Seerat e Sahabah Hazrat Abdullah ibn Rawaha: A Poet Yearning for Heaven

intelligent086

intelligent086

Star Pakistani
20
 
Messages
17,578
Reaction score
26,649
Points
2,231

شاعرِ رسولﷺ
حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ


مکّہ شہر کے باسی آج صبح جلد بیدار ہو کر جُوق در جُوق کسی اہم شخصیت کے استقبال کے لیے مدینے کے راستے کی جانب رواں دواں ہیں۔ سردارانِ قریش بھی کعبے کے شمال میں واقع، جبلِ قُعيقعان پر براجمان یہ منظر دیکھنے کے لیے بے قرار ہیں۔ سب کی نگاہیں مدینہ منورہ کے راستے کی جانب ہیں۔ مکّے کی خُوش گوار صبح کی معطّر فضائیں، آج اِک عجیب خوشی کے احساس سے جھوم رہی ہیں۔ ہوائوں میں تیرتی خُوش نُما ننّھی ابابیلیں اور مکّے کے خُوب صورت کبوتر بھی خوش آمدید کے نغمے اَلاپ رہے ہیں۔ آگ برساتا پُرجلال سورج بھی اپنی کرنوں کی تیزی سے محروم، عاجزی و انکساری کی تصویر بنا حمد و ثناء میں مصروف ہے۔ مکّہ مکرّمہ کے پُرہیبت، کالے اور سخت پہاڑ بھی وجد کی سی کیفیت میں جھومتے درود و سلام کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ غرض کہ شہر کا ذرّہ ذرّہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے سرشار، خوشیوں سے نہال، آنے والے مہمانوں کے استقبال کے لیے ’’چشمِ ما روشن، دلِ ماشاد‘‘ ہے۔ ابھی انتظار کی کچھ ہی گھڑیاں گزری تھیں کہ پہاڑوں کے پار سے گونجنے والے’’اللہ اکبر‘‘ کے ولولہ انگیز نعروں نے شہر کے در و دیوار ہی کیا، اہلِ مکّہ کے دِلوں کو بھی لرزا دیا۔ جوں جوں یہ پُرجوش صدائیں قریب آ رہی ہیں، سردارانِ قریش کے چہروں پر غم و غصّے اور خوف کے گمبھیر سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ تاریخی منظر بھی آنکھوں کے سامنے آ گیا کہ جس عظیم المرتبت ہستی کو سات سال پہلے رات کی تاریکی میں ہجرت پر مجبور کیا گیا تھا، آج وہی جلیل القدر شخصیت، امام الانبیاءؐ، تاج دارِ مدینہؐ، شہنشاہِ کونینؐ، رحمتِ دوعالمؐ، محسنِ انسانیتؐ، حضور رسالت ماب ﷺ اپنے سرفروش ساتھیوں کے عظیم الشّان لشکر کے جلو میں اونٹنی پر ایک شانِ بے نیازی کے ساتھ تشریف فرما ’’عمرۂ قضا‘‘ کی ادائی کے لیے مکّہ مکرّمہ میں جلوہ افروز ہو رہے ہیں اور جو کل اُن کے خون کے پیاسے تھے، آج قطار لگائے اُن کے استقبال کے لیے کھڑے ہیں۔

جلوس میں سب سے آگے شاعرِ اسلام، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اپنی تلوار حمائل کیے، حضورﷺ کی قصواء( اونٹنی ) کی مہار تھامے، عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے سرشار، بڑے جوش و جذبے کے ساتھ رجزیہ اشعار سے کفّارِ مکّہ کے دِلوں کو چھلنی کر رہے ہیں۔ (ترجمہ اشعار) ’’اے کفّار کے لوگو! اِن کے راستے میں نہ آنا کہ ساری بھلائی ان ہی میں ہے، آج ہم اِن کی تشریف آوری پر تمہیں ایسی مار ماریں گے کہ تمہاری کھوپڑی اپنی جگہ سے الگ ہو جائے گی اور دوست کو دوست سے بے خبر کر دے گی۔‘‘سیّدنا عُمرِ فاروقؓ نے اُنہیں یہ شعر کہنے سے منع کیا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضرت عُمرؓ بن خطاب نے کہا’’ اے ابن رواحہؓ! تم رسول اللہﷺ کے سامنے اور اللہ کے حرم میں اشعار کہہ رہے ہو؟‘‘ اس موقعے پر آنحضرتؐ نے فرمایا’’اے عُمر! اِنہیں اپنا کام کرنے دو، کیوں کہ ابنِ رواحہؓ کے یہ اشعار، کفّار کے لیے تیر کی مار سے بھی زیادہ تیز ہیں‘‘(ترمذی)۔ نبی کریمﷺ کے ان ارشادات نے تو گویا حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے جسم میں جوش و جذبات کی بجلی دوڑا دی اور پھر وہ مزید ولولہ انگیز اشعار پڑھنے لگے۔

شجرۂ نسب
حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اپنے قبیلے کے سردار تھے اور اُنھوں نے بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد ہی حضرت مصعب بن عُمیرؓ کی یثرب میں تبلیغِ اسلام کے نتیجے میں دعوتِ حق قبول کر لی تھی۔ وہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ نیز، پُرجوش، ولولہ انگیز شاعری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ آپؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے۔ عبداللہ بن رواحہ بن ثعلبہ بن امرالقیس بن عمرو بن امرالقیس الاکبر بن مالک بن الاغر بن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج الاکبر۔ آپؓ کی کُنیت، ابو محمّد، ابو رواحہ اور ابو عمرو ہے۔ آپؓ کا تعلق مدینے کے مشہور قبیلے ’’بنو خزرج‘‘ سے تھا۔

بارہ نقیب
نبوّت کے تیرہویں سال حج کے بعد، آنحضرتؐ نے یثرب سے آئے ہوئے مسلمانوں سے بیعتِ عقبہ ثانی فرمائی۔ تکمیلِ بیعت کے بعد رسول اللہﷺ نے تجویز دی کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں، جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اپنی قوم کی طرف سے بیعت کی دفعات پر عمل درآمد کے ذمّے دار اور مکلّف ہوں۔ چناں چہ آپؐ کے ارشاد کے مطابق، قبیلہ خزرج سے9 اور قبیلہ اوس سے3نقباء منتخب کر کے نام آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش کر دیے گئے، جن کی آپؐ نے منظوری دی۔ خزرج کے9نقباء میں حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی تھے۔ منظوری کے بعد آپؐ نے فرمایا’’ آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں، جیسے حواری حضرت عیسیٰ ؑ کی جانب سے کفیل ہوئے تھے اور مَیں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔‘‘ اُن سب نے کہا’’ جی ہاں، یارسول اللہؐ ‘‘ (ابنِ ہشام)۔

مرحبا یا سیّدی، مکّی و مدنی ﷺ
سرکارِ دوعالمؐ، شاہِ مدینہؐ، شافعِ محشرؐ، حضور نبی کریمﷺ جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے، تو آپؐ کے استقبال کے لیے مختلف قبائل کے سربراہان کے ساتھ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ بھی موجود تھے، جو اپنے خُوب صورت استقبالیہ اشعار کے ذریعے مہمانوں پر عقیدت کے پھول نچھاور کر رہے تھے۔ دیگر رئوسائے شہر کی طرح، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کی بھی شدید خواہش تھی کہ اللہ کے محبوب ؐکی شرفِ میزبانی کا اعزاز اُنہیں حاصل ہو، لیکن یہ اعزاز تو حضرت ابو ایّوب انصاریؓ کے مقدّر میں لکھا جا چُکا تھا۔

خوشی و مسرّت کا پہلا موقع
مدینہ منورہ میں اللہ کے پہلے گھر، مسجدِ نبویؐ کی تعمیر ہو رہی تھی، صحابہؓ کے ساتھ شاہِ اممؐ، نیّرِ اعظمؐ، خلقِ مجسّمؐ بھی بہ نفسِ نفیس اینٹیں اور گارا ڈھو رہے تھے۔ شاہِ مدینہ کا رُخِ انور خوشی سے گل نار ہے اور زبانِ مبارک پر حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کا یہ شعر ہے۔؎اللھم لا عیش، الاّ عیش الآخرہ…فاغفر للانصار و المہاجرہ ‘‘ یعنی’’اے اللہ زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے۔ انصار و مہاجرین کو بخش دے۔‘‘ آنحضرتؐ کے ساتھ صحابہ کرامؓ بھی جوش و خروش کے ساتھ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے اشعار دُہرا رہے ہیں۔ مکّہ مکرّمہ کی طویل جدوجہد، سخت ترین آزمائش اور بے انتہا ظلم و ابتلا کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ صحابہؓ کے چہرے خوشی اور مسرّت سے دمک رہے ہیں، سب شاداں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے لیے اس سے بڑے اعزاز اور خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے کہ اُن کے اشعار اللہ کے محبوبؐ اور اُن کے رفقاء کے لبوں سے ادا ہو کر رہتی دنیا تک کے لیے اَمر ہو رہے ہیں۔ آج ابنِ رواحہؓ کے یہ اشعار سیرت کی کتابوں کی زینت ہیں۔

کاتب ِوحی
حضرت عبداللہ بن رواحہؓ مدینے کے چند پڑھے لکھے لوگوں میں سے ایک تھے۔ اپنا زیادہ وقت قربتِ رسول ﷺ میں گزارتے، عشقِ مصطفیٰﷺ میں ڈوب کر خُوب صورت اشعار کہتے، جنھیں حضورﷺ پسند فرماتے۔ اُن کے اسی علمی اور ادبی ذوق و شوق کی بنا پر آنحضرتؐ نے اُنہیں’’ کاتبِ وحی‘‘ کے جلیل القدر منصب پر فائز فرمایا۔

دربارِ رسالتؐ کے شعراء
تین صحابہ کرامؓ، حضرت حسّان بن ثابتؓ، حضرت کعب بن مالکؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو دربارِ رسالتؐ میں اشعار کہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ آنحضرتؐ، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کے اشعار کو پسند فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ، صحابہؓ سے فرماتے تھے کہ’’ ابن رواحہؓ کے اشعار کفّار پر تیر و نشتر کی طرح حملہ آور ہوتے ہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ صحابہؓ میں ابن رواحہؓ’’ شاعرِ رسولؐ ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔اللہ تعالیٰ نے جب سورۃ الشعراء کی یہ آیات نازل فرمائیں’’ اور شاعروں کی پیروی گم راہ لوگ کیا کرتے ہیں، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں‘‘، تو یہ تینوں اللہ کی ناراضی کے خوف سے ڈرتے، کانپتے، روتے، پیٹتے بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے اور عرض کی’’ یارسول اللہ ﷺ! اب ہمارا کیا بنے گا، اللہ ہم سے سخت ناراض ہے، اس نے ہماری مذمّت میں آیات نازل فرما دیں۔‘‘ حضورؐ نے ان تینوں کو تسلّی دیتے ہوئے فرمایا’’ مگر اللہ نے یہ بھی تو فرمایا ہے’’ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک کام کیے اور اللہ کو بہت یاد کرتے رہے‘‘ اور یہ تم جیسے لوگوں کے لیے ہے۔‘‘

اطاعتِ رسول ؐ میں جان بھی قربان ہے
حضرت عبداللہ بن رواحہؓ، سرکار دوعالمﷺ کے لبِ مبارک سے نکلے ہر لفظ کو حکم کا درجہ دیتے اور اُنؐ کی اطاعت ہر چیز پر مقدّم رکھتے۔ ایک دن وہ اپنے گھر سے مسجد کی جانب روانہ ہوئے، حضورﷺ مسجد میں خطبہ دے رہے تھے۔ خطبے کے دَوران آنحضرتؐ نے مسجد میں کھڑے کچھ لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’اے لوگو بیٹھ جائو‘‘۔ ابنِ رواحہؓ مسجد کے دروازے پر تھے۔ اُنہوں نے جیسے ہی حضورﷺ کی آواز سُنی، تو ایک قدم بھی آگے بڑھائے بغیر فوراً بیٹھ گئے۔ کسی صحابیؓ نے یہ واقعہ حضورﷺ کو سُنایا، تو آپؐ نے دُعا دیتے ہوئے فرمایا’’اے ابنِ رواحہؓ! اللہ تمہارے دِل میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے جذبے کو مزید پروان چڑھائے۔‘‘

غزوات میں شرکت
حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے غزوۂ بدر سے جنگِ موتہ تک، تمام غزوات میں شرکت کی۔ غزوۂ سویق میں جانے سے قبل آنحضرتؐ نے آپؓ کو مدینے کا امیر مقرّر فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نے ابنِ رواحہؓ کو تیس مجاہدین کے ساتھ اسیر بن عوام کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔6ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ اللہ نے صلح حدیبیہ کے چودہ سو مجاہدینِ اسلام کو ’’اصحاب الشجرہ‘‘ کے مبارک لقب سے سرفراز فرمایا۔ حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں کہ’’ عبد اللہ بن رواحہؓ ہر غزوے میں روانگی کے وقت سب سے آگے ہوتے، لیکن جب محاذ سے واپسی ہوتی، تو سب سے پیچھے رہ جاتے ‘‘( الاصابہ)۔ 7ہجری میں جب خیبر فتح ہوا، تو بہت سا مالِ غنیمت، زرعی زمینیں، کھیت کھلیان اور باغات مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ اس موقعے پر آنحضرتؐ نے خیبر کے تمام مالی وسائل کا تخمینہ لگانے کی ذمّے داری ابنِ رواحہؓ کو سونپی، جو اُنہوں نے بہ احسن سر انجام دی۔

شہادت ہے مطلوب و مقصود ِمومن
8ہجری میں آنحضرتؐ نے ایک صحابی ،حضرت حارث بن عمیرؓ کو اپنا قاصد بنا کر حاکمِ بصرہ کے پاس روانہ کیا، جنہیں وادیٔ بلقاء پر مامور قیصرِ روم کے گورنر، شرجیل بن عمرو نے گرفتار کر کے شہید کر دیا۔ حضور ﷺ کو اس خبر سے شدید رنج ہوا اور آپؐ نے اس قتل کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ حضرت زید بن حارثہؓ کی قیادت میں تین ہزار مجاہدین کا لشکر اس علاقے میں فوج کَشی کے لیے روانہ کیا۔ آپؐ نے حکم دیا کہ اگر زید ؓشہید ہو جائیں، تو جعفرؓ لشکر کی قیادت کریں گے، اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو عبد اللہ بن رواحہؓ امیرِ لشکر ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں، تو مجاہدین اپنا امیر خود منتخب کر لیں‘‘ (بخاری)۔ جب اسلامی لشکر روانگی کے لیے تیار ہو گیا اور لوگوں نے الوداعی ملاقاتیں کیں، تو عبداللہ بن رواحہؓ آبدیدہ ہو گئے۔ لوگوں نے رونے کی وجہ دریافت کی تو کہا’’دیکھو، اللہ کی قسم اس کا سبب دنیا کی محبّت یا تمہارے ساتھ میرا تعلق نہیں ہے، بلکہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو کتاب اللہ کی ایک آیت پڑھتے ہوئے سُنا ہے، جس میں جہنّم کا ذکر ہے۔ آیت یہ ہے’’تم میں سے ہر شخص جہنّم پر وارد ہونے والا ہے۔ یہ تمہارے ربّ پر ایک لازمی اور فیصلہ کی ہوئی بات ہے‘‘( سورۂ مریم71)۔ مَیں نہیں جانتا کہ جہنّم پر وارد ہونے کے بعد کیسے پَلٹ سکوں گا۔‘‘ پھر آپؓ نے یہ اشعار پڑھے’’لیکن مَیں رحمٰن سے مغفرت کا اور اُستخوان شکن، مغز پاش تلوار کی کاٹ یا کسی نیزہ باز کے ہاتھوں، آنتوں اور جگر کے پار اُتر جانے والے نیزے کی ضرب کا سوال کرتا ہوں تاکہ جب لوگ میری قبر پر گزریں تو کہیں’’ ہائے یہ وہ غازی ہے، جسے اللہ نے ہدایت دی اور جو ہدایت یافتہ رہا۔‘‘بہرحال،مسلمانوں کا لشکر شام کے علاقے ’’معان‘‘ پہنچا، تو اُسے اطلاع ملی کہ ہر قل قیصرِ روم خود بلقاء کے علاقے میں ایک لاکھ رومیوں کے لشکر اور کثیر سامانِ حرب کے ساتھ اسلامی لشکر کا منتظر ہے۔مسلمانوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ اُنہیں کسی لشکرِ جرّار سے اس دُور دراز سرزمین پر اچانک ایک بڑی جنگ لڑنی پڑے گی۔ چناں چہ وہ حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ کہاں تین ہزار کا بےسرو سامانی کی حالت میں ایک چھوٹا لشکر اور کہاں جنگی سازو سامان سے لیس ایک لاکھ زرّہ پوشوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ۔کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ رسول اللہﷺ کو اس صُورتِ حال کے بارے میں لکھ بھیجیں تاکہ مدینے سے کمک آ جائے یا جو بھی حکم ہو، اس کی تعمیل کی جائے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے اس رائے کی مخالفت کی اور قوّتِ ایمانی سے لبریز ایک ولولہ انگیز، پُرجوش تقریر کر کے مجاہدین کا لہو گرما دیا۔ اُنہوں نے للکارتے ہوئے کہا’’اللہ کی قسم! جس چیز سے تم گھبرا رہے ہو، یہ ہی تو وہ شہادت ہے، جس کی طلب میں تم سب نکلے ہو۔ تمہارا مطلوب و مقصود تو راہِ حق میں اپنی جانیں قربان کرنا ہے۔ تمہاری منزل تو شہادت ہے۔ یاد رکھو! دشمن سے ہماری جنگ تعداد، قوّت اور کثرت کے بَل پر نہیں، بلکہ ہم تو محض اس دین کے بَل پر لڑتے ہیں، جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ہے۔ اس لیے اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو اور دو عظیم کام یابیوں میں سے کسی ایک کو حاصل کر لو یا تو ہم غالب رہیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے۔‘‘ ابن رواحہؓ کی پُرجوش تقریر نے مجاہدین کے شوقِ شہادت کو مزید بھڑکا دیا اور پھر اہلِ ارض و سما نے ایک محیر العقول منظر دیکھا۔ تین ہزار سرفروشانِ اسلام، زنگ آلود تلواروں سے رومیوں کے جدید جنگی سازو سامان سے لیس ایک لاکھ ٹڈی دَل کا طوفانی مقابلہ کر رہے تھے۔ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے چہیتے، زید بن حارثہؓ عَلم لے کر آگے بڑھے، بے جگری سے لڑے، لیکن شہید ہو گئے۔ حضرت جعفر ؓکی باری آئی، 90زخم کھا کر شہید ہو گئے۔ اب حضورﷺکی ہدایت کے مطابق، حضرت عبداللہ بن رواحہؓ ایک ہاتھ میں پرچم اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لیے رجزیہ اشعار پڑھتے آگے بڑھے۔ چچا زاد بھائی ایک گوشت لگی ہڈی لے کر آیا اور بولا’’ اس کے ذریعے پیٹھ کو مضبوط کر لو۔‘‘ اُنہوں نے ہڈی لے کر ایک بار نوچی، پھر پھینک کر تلوار تھام لی اور آگے بڑھ کر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ اُن کے بعد مجاہدین نے حضرت خالد ؓبن ولید کو اپنا امیر منتخب کر لیا اور اللہ نے اُن کے ہاتھوں فتحِ عظیم عطا فرمائی۔ اللہ کے رسولﷺ کو جنگِ موتہ کے پہلے روز ہی وحی کے ذریعے اللہ نے اس جنگ کے آنے والے حالات سے مطلع فرما دیا تھا ( الرحیق المختوم)۔
 

@intelligent086
شاعر رسول صل اللہ علیہ والہ و سلم عبداللہ بن رواحہ کے بارے عمدہ اور خوب صورت تحریر
آپ سے گزارش کی تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین اور صحابیات کے بارے میں معلومات فراہم کیا کریں
 
@Maria-Noor
ماشاءاللہ
جزاک اللہ خیراً کثیرا
اچھی تجویز ہے لیکن ملا جلا کام فورم کے لیئے زیادہ فائدے مند ہے
 
@intelligent086
وَأَنْتُمْ فَجَزَاكُمُ اللَّهُ خَيْرًا
جیسے آپ بہتر سمجھتے ہیں
 
Back
Top