intelligent086
Star Pakistani
20
- Messages
- 17,578
- Reaction score
- 26,649
- Points
- 2,231
ہائے مہنگائی ....... تحریر : جویریہ صدیق
میں سکول ٹیچر ہوں۔ گھر کا انتظام ساس دیکھتی ہیں اور خریداری بھی وہ کرتی ہیں۔ اکثر وہ مہنگائی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ہم سب جاب پر چلے جاتے ہیں، وہ سارا دن گھر کا انتظام دیکھ کر تھک جاتی ہیں۔ اس دن ان کی طبیعت خراب تھی، میں نے چھٹی کر لی اور سارے کام خود کئے۔ ملازمہ کو ان کے پاس چھوڑ کر خود تھوڑی خریداری کے لئے قریبی مارکیٹ چلی گی۔ یہ علاقے کی پرانی دکان ہے جس سے ہم برسوں سے سودا سلف خرید رہے ہیں۔ دکاندار بڑی عمر کے ایک ہنس مکھ انسان ہیں جو ہمیشہ مسکرا کر ہر گاہک سے مخاطب ہوتے ہیں۔ آج دیکھا تو دکاندار انکل اپنے گاہکوں کے ساتھ الجھ رہے تھے، غصے اور چڑچڑے پن کا شکار تھے۔ مجھے دیکھ کر تھوڑا چپ کرگئے۔ میں نے سودا سلف لکھوانا شروع کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ جو اشیا میں گھر سے خریدنے نکلی ہوں وہ ہزار روپے تک میں آ جائیں گی۔ جب انکل دکاندار نے میرا بل بنایا تو وہ 2500 روپے کے قریب تھا۔ میں نے انکل سے بل لیا اور بار بار حساب کرنے لگی کہ کہیں انکل نے گاہکوں سے لڑائی جھگڑے کے باعث میرا غلط بل تو نہیں بنا دیا۔ بل غلط نہیں، چیزوں کی قیمت زیادہ ہوگئی ہے۔میں ایک ہزار کی خریداری کرنے گئی تھی تو بل 2500 روپے بن گیا۔ بینک کارڈ دکان پر چلتا نہیں ہے اور میرے پاس بمشکل 1500 روپے کیش تھا۔ سوچنے لگی سامان رکھ کر اور اے ٹی ایم سے پیسے لے آؤں یا کل سکول جاتے ہوئے پیسے دے جاؤں۔ اسی اثنا میں ایک اور گاہک آیا جس نے آ کر کسی چیز کا بھاؤ معلوم کیا۔ جیسے ہی دکان دار نے اس کو قیمت بتائی، وہ شرمندہ شرمندہ نگاہوں سے واپس ہو لیا۔ دکاندار مجھے کہنے لگا، گاہک آتے ہیں اور قیمت پوچھ کر واپس چلے جاتے ہیں، کیا لوگوں نے کھانا چھوڑ دیا ہے۔ میں بھی اپنے حساب کتاب میں کھوئی تھی، بے اختیار کہا شاید یہی بات ہے کیونکہ مہنگائی بہت ہوگئی ہے۔میں سامان رکھوا کر اے ٹی ایم سے پیسے لینے چلی گئی۔ تھوڑی دیر میں واپس آئی تو سیلز مین، جو دکانوں پر سودا سلف سپلائی کرتے ہیں، دکاندار کے پاس آیا اور کہا جو آج کی ڈیمانڈ ہے، بتا دیں میں گاڑی سے نکال کر آپ کو دے دوں۔ پہلے تو دکاندار نے کہا مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ سیلز مین منت ترلے پر اتر آیا کہ کچھ تو خرید لیں، وہ اس عاجزی اور انکساری سے دکان دار کو قائل کر رہا تھا کہ سودا خرید لے کہ اس منت ترلے کے بعد دکاندار نے سودا سلف کی چھوٹی سی ڈیمانڈ لکھوائی۔وہ سیلز مین منمنانے لگا کہ تھوڑا اور خرید لیں آج تو میرا گاڑی کا پیٹرول بھی پورا نہیں ہوگا۔ سیلز مین دکان دار کو وہ تھوڑا سا سودا دے کر انتہائی مایوسی کے عالم میں دکان سے باہر نکلا اور ایک راہ گیر سے جا ٹکرایا شاید وہ اس بات پر حواس باختہ تھا کہ اسکا سامان نہیں بکا وہ پیٹرول کہاں سے پورا کرے گا۔راہ گیر کے ہاتھ میں دال کا چھوٹا کاغذ والا لفافہ زمین پر گرگیا اور دال بکھیر گء۔راہ گیر بہت غریب نظر آرہا تھا وہ سیلز مین سے لڑنے لگا۔دھینگا مشتی میں سیلز مین کی قمیض پھٹ گء۔میں نے اپنا بل دیا اور سامان اٹھا ہی رہی تھی کہ یہ سب شروع ہوگیا۔میں خوفزدہ ہوکر دوکان کے اندر آگئی اور دیکھنے لگی کہ اچانک کیا ہوا۔دوکان دار انکل نے انکے کے درمیان لڑائی رکوانے کی کوشش کی۔ابھی یہ سب ہورہا تھا بھیڑ جمع ہوگء تو ایک شخص نے میرے سامنے دوکان سے آٹے کا تھیلا لے کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگا۔میں اس چوری پر سکتے میں آگئی وہ بظاہر شریف لگ رہا تھا لیکن آٹا چوری کیوں کررہا تھا اس پہلے میں کچھ بولتیوہ پکڑا گیا لوگوں نے اسکو مارنا شروع کردیا۔آٹا چرانے والا شخص لہولہان ہوگیا۔ میں بلکل ساکت کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی کہ مہنگائی نے عوام کا کیا حال کردیا ہے۔محلے کہ ایک بزرگ وہاں آگئے کہنے لگے اس شریف آدمی کو کیوں مار رہے ہو لوگوں نے کہا یہ آٹا چور ہے۔محلے کے بزرگ نے کہا یہ تو مستری ہے محنت کرکے کھاتا ہے یہ چوری کیسے کرسکتا ہے۔ان بزرگ نے لہولہان شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا رشید تم نے آٹا چوری کیا ہے اس نے کہا ہاں صاحب جی یہ سچ کہہ رہے ہیں آٹا میں نے چوری کیا ہے۔میرے بچے بھوک سے نڈھال ہیں۔دوکان دار کہنے لگے تو اگر پیسے نہیں تو لنگر خانے سے کھانا کھالیتے چوری کیوں کی۔وہ مستری بولا صاحب جی سنا ہے حکومت نے لنگر خانے بنائے ہیں لیکن صاحب جی لنگر خانے جانے تک کے بھی پیسے میرے پاس بھی نہیں ہیں۔مجھے معاف کردیں۔محلے کے بزرگ مایوسی سے آسمان کی طرف تک رہے تھے اور با آواز بلند کچھ یوں مخاطب ہوئے یا اللہ یہ کیسی تبدیلی آئی ہے ایسی تبدیلی میں نے اپنی ستر سالہ زندگی میں نہیں دیکھی۔میں جاتے ہوئے اپنے آٹے کا تھیلا اس آٹا چور کو دئے گء کیا وہ چور ہے یا نہیں یہ آپ مجھے بنائیں؟
میں سکول ٹیچر ہوں۔ گھر کا انتظام ساس دیکھتی ہیں اور خریداری بھی وہ کرتی ہیں۔ اکثر وہ مہنگائی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں۔ ہم سب جاب پر چلے جاتے ہیں، وہ سارا دن گھر کا انتظام دیکھ کر تھک جاتی ہیں۔ اس دن ان کی طبیعت خراب تھی، میں نے چھٹی کر لی اور سارے کام خود کئے۔ ملازمہ کو ان کے پاس چھوڑ کر خود تھوڑی خریداری کے لئے قریبی مارکیٹ چلی گی۔ یہ علاقے کی پرانی دکان ہے جس سے ہم برسوں سے سودا سلف خرید رہے ہیں۔ دکاندار بڑی عمر کے ایک ہنس مکھ انسان ہیں جو ہمیشہ مسکرا کر ہر گاہک سے مخاطب ہوتے ہیں۔ آج دیکھا تو دکاندار انکل اپنے گاہکوں کے ساتھ الجھ رہے تھے، غصے اور چڑچڑے پن کا شکار تھے۔ مجھے دیکھ کر تھوڑا چپ کرگئے۔ میں نے سودا سلف لکھوانا شروع کر دیا۔ میرا خیال تھا کہ جو اشیا میں گھر سے خریدنے نکلی ہوں وہ ہزار روپے تک میں آ جائیں گی۔ جب انکل دکاندار نے میرا بل بنایا تو وہ 2500 روپے کے قریب تھا۔ میں نے انکل سے بل لیا اور بار بار حساب کرنے لگی کہ کہیں انکل نے گاہکوں سے لڑائی جھگڑے کے باعث میرا غلط بل تو نہیں بنا دیا۔ بل غلط نہیں، چیزوں کی قیمت زیادہ ہوگئی ہے۔میں ایک ہزار کی خریداری کرنے گئی تھی تو بل 2500 روپے بن گیا۔ بینک کارڈ دکان پر چلتا نہیں ہے اور میرے پاس بمشکل 1500 روپے کیش تھا۔ سوچنے لگی سامان رکھ کر اور اے ٹی ایم سے پیسے لے آؤں یا کل سکول جاتے ہوئے پیسے دے جاؤں۔ اسی اثنا میں ایک اور گاہک آیا جس نے آ کر کسی چیز کا بھاؤ معلوم کیا۔ جیسے ہی دکان دار نے اس کو قیمت بتائی، وہ شرمندہ شرمندہ نگاہوں سے واپس ہو لیا۔ دکاندار مجھے کہنے لگا، گاہک آتے ہیں اور قیمت پوچھ کر واپس چلے جاتے ہیں، کیا لوگوں نے کھانا چھوڑ دیا ہے۔ میں بھی اپنے حساب کتاب میں کھوئی تھی، بے اختیار کہا شاید یہی بات ہے کیونکہ مہنگائی بہت ہوگئی ہے۔میں سامان رکھوا کر اے ٹی ایم سے پیسے لینے چلی گئی۔ تھوڑی دیر میں واپس آئی تو سیلز مین، جو دکانوں پر سودا سلف سپلائی کرتے ہیں، دکاندار کے پاس آیا اور کہا جو آج کی ڈیمانڈ ہے، بتا دیں میں گاڑی سے نکال کر آپ کو دے دوں۔ پہلے تو دکاندار نے کہا مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ سیلز مین منت ترلے پر اتر آیا کہ کچھ تو خرید لیں، وہ اس عاجزی اور انکساری سے دکان دار کو قائل کر رہا تھا کہ سودا خرید لے کہ اس منت ترلے کے بعد دکاندار نے سودا سلف کی چھوٹی سی ڈیمانڈ لکھوائی۔وہ سیلز مین منمنانے لگا کہ تھوڑا اور خرید لیں آج تو میرا گاڑی کا پیٹرول بھی پورا نہیں ہوگا۔ سیلز مین دکان دار کو وہ تھوڑا سا سودا دے کر انتہائی مایوسی کے عالم میں دکان سے باہر نکلا اور ایک راہ گیر سے جا ٹکرایا شاید وہ اس بات پر حواس باختہ تھا کہ اسکا سامان نہیں بکا وہ پیٹرول کہاں سے پورا کرے گا۔راہ گیر کے ہاتھ میں دال کا چھوٹا کاغذ والا لفافہ زمین پر گرگیا اور دال بکھیر گء۔راہ گیر بہت غریب نظر آرہا تھا وہ سیلز مین سے لڑنے لگا۔دھینگا مشتی میں سیلز مین کی قمیض پھٹ گء۔میں نے اپنا بل دیا اور سامان اٹھا ہی رہی تھی کہ یہ سب شروع ہوگیا۔میں خوفزدہ ہوکر دوکان کے اندر آگئی اور دیکھنے لگی کہ اچانک کیا ہوا۔دوکان دار انکل نے انکے کے درمیان لڑائی رکوانے کی کوشش کی۔ابھی یہ سب ہورہا تھا بھیڑ جمع ہوگء تو ایک شخص نے میرے سامنے دوکان سے آٹے کا تھیلا لے کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگا۔میں اس چوری پر سکتے میں آگئی وہ بظاہر شریف لگ رہا تھا لیکن آٹا چوری کیوں کررہا تھا اس پہلے میں کچھ بولتیوہ پکڑا گیا لوگوں نے اسکو مارنا شروع کردیا۔آٹا چرانے والا شخص لہولہان ہوگیا۔ میں بلکل ساکت کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی کہ مہنگائی نے عوام کا کیا حال کردیا ہے۔محلے کہ ایک بزرگ وہاں آگئے کہنے لگے اس شریف آدمی کو کیوں مار رہے ہو لوگوں نے کہا یہ آٹا چور ہے۔محلے کے بزرگ نے کہا یہ تو مستری ہے محنت کرکے کھاتا ہے یہ چوری کیسے کرسکتا ہے۔ان بزرگ نے لہولہان شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا رشید تم نے آٹا چوری کیا ہے اس نے کہا ہاں صاحب جی یہ سچ کہہ رہے ہیں آٹا میں نے چوری کیا ہے۔میرے بچے بھوک سے نڈھال ہیں۔دوکان دار کہنے لگے تو اگر پیسے نہیں تو لنگر خانے سے کھانا کھالیتے چوری کیوں کی۔وہ مستری بولا صاحب جی سنا ہے حکومت نے لنگر خانے بنائے ہیں لیکن صاحب جی لنگر خانے جانے تک کے بھی پیسے میرے پاس بھی نہیں ہیں۔مجھے معاف کردیں۔محلے کے بزرگ مایوسی سے آسمان کی طرف تک رہے تھے اور با آواز بلند کچھ یوں مخاطب ہوئے یا اللہ یہ کیسی تبدیلی آئی ہے ایسی تبدیلی میں نے اپنی ستر سالہ زندگی میں نہیں دیکھی۔میں جاتے ہوئے اپنے آٹے کا تھیلا اس آٹا چور کو دئے گء کیا وہ چور ہے یا نہیں یہ آپ مجھے بنائیں؟