Grade 20 officer Stealing Kuwaiti Delegation Wallet - Aik Sabaq Amoz Ishara

  • Thread starter Dr Ch Abrar Majid
  • Start date
کویتی پرس کی چوری کے معاملے کے ذکر کا مقصد کسی فرد ، گروہ یا حکومت کی تشہیر یا تضحیک نہیں بلکہ ایک انتہائی اہم نقطہ کی طرف توجہ دلانا ہے تاکہ اس سنگین غلطی بلکہ جرم کے وقوعہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اس کے نفسیاتی ، معاشی ، اقتصادی ، ثقافتی اور معاشرتی حوالوں اور پہلووں سے تحقیق اور دانشورانہ نظروں سے جائزہ لینا جائے بلکہ حکومت کو اس واقعہ کی بنیاد پر اپنے لائحہ عمل اور سرگرمیوں کو ، گہری سوچ وبچار اور غور خوض کے بعد دوبارہ سے احتیاط کے ساتھ مرتب اور شواہد و نتائج سے مربوط حکمت عملی بنانی چاہیے ۔
مجرم کی تشہیر اور تضحیک کی تو ایک مہذب معاشرے کے اندر قطعاً اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی معاشرے کی اصلاح کا اس کے اندر کوئی حل موجود ہوتا ہے ۔ ہاں ایسے جرم جن سے پورا معاشرہ متاثر ہورہا ہو ان کے جرم ثابت ہو جانے کے بعد سرعام سزا سے عوام کے اندر خوف پیدا کرنے کاعمل قانونی نقطہ نظر سےایک اچھی حکمت عملی اورمثال ہے۔
مہذب معاشروں میں ثبوت جرم سے پہلے ملزم کی پردہ پوشی کی جاتی ہے تاکہ اس کی عزت وتکریم خراب نہ ہو اور اس کی اصلاح کا پہلو بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ واقعہ چونکہ قومی اور حکومتی نوعیت کا ہے اور ساتھ ہی ملکی وقار کا مسئلہ بھی ہے اس لئے اس کو کبھی بھی درگزر نہیں کرنا چاہیے ۔ اس طرح کی غلطیوں سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا اس کو نظر انداز کرکے سبق حاصل نہ کرتے ہوئے آنکھیں بند کرنے سے ہوتا ہے۔
موصوف چونکہ انتہائی پڑھے لکھے ، ذہین ، ذمہ دار اور حکومت کے بااعتماد عہدیدار تھے اور ملکی سطح پر اقتصادی معاملات میں ایک اسلامی دوست ملک کے ساتھ مزاکرات میں حکومت کی نمائیندگی کر رہے تھے لہذا ان کی اس حرکت کو انتہائی گہری سوچ کے ساتھ دیکھنا چاہیے۔
مختصراً معاشرتی پہلو کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھیں تو ایک تعلیم یافتہ اہم عہدے دار کی یہ غلطی ہماری تعلیم و تربیت کے معیار کی ایک انتہائی کمزور صورتحال کی طرف اشارہ ہے۔ جو کردار سازی کی طرف توجہ کا مطالبہ پیش کرتی ہے ۔ اب یہ کردار سازی یا انسان سازی کی کمی خاندانی سطح ، تعلیمی ادارے یا معاشرے کی سطح پر رہ گئی ہے بہرحال یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم معاشرتی طور پر گرانی کا شکار ہورہے ہیں۔
اقتصادی اور معاشی پہلو کا جائزہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایک فرد کے تعلیم یافتہ اور معاشرے میں باعزت مقام رکھنے کے باوجود اس طرح کی حرکت کے پیچھے کوئی مالی ضروریات کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے جس نے اسے اس مہنگائی کے دور میں اتنی گھٹیا حرکت پر مجبور کیا ہو کہ اس کو اپنی، خاندان اور قوم وملک کی عزت وتکریم بھی داو پر لگانی پڑی۔ جب معاشروں میں فرد کے اخراجات آمدنی سے مربوط نہ ہوں پورے ہونے کی ممکنات سے بالا تر ہوں تو اس طرح کے جرائم لازمی امر ہوتے ہیں۔ اندازہ لگا لیجئے اگر اتنے اہم عہدے اور معقول آمدنی والے پڑھے لکھے ذمہ دار شخص کا یہ حال ہے تو ایک ان پڑھ سادہ اور کم آمدنی والے مزدور شہری کا کیا حال ہوگا۔ یہ بہت ہی توجہ طلب معاملہ ہے۔
دوسرے پہلووں کے علاوہ ایک بہت ہی اہمیت کا حامل گورننس اور احتسابی عمل کے کمزور ہونے کی دلیل کی طرف بھی مضبوط اشارہ ہے۔ جب ملک کے نظام کے اندر چیک اینڈ بیلنس کی صورت حال خراب ہو تو بدعنوانی کا ناسور ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے ۔ حکومت پر ذمہ داری آتی ہے کی اپنی صفوں سے صفائی کے عمل کا آغاز کرتے ہوئے اداروں کو جوابدہ ، خودمختار اور مضبوط بنانے کےلئے تگ ودو کرے۔
اس مختصر مغز ماری کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کو اس طرح کے اشاروں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے وجوہات پر توجہ دے کر سبق حاصل کرتے ہوئے اور عملی اقدامات کے زریعے نتائج پر نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے اور عام آدمی کی کی زندگی کو اپنی گورننس کے لئے اشارہ متعین رکھنا چاہیے۔
 
What is this. Please let us know some background on what context this columnist has inclined to mention this.

Thanks @Veer
 
@Mishaikh

I think this...



I have updated thread title so readers can understand the issue.
 

Back
Top