Seerat e Sahabah Hazrat Asma (RA) Bint e Abi Bakar (RA) by Sadia Kareem

Mem00na

Mem00na

Well-Known Pakistani
5
 
Messages
840
Reaction score
2,435
Points
206
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا
سعدیہ کریم

Hazrat-Asma-RA.jpg


حضرت اسماء رضی اللہ عنہا خلیفہ اول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ ان کا شمار پاکیزہ صحابیات میں ہوتا ہے۔


نام و نسب
آپ کا نام اسماء اور لقب ذات النطاقین تھا۔ آپ کی والدہ کا نام قتیلہ بنت عبدالعزیٰ تھا۔ آپ کا نسب کچھ یوں ہے:


حضرت اسماء بنت ابوبکر صدیق بن ابو قحافہ عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن لوی القریش۔


آپ کے نانا عبدالعزی قریش کے نامور رئیس تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کی بہن تھیں اور عمر میں آپ سے چھوٹی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے حقیقی بھائی تھے۔


ابتدائی زندگی
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 27 سال پہلے مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد ماجد بہت ہی اعلیٰ اخلاق و کردار کے حامل اور شریف النفس انسان تھے جنہوں نے اپنی اولاد کی اعلیٰ تربیت کی۔


قبول اسلام
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اعلان نبوت کے کچھ ہی دن بعد اسلام قبول کرلیا اس وقت صرف سترہ لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے جن میں پہلے مرد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے قبول اسلام میں آپ اٹھارویں نمبر پر تھیں۔


نکاح
حضرت اسماء کا نکاح مشہور و معروف صحابی رسول حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ جن کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھوپھی زاد اور ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے حقیقی بھتیجے تھے۔


ذات النطاقین کی وجہ تسمیہ
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب ہجرت مدینہ کا حکم ملا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا ہم سفر منتخب فرمایا۔ شب ہجرت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جاں نثار چچا زاد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو اپنے بستر پر سلایا اور خود سورہ یٰسین کی ابتدائی آیات پڑھتے ہوئے دشمنوں کے درمیان سے گزر کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے۔ مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے ایسا غافل کیا کہ انہیں خبر نہ ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کب اپنے کاشانہ اقدس سے باہر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹیوں حضرت عائشہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے ساتھ مل کر سامان خورد و نوش درست کیا۔ حضرت اسماء نے دو تین دن کا کھانا تیار کررکھا تھا۔ اسے ایک برتن میں ڈالا اور ایک مشکیزے میں پانی ڈالا۔ اتفاق سے کھانے والے برتن اور پانی والے مشکیزے کا منہ باندھنے کے لیے کوئی رسی نہ ملی۔ حضرت اسماء نے فوراً اپنا کمر بند (نطاق) کھول کر اس کے دو ٹکڑے کیے۔ ایک سے کھانے کا برتن کا اور دوسرے سے مشکیزے کا منہ باندھ دیا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اسماء کی اس خدمت سے بہت خوش ہوئے اور انہیں ذات النطاقین کا لقب دیا۔


ہجرت مدینہ
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضرت عبداللہ بن ابوبکر (بھائی) حضرت ام رومان (سوتیلی والدہ) اور حضرت عائشہ کے ہمراہ مدینہ کی طرف ہجرت کی بعد میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اپنی والدہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو لے کر مدینہ منورہ آگئے انہوں نے قبا میں مستقل اقامت اختیار کی۔


اولاد پاک
ہجرت مدینہ کے بعد ایک عرصے تک کسی مہاجر کے ہاں اولاد نہیں ہوئی اس پر یہود مدینہ نے مشہور کردیا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کردیا ہے اس وجہ سے ان کا سلسلہ نسل منقطع ہوگیا ہے۔ انہی دنوں 1 ہجری میں حضرت اسماء کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی جس پر مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی انہوں نے جوش مسرت میں اتنی زور سے نعرہ لگایا کہ دشت وجبل گونج اٹھے۔ یہودی سخت شرمندہ ہوگئے۔


بچے کو بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لایا گیا حضور نے کھجور چپا کر لعاب دہن کے ساتھ بچے کو گھٹی پلائی اور بچے کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسی بھانجے کے نام پر اپنی کنیت ام عبداللہ رکھی تھی۔


حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے حضرت اسماء کے پانچ صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں ان کے نام درج ذیل ہیں:


عبداللہ
خدیجۃ الکبریٰ
عروہ
ام الحسن
منذر
عائشہ
مہاجر
عاصم

ان آٹھ بچوں میں سے دو بچے تاریخ میں لازوال شہرت کے حامل ہوئے جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ہیں۔


حضرت اسماء کا فضل و کمال
حضرت اسماء علم و فضل کے اعتبار سے بھی بڑا اونچا درجہ رکھتی ہیں۔ ان سے 56 احادیث مروی ہیں۔ جن لوگوں نے حضرت اسماء سے احادیث روایت کی ہیں ان میں حضرت عبداللہ بن زبیر عروہ بن زبیر، ابوبکر عباد، عامر، فاطمہ بنت منذر، صفیہ بنت شیبہ شامل ہیں۔


حضرت اسماء کا صبرو تحمل
حضرت اسماء کی سیرت خواتین کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ نہایت صابرہ و شاکرہ خاتون تھیں ہجرت مدینہ کے بعد انہوں نے بہت مفلسی اور تنگدستی دیکھی تھی لیکن ہمیشہ شکر ادا کرتی رہیں۔ حضرت زبیر کی ساری متاع ایک گھوڑے اور ایک اونٹ پر مشتمل تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بنی نضیر میں کچھ زمین عنایت فرمائی تھی جہاں وہ معاش کا سامان پیدا کرتے تھے۔ حضرت اسماء وہاں جاکر چھوہاروں کی گھٹلیاں چنتیں اور کمر پر لاد کر گھر لاتیں پھر انہیں کوٹ کر اونٹ کے لیے خوراک بناتی تھیں۔ گھوڑے کے لیے گھاس کا انتظام کرتیں، پانی بھرتیں، گھر کے کاموں کے علاوہ باہر کے کام بھی کرتیں مگر کبھی بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ شروع شروع میں حضرت اسماء افلاس کی وجہ سے ہر چیز ناپ تول کر خرچ کرتیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسماء ناپ تول کر خرچ مت کیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی ناپ تول کر روزی دے گا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کو دل و جان سے قبول کیا اور کھلے دل سے خرچ کرنے لگیں تھوڑی ہی مدت میں ان کی مفلسی دور ہوگئی۔


حضرت اسماء کی سادگی اور فیاضی
خوشحالی کے بعد بھی انہوں نے سادگی ترک نہیں کی۔ روکھی سوکھی کھاتی اور موٹے کپڑے کا لباس پہنتی۔ ایک مرتبہ ان کے صاحبزادے عراق سے واپس آئے تو مال غنیمت میں کچھ زنانہ کپڑے ملے جنہیں حضرت اسماء نے لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے موٹے کپڑے پہنایا کرو۔


حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ماں سے بڑھ کر کسی کو فیاض نہیں دیکھا۔ وہ اپنی دولت خیرات میں خرچ کردیتی تھیں اور اولاد کو تلقین کرتیں کہ مال جمع کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اسے ضرورت مندوں کی ضروریات کے لیے خرچ کردینا چاہئے۔


عبادات و اخلاق
حضرت اسماء عابدہ اور زاہدہ تھیں۔ عبادت گزاری کی وجہ سے لوگ ان سے دعائے خیر کروانے کے لیے آتے تھے۔ وہ لوگوں کو دم کرتیں دعا کرتی اور ان کے سینے پر پانی چھڑکتیں انہوں نے اپنی زندگی میں کئی حج کئے۔ پہلا حج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا۔ آپ نہایت راسخ العقیدہ مسلمان تھیں۔
وہ بہادر اور نڈر خاتون تھیں
حضرت اسماء بہت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد وہ اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ جہاد کے لیے گئیں اور جنگ یرموک میں جنگی خدمات انجام دیں۔ حضرت سعد بن عاص کے دور میں مدینہ منورہ میں بہت بدامنی پھیل گئی تو وہ اپنے سرہانے خنجر رکھ کر سویا کرتی تھیں۔ حضرت عبداللہ ابن زبیر کی شہادت تاریخ کا ایک درد ناک باب ہے لیکن اس وقت بھی حضرت اسماء نے جس حق پرستی، بے خوفی، صبر و رضا اور جرات ایمانی کا ثبوت دیا وہ ان کی زندگی کا روشن باب ہے اور موجودہ معاشرے کی خواتین کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہی کی تربیت کا اثر تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر علم و فضل، زہد و تقویٰ، حق گوئی اور بے خوفی کا ایک مثالی پیکر بنے۔


وصال
اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ساتویں دن یا بعض روایات کے مطابق 20 دن کے بعد حضرت اسماء نے وفات پائی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 100 برس کے قریب تھی لیکن تمام دانت سلامت تھے۔ ہوش و حواس درست تھے۔


حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی زندگی میں مسلمان خواتین کے لیے نصیحت کے بیش بہا موتی پوشیدہ ہیں۔ آپ نے پوری زندگی صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھا۔ آپ نے اپنی طویل زندگی میں بے شمار نشیب و فراز دیکھے، انہوں نے دور جاہلیت بھی دیکھا، دور رسالت اور خلفائے راشدین کا عہد باسعادت بھی دیکھا، اپنے بیٹے کا مختصر دور خلافت بھی دیکھا اور ان کی المناک شہادت بھی دیکھی۔ آنے والی ہر مصیبت پر صبر کیا۔ ہر موقع پر بے پناہ عزم و استقلال اور جرات ایمانی کا مظاہرہ کیا۔ بلاشبہ وہ تاریخ اسلام کی ایک عظیم الشان شخصیت ہیں۔ ان کا درخشندہ کردار مسلمان خواتین کے لیے تا قیامت مشعل راہ بنا رہے گا کیونکہ ہمیں ایسی مائوں کی ضرورت ہے جو بدترین حالات میں بھی صبرو استقلال، صدق و صفا، جرات و دلیری اور حق و صداقت کے چراغ روشن رکھ سکیں۔​
 

@Mem00na
خوب صورت سوانح عمری
جزاک اللہ خیراً کثیرا
حضرت عائشہ صدیقہؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
شکریہ
عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش کے دن گزر گئے تھے اس لئیے یہ تفصیلاً موجود تھا پوسٹ کر دیا
 
Back
Top