کے تھپڑوں سے محفوظ رہيں۔ طارق طور آپ نے گفتگو کے آغاز ميں بتايا تھا کہ شادي خواتين بھي گھر سے بھاگ جاتي ہيں؟ جوشي جي ہاں ايسي مثاليں بھي سامنے آئي ہيں۔ ان ميں سے کچھ تو اپنے جاہل شوہروں کي مار پيٹ سے تنگ آکر گھر چھوڑتي ہي۔ ان کے شوہر اس حقيقت کو محسوس نہيں کرتے کہ اب وہ ہندوستان ميں ہيں ايک مغربي ملک ميں رہ رہے ہيں۔ ميں نے کہا جوشي صاحب مغربي شوہر بھي اپني بيويوں پر جبر و تشدد اور مار پيٹ کے سلسلے ميں مشرق کے کسي غير مہذب شوہر سے پيچھے نہيں۔ جوشي آپ بالکل صحيح کہتے ہيں مگر مغربي عورت پر ايک وقت آتا ہے کہ شوہر کے تشدد سے بچنے کے لئے عدالت کي طرف رجوع کرتي ہے ۔ جب کہ ہماري عورتيں يہاں کے رستوں سے بھي پوري طرح باخبر نہيں ہيں چنانچہ ان میں سے جو واقعي مظلوم عارتيں ہوتي ہيں ہماري تمظيم ان کي طرف سے مقدمہ لڑتي ہے ۔ ھميں اس ضمن ميں برطانوي حکومت کا تعاون بھي حاصل ہے ۔ طارق تو پھر آپ ايک نيک کام اور کريں ۔جوشي فرمائيں؟ طارق ساري عورتيں ہي نہیں۔ کچھ مر د بھي مظلوم ہوتے ہيں۔ يہ بے چارے اپني بيويوں سے باقاعدہ مار کھاتے ہيں ۔ ايک تنظيم ان مظلوم مردوں کے لئے بھي بنائيں۔ جوشي ہنستے ہوئے آپ کو يہ سن کر خوشي ہوگي کہ اس طرح کي ايک تنظيم برطانيہ ميں پہلے سے موجود ہے ۔ آپ ميں سے کسي دوست کو اگر اس تنظيم کي ضرورت ہو ۔ ميري طرف سے اس سلسلے ميں مکمل تعاون کي پيشکش ہے
 
جون کے فليٹ پر
ففٹي ففٹي
برمنگھم کي جامع مسجد ميں ، ميں اور صفي حسن جوتے اتار کر داخل ہوتے ہيں۔ نماز کي ادائيگي کے بعد نمازيوں کے علاوہ اور بہت سے پاکستاني مرد ، خواتين اور بچے ميں جمع ہيں ۔ خواتين کے لئے عليحدہ گوشہ مخصوص ہے ۔ ايک پاکستاني کي اہليہ انتقال کر گئي ہيں۔ ان کے لئے قرآن خواني کي جا رہي ہے۔ فضا ميں ايک گہري اداسي ہے۔ قرآن خواني کے بعد ميں اور صفي حسن اس پاکستاني دوست سے تعزيت کرتے ہيں ۔ اس وقت ميں برمنگھم کي جامع مسجد ميں نہيں ايک چھوٹے سے پاکستان ميں ہوں۔ شلوار کرتے ميں ملبوس بچے ، سروں پر دوپٹہ اوڑھے ہوئے خواتين روماے سے سروں کو ڈہانپے ہوئے مرد، درود وسلام ، قرآني آيات کي تلاوقت ميں اس وقت مغربي تہذيب کے سمندر ميں واقع ايک جزيرے ميں ہوں مگر تھوڑي دير بعد جب يہ محفل ختم ہوگي اس کے شرکارء کو دوبارہ اس سمندر کے تھپڑوں سے بچائون کي تدابير سوچتا ہوں گي ۔ مسجد سے ملحق ايک اسلامک سنٹر بھي ہے جس ميں بچوں کے لئے ديني تعليم کے اہتمام کے علاوہ تفريحي سرگرميوں کا انتظام بھي موجود ہے اور يوں سنٹر کي ايک حيثيت مسلم کلب کي بھي ہے۔ سنتر کے نوٹس بورڈ پر اردو عربي انگريزي اور فرانسيسي زبان ميں مختلف اعلانات بھي درج ہيں۔ ميں نے پوچھا برمنگھم کے مسلمانوں کا اس سنٹر سے رابطہ کس نوعيت کا ہے؟ صفي حسن نے کہا بہت مضبوط رابطہ ہے ۔ يہ سنٹر صرف پاکستاني مسلمانوں کے لئے نہيں دنيا کے تمام ملکوں کے مسلمان يہاں جمع ہوتے ہيں۔ميں نے پوچھا فرقہ واريت کا کيا حال ہے؟ صفي نے کہا پاکستان اور بھارت سے مختلف فرقوں کے فسادي قسم کے مولوي برطانيہ آکر بتليغ کے نام پر مسلمانوں ميں تفرقہ ڈالنے کي کوشش کرتےہيں ليکن الحمد للہ وہ اپني کوششوں ميں کامياب نہيں ہو سکے۔ ميں نے پوچھا برطانيہ ميں پيدا ہونے اور پرورش پانے والي نئي نسل کن لائنوں پر سوچتي ہے؟ صفي ان ميں سے بيشتر کي جڑین اپني ثقافت اور مذہب ميں خاصي گہري ہيں مگر صرف اس صورت ميں اگر ان کے والدين کو اس معاملے سے دلچسپي ہے ۔تمہارے لئے يہ بات باعث حيرت ہوگي کہ يہاں جو مسلمان بچہ مذہب کي طرف راغب ہوتا ہے وہ پاکستانيوں کے بر عکس اپنے کردار ميں انتہائي مظبوط ہوتا ہے ۔ وہ جھوٹ نہيں بولتا۔ دھوکا نہيں کرتا۔ دوغلے پن سے نفرت کرتا ہے ار ارد گرد کے ماحول کے شديد دبائو کے باوجود ايک سچے مسلمان کي تصوير نظر آتا ہے ۔ ميں : کيا يہ صورت ہال مکمل تصوير ہے؟ صفي بالکل نہيں ، اس معاشرے ميں نئي مسلمان نسل کے لئے شديد خطرات پوشيدہ ہيں۔ ممکن ہے مسلمانوں کي اجتماعي کوششوں سے آگے چل کر ہالات بہتر ہو جائیں۔ ميں : حالات بہتر کي بجائے بد تر بھي تو ہو سکتے ہيں؟ صفي : تم ٹھيک کہتے ہو ۔ بس يہ سمجھ لو کہ ففٹي ففٹي چانسز ہيں ۔

لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ
برمنگھم يونيورسٹي سے ملحقہ ايک پارک ميں طارق اور ہسن چہل قدمي کر رہے ہيں۔ آج دھوپ کھ کر نکلي ہے ۔ يونيورسٹي کے طلبہ طالبات اپنے قريبي ہاسٹل اور کيمپس سے نکل کر يہاں خاصي تعداد ميں جمع ہيں اور ايک بلند پتلے ک ڈھلان کے مختلف حصوں کا مطالعے ميں مشغول ہيں يا ايک دوسرے سے چھلين کر رہے ہيں ۔ ہم ڈھلوان کے آخري کانرے پر کھڑت ہيں ار او پي کے طور پر دشمن کي سرگرميون پر نظر رکھے ہوئے ہيں۔بہت دير سے ايک لڑکا اور لڑکي دھينگا مشتي ميں مشغول ہيں ۔ ان کي حرکتيں خاصي افسوسناک ہيں ۔ ڈھلان کے برابر والي سڑک پر کچھ لڑکے لڑکيا جوکنگ ميں مشغول ہيں ۔ ايک شادي شدہ جوڑا اپنے بہت خوبصورت بچے کو بچہ گاڑي ميں بٹھائے ہمارے پاس سے گزرتا ہے ۔ ہميں ديکھ کر اس گول مٹول اور سرخ و سفيد بچہ گاڑي ميں بٹھائے ہمارے پاس سے گزرتا ہے ۔ ہمين ديکھ کر اس گول مٹول اور سرخ سفيد بچے کے چہرے پر اچانک وہ مسکراہٹ ابھرتي ہے جو دنيا کي سب سے زيادہ خوبصورت چيز ہے اور جو خدا کي نشانيوں ميں سے ايک ہے۔ دھينگا مشتي کرنے والا جوڑا بدستور لڑھکتا لڑھکتا کبھي ايک جانب چلا جاتا ہے اور کھبي دوسري طرف لڑھکتا جاتا ہے۔ طارق قاسمي صاحب يہ کيا کر رہے ہيں؟ کچھ بھي تو نہيں کر رہے ہيں۔ طارق يہ تو کوئي بات نہ ہوئي۔بات يہ ہے کہ مغرب ميں بارہ تيرہ سال کے بچے بلوغت کي سرہدوں تک پہنچنے لگتے ہيں اور باقاعدہ بالغ ہونے تک وہ ايسے مراحل سے گزر چکے ہوے ہيں جو ہمارے باں بسا اوقات عمر کے حصے ميں طے ہوتے ہيں۔ ہم لوگ تفريہ کي وجہ سے گھٹن کا شکار رہتے ہيں يہ لوگ افراط کي وجہ سے مختلف قسم کے مسائل سے دو چار ہوتے ہيں۔ يہ خلوت کو جلوت ميں تبديل کرنے کا رويہ بھي ميرے نزديک ايک ذہني مسئلہ ہے۔ طارق آپ تو پتہ نہيں کس طرف نکل گئے ميں پوچھ رہا ہوں يہ جوڑا کيا کر رہا ہے ؟ ميں نے کہا آئو ان سے پوچھتے ہيں۔ ان سے پوچھنے کي کيا ضرورت ہے ميں بتاتا ہوں۔ طارق تو پھر بتائيں تا کہ حافظ جي گھر کا راستہ ليں ۔ ميں نے کہا پلٹتا جھپٹتا جھپٹ کر پلٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے ايک بہانہ ،وقت سے بہت پہلے "بالغانہ " سرگرمياں شروع کر دينے کي وجہ سے آہستہ آہستہ لہو اسي طرح گرم کرنا پڑتا ہے ۔ طارق چھوڑيں جي آپ نے تو "گل" ويران کر دي ہے ۔ اب گھر چلتے ہيں ۔خالد احمد باتھ روم سے فارغ ہو گيا ہوگا۔
 
Status
Not open for further replies.
Back
Top