Haalaat Durast Simt Nahi ja Rahe By Kanwar Dilshad Column

حالات درست سمت میں نہیں جا رہے ...... کنور دلشاد

ملک میں آٹے اور چینی کے بحران پر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی عبوری ر پورٹ میں بعض حکومتی اقدامات‘ کچھ برسراقتدار شخصیات اور بیوروکریٹس پر حرف زنی کی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت اس رپورٹ پر کڑے امتحان سے گزرنے والی ہے‘ کیونکہ 25اپریل کو ان معاملات کے آڈٹ کی رپورٹ بھی سامنے آ جائے گی اور باضابطہ اعلان ہوگا کہ اس حوالے سے کس نے کیا جائز یا ناجائز فوائد اٹھائے ہیں۔ اب تک جو معلومات منظر عام پر آئی ہیں ان کی روشنی میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وفاقی کابینہ کے وزرا‘ مشیروں اور سرکاری عملے کی ذمہ داریوں میں ردوبدل اور برطرفیاں یقینا خود احتسابی کا عمل گردانا جائے گا‘ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔اس ایکشن کا کریڈٹ وزیراعظم کو ملنا چاہیے کہ انہوں نے حکومت کے بارے میں آزادانہ انکوائری کا حکم دیا اور اب پہلی بار ایسی تحقیقاتی رپورٹ عام کی گئی ہے جس میں خود حکومت اور اس کے وزرا کی کارکردگی کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔دوسری جانب لندن میں سیاسی پاور بروکرز اور مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے درمیان مذاکرات ہورہے ہیں ‘ جس کے نتیجے میں گزشتہ دنوں خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق نے چودھری پرویزالٰہی سے باضابطہ ملاقات بھی کی جو کئی گھنٹے جاری رہی۔بقول شخصے ملاقات میں 1999ء کے بعد کے دور کے گلے شکوے دور کیے گئے۔ باہمی ملاقات سے اب مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان قربتیں بڑھنے لگی ہیں۔ لندن میں سیاسی پاور بروکرز کے پلان کے مطابق اب جہانگیر ترین اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان خلیج حائل ہو گئی ہے اور وزیراعظم عمران خان کو ادراک ہونا چاہیے کہ جہانگیر ترین کے قومی اسمبلی میں پندرہ سے بیس اراکین موجود ہیں‘ جبکہ پنجاب اسمبلی میں بھی 25 سے 30 اراکین ان کے ساتھ ہیں۔
جہانگیرترین سرکاری دستاویزات کے مطابق زرعی ٹاسک فورس کے چیئرمین نہیں رہے تھے۔ غیر سرکاری طور پر مشاورت کرتے رہے اور ذاتی حیثیت سے وزیراعظم عمران خان کو زرعی‘ اقتصادی‘ سیاسی اور انتظامی مشورے دیتے رہے۔ ان کی رائے کو مسترد کرنا وزیراعظم کی اپنی ہی پالیسی کا حصہ تھا۔ وزیراعظم عمران خان پر براہ راست تنقید کے بجائے جہانگیرترین ان کے سیکرٹری اعظم خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ میں اس حوالے سے ایک چشم دید واقعہ بیان کر رہا ہوں تاکہ وزیراعظم عمران خان کو صورتحال گہرائی کا اندازہ ہو سکے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)ارشاد حسن خاں جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کے بعد شدید دباؤ میں آگئے اور اپوزیشن نے ان پر تنقید کے تیر برسا ئے۔ ملک کے مایہ ناز صحافی ارشاد احمد حقانی نے بھی صدر پرویز مشرف سے ان کی سبکدوشی کا مطالبہ کیا ۔ متحدہ اپوزیشن نے ان کی تبدیلی کا مطالبہ اس شدت سے کیا کہ صدر پرویز مشرف نے چیف الیکشن کمشنر کو چائے پر بلایا اور ان کے مطالبے اور تنقید پر ان سے ڈھکے چھپے انداز میں مستعفی ہونے کے بارے میں اشارہ کیا تو چیف الیکشن کمشنرنے معنی خیز انداز میں کہا کہ جنابِ صدر اپوزیشن میری آڑ میں آپ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے‘ جو شدید تنقید کی جارہی ہے دراصل آپ ان کے نشانے پر ہیں۔ جہانگیر ترین پاکستان کے انتہائی قابل احترام سیاستدان ہیں‘ وزیراعظم کے سیکرٹری اعظم خان کی ان کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ بات مد نظر رکھنے کی ہے کہ کمیشن 25 اپریل کو جب اپنی رپورٹ جمع کرائے گا تو اس کے بعد بہت کچھ ہونا ہے۔ فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے۔ ممکنہ طور پر گرفتاریاں بھی ہوں گی اور ایف بی آر اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن جیسے ادارے بھی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔جو حضرات اعتراضات کی زد میں ہیں ان کا مؤقف بھی سنا جائے کہ اس وقت تک مجرم نہیں ٹھہرایا جاسکتا جب تک انہیں صفائی کا بھرپور موقع نہ دیا جائے۔ پاکستان کے عوام کو توقع ہے کہ رپورٹ پیش ہونے پر معاملے کے بعض خفیہ پہلو سامنے آجائیں گے۔
شریف برادران کو وزیراعظم کے قدم اٹھانے پر خاموشی اختیار کرنی چاہیے‘ کیونکہ ان کے دامن اربوں روپے کی خوردبرد سے آلود ہیں‘ صدر پرویز مشرف بھی انتظامی معاملات سے اسی طرح نا واقف تھے جیسے عمران خان صاحب ہیں۔ عدالتی انکوائریوں میں ریلیف ملتا رہا اور سعودی حکمرانوں کی خواہش پر قومی احتساب بیورو کو بھی ان سے دور رکھا گیا۔ اب وزیراعظم عمران خان کو ان کے سیکرٹری اعظم خان اور ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی مشاورت حاصل ہے اور عمران خان صاحب نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ کمیشن کی رپورٹ پر سخت ایکشن لیاجائے گا۔ اب زمینی حقائق یوں نظر آرہے ہیں کہ حکومت کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں‘ جنوبی پنجاب صوبے کی آواز بھی بلند ہو رہی ہے اور اتحادی جماعتوں کی حکومت سے علیحدگی کے بارے میں بھی سوچا جا رہا ہے اور قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لیے خفیہ اجلاس میں فیصلے ہو رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان اس وقت چار محاذوں پر مصروف ہیں اور دوسری طرف ان کے اہم ترین ساتھی ان کے خلاف سازشوں میں شریک ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان عوام کو کوئی بھر پور ریلیف نہ دے سکے‘ جس کی وجہ سے عوام بھی کچھ ان سے نالاں ہے ۔ سپریم کورٹ نے بھی حکومتی کارکردگی پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا پر وفاق کام کر رہا ہے نہ صوبائی حکومتیں‘ وزرائے ا علیٰ گھروں سے آرڈر دیتے ہیں ‘ کارو بار بند کر دیئے ہیں‘ لیکن ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دراصل بین الاقوامی جیورسٹ پالیسی کے تحت عدلیہ کے ریمارکس حکومت کے لیے رہنمائی کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ وزیراعظم کے مشیر ان مشاورتی ریمارکس کو ہوا میں اڑا رہے ہیں۔
اب جہانگیر ترین کی طرف آتے ہیں۔جہانگیر ترین کے ساتھ وزیراعظم عمران خان نے وہی سلوک کیا ہے جیسا کہ خلیفہ ہارون الرشید نے برمکی خاندان کے سر براہ یحییٰ برمکی کے ساتھ کیا تھا۔تاریخی واقعہ ہے کہ برمکی خاندان کی سیاسی طاقت ‘ ذہانت اور عربوں میں اثرورسوخ کی وجہ سے ہی عباسی خاندان برسراقتدار آیا تھا‘ مگر اقتدار پر پوری طرح قابض ہونے کے بعد خلیفہ ہارون الرشید نے یحییٰ برمکی کوایوانِ خلافت سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے جہانگیر ترین‘ جو ان کے لیے بوجھ بنتے جارہے تھے کو فارغ کردیا اور واجد ضیا کی رپورٹ کا سہارا لیتے ہوئے ان سے سیاسی اور سماجی دوری اختیار کرلی۔ وزیراعظم عمران خان نے پارٹی کو بلدیاتی سطح پر منظم کرنا تھا ‘جسے ان کے مشیروں نے ناکام بنادیا تھا‘تاہم جہانگیر ترین نے علیحدگی اختیار کر کے وزیراعظم عمران خان کے لیے مشکلات کھڑی کردی ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ الیکشن 2013ء میں تحریک انصاف اتنی بری طرح ہاری تھے‘ ساٹھ فیصد سیٹوں پر20 فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کرسکی ‘لیکن تحریک انصاف نے دھاندلی کے خلاف مہم چلائی اور انہوں نے 2018ء کے الیکشن کی کامیابی کیلئے ان کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے پنجاب کی 80 فیصد اشرافیہ کو تحریک انصاف میں شامل کرکے عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی راہ ہموار کی اور ان کے گلے میں ہیرو ں اورموتیوں کی مالا پہنا دی‘ اور یہ کہ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو عمران خان 2018ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل نہ کر پاتے ۔وزیراعظم کو شاید اندازہ نہیں کہ جہانگیرترین پنجاب کے ملک حیات ٹمن ہیں‘ جن کا پنجاب کی سیاست میں کافی اثرو رسوخ تھا۔جہانگیر ترین کی ہی مالی‘ سیاسی اور اخلاقی حمایت سے ہی وہ وزیراعظم کے زینے تک پہنچے۔ اب جنوبی پنجاب اور آزاد امیدواروں نے الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت کامیابی کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی وہ آنے والے دنوں میں حکمران اتحاد سے نکلنے کیلئے علیحدہ جنوبی پنجاب محاذ کو بحال کر کے وزیراعظم کی حکومت کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں وزیراعظم کے ارد گرد نا تجربہ کار وزرانے گھیرا ڈالا ہوا ہے ۔ان میں صلاحیت نہیں کہ جہانگیر ترین کے مضبوط گروپ کا سامنا کر پائیں جبکہ کابینہ میں بھی شدید اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔مبینہ طور پراسد عمر اور مراد سعید میں وزیراعظم کی موجودگی میں شدید تلخی ہو چکی ہے۔ شاہ محمود قریشی‘ فواد چوہدری اور چودھری سرور کی معنی خیز مسکراہٹ سے بھی اندازہ ہو رہا ہے کہ حالات درست سمت میں نہیں جا رہے۔​
 

@intelligent086
اسکی ووکل پر بہت دھلائی ہوئی ہے، آپ نے تو وہاں حد کر دی
بہت عمدہ انتخاب
شیئر کرنے کا شکریہ
وہاں پڑھ لیا تھا؟
پسند اور رائے کا شکریہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
Back
Top