Hamare Aur Mahir-e-Nafsiyat Ke Mashwaray By Masood Ashar Column

ہمارے اور ماہر نفسیات کے مشورے ۔۔۔۔۔ مسعود اشعر


کورونا وائرس سے ایک فائدہ ہوا۔ چینیوں نے کتے کھانا بند کر دئیے۔ اب یہ خبر تو نہیں آئی ہے، لیکن امید ہے انہوں نے چمگادڑیں کھانا بھی چھوڑ دی ہوں گی۔ کتے کھانے کا تو قصہ یہ ہے کہ آج سے دس سال پہلے جب ہم چین گئے تھے تو وہاں اخباروں میں یہ بحث چل رہی تھی کہ کتے کھانا چاہئیں یا نہیں؟ یہ بحث اس لئے نہیں چل رہی تھی کہ کتے کا گوشت اچھا ہوتا ہے یا برا؟ بحث یہ تھی کہ چونکہ کتا پالتو جانور ہے اور وہ انسان کا بہترین دوست مانا جاتا ہے، اس لئے اس کا کھانا مناسب ہے یا نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اسے نہیں کھانا چاہیے۔ لیکن اس موقف کے مخالفوں کا بیان تھا کہ انسان کے پالتو جانور تو اور بھی بہت سے ہیں۔ اگر انہیں کھایا جا سکتا ہے تو کتے کو کیوں نہیں کھایا جا سکتا؟ ظاہر ہے اس وقت اس بحث میں کتے کا گوشت کھانے والوں کی فتح ہی ہوئی ہو گی کہ آج تک وہاں کتے کا گوشت کھایا جا رہا تھا۔ اب چینی نسل کے لو گ چاہے چین میں ہوں یا کوریا میں، ان کے بارے میں ایک مثل مشہور ہے کہ وہ آسمان میں اڑنے والی ہر چیز کھا جاتے ہیں سوائے ہیلی کاپٹر کے۔ اور زمین پر چلنے والی چار پائوں والی ہر چیز بھی کھا جاتے ہیں، سوائے میز کرسی کے۔ چلئے، اسے آپ مبالغہ کہہ لیجے۔ لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ وہ ہر قسم کی الا بلا سب کھا جاتے ہیں۔ ان میں چمگادڑ بھی شامل ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی کی وجہ سے یہ وبا پھیلی ہے‘ لیکن ہم نے تو بندر کا مغز کھانے کی ویڈیو بھی دیکھی ہے۔ یہ برسوں پہلے کی بات ہے۔ کسی غیر ملکی ٹی وی کے پروگرام میں یہ ویڈیو دکھائی گئی تھی۔ اور وہ ویڈو ایسی تھی کہ اب بھی یاد آ جاتی ہے توکھایا پیا سب الٹنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ ایک بندر کو باندھ کر ایک جگہ بٹھا دیا جاتا ہے۔ پھر اس کا سر ایک شکنجے میں کسا جاتا ہے اور ایک تیز چھری سے اس کی کھوپڑی کا اوپر والا حصہ اڑا دیا جا تا ہے اور اس کا تڑپتا پھڑکتا مغز تیل میں تل کر کھایا جاتا ہے۔ اس ویڈیو کے بعد دنیا بھر میں اس پر اتنا ہنگامہ ہوا تھا، اور اتنا احتجاج کیا گیا تھا کہ شاید پھر اس وحشیانہ حر کت پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ یہ ویڈیو چین کی نہیں تھی بلکہ تھائی لینڈ وغیرہ کی تھی۔ یہ ویڈیو دکھانے والوں کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ انسان جنگلی درندوں سے بھی بڑا خونخوار درندہ ہے۔ جنگلی جانور تو دیکھ بھال کر کوئی دوسرا جانور کھاتے ہیں، لیکن انسان سب کچھ کھا جاتا ہے۔
بہرحال، اب تک کی خبروں میں تو ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ چین میں چمگادڑیں کھانے سے ہی یہ وبا پھیلی ہے‘ لیکن ہمارے ناول نگار دوست اکرام اللہ کے سائنس دان صاحب زادے کا خیال یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں جو کورونا وائرس پھیلا ہے، یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی یہ وائرس پھیل چکا ہے لیکن وہ اتنا وسیع پیمانے پر نہیں تھا۔ اس لئے وہ اتنا خطرناک نہیں تھا‘ اور پھر وہ انسان سے ہی پھیلا تھا۔ آج کا وائرس جانور سے پھیلا ہے اور بہت ہی زیادہ خطرناک ہے۔ اس کا دائرہ بھی زیادہ وسیع ہے کہ اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پہلے وائرس کے زمانے میں اس وبا کے علاج کے لئے ایک دوا بھی بنا لی گئی تھی لیکن چونکہ وہ وائرس جلدی ختم ہو گیا تھا اس لئے وہ دوا بھی ختم کر دی گئی تھی۔ نئے وائرس کے علاج کے لئے ویکسین بنانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے لیکن چونکہ یہ وائرس پہلے وائرس سے مختلف اور زیادہ خطرناک ہے‘ اس لئے اس کی ویکسین بنانے، پھر اس کا تجربہ کرنے، اور پھر انسانوں کے لئے اسے موزوں قرار دینے میں ایک سال سے زیادہ لگ سکتا ہے۔ اور آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہی ہو گا کہ تا تریاق از عراق آوردہ شود، مار گزیدہ مردہ شود۔ یعنی جب تک عراق سے تریاق آئے گا سانپ کا ڈسا ہوا آدمی مر چکا ہو گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی زمانے میں عراق سے تریاق بھی آیا کرتا تھا۔ آج کل تو عراق سے دنیا پر تباہی ہی آئی ہے۔
خیر، آج کل ہم اپنے گھروں میں بند ہیں اور اپنی بوریت دور کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ اب تھوڑی سی تسلی دی گئی ہے کہ پندرہ اپریل کے بعد ہمیں گھروں سے نکلنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ لیکن اس تسلی کا بھی کسی کو پورا یقین نہیں ہے کیونکہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ تو ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ ابھی یہ وبا اور بھی پھیلے گی۔ اور یہ مراد علی شاہ ہی ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس وبا کا مقابلہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ہمیں یہ نعرہ دیا گیا ہے کہ اس وبا سے ڈرو نہیں، اس سے لڑو۔ اس لئے کہ اگر ہم اس سے ڈرتے رہیں گے تو نفسیاتی طور کے ساتھ جسمانی طور پر بھی ہمارے اندر کی قوت مدافعت ختم ہو جائے گی اور یہ قوت مدافعت برقرار رکھنے کے لئے ہی ہمارے دوست واٹس ایپ پر ایسے ایسے پیغام بھیج رہے ہیں جنہیں پڑھ کر ہم سارے ڈر بھول جاتے ہیں۔ چلیے ایک پیغام آپ بھی پڑھ لیجئے۔
ماہر نفسیات کے مشورے
۔1۔ اپنے آپ کوکورونا وائرس کی خبروں سے دور رکھیں۔ اس مرض کے بارے میں آپ کو جتنا جاننا تھا جان چکے ہیں۔
۔2۔ اس مرض سے مرنے والوں کی تعداد جاننے کی کوشش نہ کریں۔ یہ کرکٹ میچ نہیں ہے کہ سکور جاننا ضروری ہو۔
۔3۔ ہمیشہ کورونا کے بارے میں سوچتے رہنے سے آپ ڈپریشن یا نروس بریک ڈائون کا شکار ہو سکتے ہیں۔
۔4۔ قرآن مجید، دینی تعلیم یا پسندیدہ کتابیں پڑھ کر وقت گزاریں۔
۔5۔ بیوی بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں۔
۔6۔ بے فکر رہنے کی کوشش کریں۔ اس سے آپ کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو گا، جو آج کل بہت ضروری ہے۔
۔7۔ واٹس ایپ اور فیس بک کی خبروں پر تصدیق کئے بغیر بھروسہ نہ کریں۔
۔8۔ خدا کی رحمت پر بھروسہ کریں اور یہ یقین رکھیں کہ جس طرح ہر بلا ایک دن ٹل جاتی ہے، یہ بلا بھی ٹل جائے گی۔
یہ پورا پیغام ہم نے جوں کا توں آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ دیکھ لیجئے، یہ کتنے اچھے اور کتنے کارآمد مشورے ہیں۔
اس معاملے میں عمران خان نے بھی نہایت ہی سمجھ داری کا ثبوت دیا ہے کہ اس وقت جب ساری قوم اس بلائے ناگہانی کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے‘ انہوں نے نئی عمارتیں، نئے پلازے اور نئی بستیاں تعمیر کرنے کے لئے ایک شاندار منصوبے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے ٹیکسوں میں خاصی بھاری بھرکم رعایت کا اعلان بھی کیا ہے۔ اب اس اربوں کھربوں کے منصو بے کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ ظاہر ہے، وہ وزیر اعظم ہیں۔ جانتے ہی ہوں گے کہ اس کے لئے وہ پیسہ کہاں سے لائیں گے۔ اور پھر اس کے بعد ہماری یہ فاقہ مستی جو رنگ لا ئے گی، وہ بھی عمران خان ہی جانتے ہوں گے۔ بہرحال، کورونا وائرس کی بلا سے توجہ ہٹانے کا یہ اچھا طریقہ ہے۔
ہم نے تو اپنے دوستوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ گھر میں خالی نہ بیٹھیں، کتابیں پڑھا کریں اور اپنا روزنامچہ لکھا کریں۔ آصف فرخی نے اس میں ایک اور جدت کی، اور اپنا روزنامچہ ویڈیو کی شکل میں فیس بک پر پوسٹ کر دیا۔ حمید شاہد نے تحریری شکل میں اپنی روزمرہ کی داستان رقم کر دی ہے؛ البتہ ناصر عباس نیّر نے اس موضوع پر ایک طویل علمی مضمون لکھا ہے۔ ڈاکٹر عمر عادل نے بھی ایک ویڈیو میں اپنی بہت سی یادیں جمع کر دی ہیں۔ ادھر اس بلائے نا گہانی پر نظمیں بھی لکھی جا رہی ہیں۔ گویا 9/11 کے بعد لکھے جانے والے ادب کی طرح کورونا وائرس کا ادب بھی سامنے آنے لگا ہے۔ اب یہ ادب اپنے معیار کے لحاظ سے کیسا ہو گا؟ یہ بعد میں دیکھا جائے گا۔​
 

Back
Top